0
Monday 10 Oct 2016 21:34

محرم الحرام میں یمنی جنازے پر حملہ

محرم الحرام میں یمنی جنازے پر حملہ
تحریر: سید اسد عباس

محرم الحرام یعنی حرمت والا مہینہ، عرب اس ماہ میں جنگ نہیں کرتے تھے، تاہم آج کل جزیرۃ العرب کو ایسے عربوں سے پالا پڑا ہے جو نہ حرمت والے مہینے کا پاس کرتے ہیں اور نہ بے گناہوں کی جان و مال کا، انہیں نہ عرب ثقافت کا پاس رہا اور نہ ہی اسلامی اقدار کا۔ 8 اکتوبر 2016ء کو سعودی طیارے نے یمنی وزیر داخلہ کے والد کے جنازے پر بمب برسائے، جس میں یمن کے بہت سے اہم افراد شریک تھے۔ اس جنازے کے اجتماع میں کتنی شہادتیں ہوئیں، اب تک متضاد اطلاعات سامنے آرہی ہیں۔ مغربی میڈیا کے مطابق جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد 140 اور زخمیوں کی تعداد 500 کے قریب ہے۔ امت ان ایام عزا میں 61 ہجری کے یزید کے مظالم اور نواسہ رسول (ص) کی قربانیوں کو یا د کرے یا ایک مسلمان ملک میں ہونے والے اس ظلم عظیم کا ماتم کرے۔ عالمی برادری جو یمن پر ہونے والے مظالم کے حوالے سے مسلسل مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے، اس موقع پر چپ نہ رہ سکی۔ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے ہی سہی اقوام متحدہ، یورپی یونین اور امریکہ نے اس حملے کی مذمت کی۔ عرب اتحادیوں نے بھی اس حملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ مقصد یہ کہ اس بہیمانہ حملے کا ایک ہی مجرم ہے اور وہ ہے خادم الحرمین کا دیس سعودی عرب۔

یمن کے تحقیقی ادارے کے اہم رکن اور تجزیہ نگار کے مطابق جنازے پر حملہ یمنی ثقافت میں ایک سرخ لکیر ہے، اس حملے میں یمن کے مختلف قبائل کے سربراہ اور اہم افراد قتل ہوئے۔ اس حملے نے بہت سے قبائل کو حوثیوں سے قریب تر کر دیا ہے۔ یہ حملہ یمنی عوام کے لئے کسی قیامت سے کم نہیں ہے۔ آج جب ان شہداء کے جنازوں کے لئے لوگ جمع ہوئے تو اقوام متحدہ کا رخ کیا اور اس حملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا۔ دوسری جانب سابق صدر علی عبد اللہ صالح نے عوام سے کہا کہ وہ ہتھیار بند ہو کر سعودی بارڈر کا رخ کریں۔ انصار اللہ اور یمن کے قبائل یقیناً اس حملے کو فراموش نہیں کریں گے۔ انصار اللہ کے سربراہ سید عبد المالک الحوثی نے اتوار کو اپنی تقریر میں کہا کہ یہ حملہ امریکہ اور سعودی حکومت کی بوکھلاہٹ کا مظہر ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ یمنیوں کو قتل کر رہے ہیں، وہ اخلاقی طور پر دیوالیہ پن کا شکار ہیں، جس کے سبب وہ ہر طرح کے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سعودی اس جنگ میں امریکی اسلحہ اور فوجی مدد سے یمنیوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ وہاں حملہ کرتے ہیں، جہاں امریکہ نشاندہی کرتا ہے۔ سید عبد المالک الحوثی نے کہا کہ اس قتل کا بدلہ لینے کے لئے عمومی تحرک کی ضرورت ہے، اللہ مجاہدین اور صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

18 ماہ سے جاری اس جنگ میں تقریباً دس ہزار یمنی شہری لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ وہ جمہوریت جسے قائم کرنے کے لئے عرب اتحادی افواج نے حملوں کا آغاز کیا تھا، اب ہوا میں تحلیل ہوچکی ہے۔ حوثی اور ان کے اتحادی ملک میں اپنے وجود کو مستحکم کرچکے ہیں۔ وہ اپنے پہلے دن کے موقف سے ایک قدم پیچھے نہیں ہٹے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہیں مخالف قوتوں کی بھی حمایت حاصل ہو رہی ہے۔ اس ہاری ہوئی جنگ میں عرب اتحادی اب جس قدر مظالم کریں گے، انہیں ندامت اور جگ ہنسائی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوگا، لیکن طاقت کے نشے میں چور شیوخ کو کون سمجھائے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے، ایک 61 ہجری کا جابر و ظالم تھا جس نے پورے کنبہ اور تمام انصار کو قتل کرکے یہ سمجھا کہ فتح اس کا مقدر ہوگئی اور ایک آج کا جابر ہے، جو جدید ہتھیاروں کو استعمال کرکے اپنی حاکمیت کو باور کروانے کے لئے کوشاں ہے۔ واقعہ کربلا کی یاد اور اس کا عقیدت و احترام سے منایا جانا بتاتا ہے کہ 61 ہجری کا جابر اپنے منصوبے میں بری طرح ناکام ہوا، آج 1438ھ کے جابر کو بھی جان لینا چاہیے کہ کسی بھی قوم کا گلا جبر و ستم کے ذریعے نہیں دبایا جاسکتا۔

تاریخ گواہ ہے کہ ہر جابر اور ظالم وقت کی بے رحم گھڑیوں کا نشانہ بنا اور مظلوم ہمیشہ سربلند و سرافراز ہوا۔ شاید وقت ایک مرتبہ پھر اسی بے رحم گھڑی کی جانب رواں دواں ہے۔ سعودی معیشت ابتری کی جانب گامزن ہے، کئی کمپنیاں دیوالیہ ہوگئیں، وزراء اور حکومتی اراکین کو دی گئی مراعات واپس لی جا رہی ہیں، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں پندرہ فیصد کمی کی گئی۔ اس مملکت کے دنیا میں پھنسے ہوئے اثاثوں کو ہتھیانے کے منصوبے تشکیل پا رہے ہیں، شاہی خاندان کے اندر موجود اختلافات کھل کر سامنے آرہے ہیں، ملک کے عوام اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کر رہے ہیں، تیل کی گرتی ہوئی قیمتیں روز بروز بجٹ خسارے میں اضافے کا باعث ہیں۔ خدا کی لاٹھی یقیناً بے آواز ہے۔ بے گناہ یمنی انسانوں کا خون دنیا کی کوئی طاقت نہ دیکھے، خدا کی ذات ضرور دیکھ رہی ہے۔ چاروں جانب سے محاصرے میں گھری ہوئی یہ پسماندہ قوم خدا کے علاوہ کسی طاقت سے مدد کی توقع نہیں رکھ سکتی۔ شمالی سرحد پر سعودی افواج اور جنوبی جانب سمندر، جس میں عالمی اور علاقائی طاقتوں کا کڑا پہرہ۔ ہتھیار اور ضروریات زندگی آئیں بھی تو کس جانب سے۔ بھلا ہو سعودیہ کا جس نے ایسا بہیمانہ حملہ کرکے یمنی قبائل کو باور کروا دیا کہ اتحاد کے علاوہ بچنے کی کوئی صورت نہیں بچی۔ اب انہیں مل کر اپنے مشترکہ قاتل کا مقابلہ کرنا ہے۔ اس وقت کا انتظار کریں:
جب تخت گرائے جائیں گے جب تاج اچھالے جائیں گے
بقول فیض احمد فیض:
اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں، اب زندانوں کی خیر نہیں
جو دریا جھوم کے اْٹھے ہیں، تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے
یقیناً یہ صورتحال امت مسلمہ کے چند گروہوں کے لئے قابل تحمل نہیں ہوگی، بلکہ شاید ہم سب کے مفاد میں نہ ہوتا، ہم ظلم جب حد سے بڑھ جائے تو اس طرح کے واقعات کے لئے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے۔
خبر کا کوڈ : 574480
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش