12
2
Thursday 3 Nov 2016 01:40

لبنان کی سیاسی صورتحال پر ایک تازہ نظر

لبنان کی سیاسی صورتحال پر ایک تازہ نظر
تحریر: عرفان علی

لبنان کی تازہ ترین صورتحال پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ حزب اللہ کے اتحادی مارونی مسیحی میشل عون 128 کی پارلیمنٹ میں 83 ووٹ حاصل کرکے صدر منتخب ہوچکے ہیں۔ مئی 2014ء میں صدر میشل سلیمان کی مدت صدارت کے اختتام کے بعد سے لبنان میں نئے صدر کے انتخاب کے لئے پارلیمنٹ کے 45 ناکام اجلاسوں کے بعد 46واں اجلاس ہوا، جس میں 127 اراکین نے شرکت کی۔ لبنان کے وزیر خارجہ جبران باسل جو مشعل عون کے داماد بھی ہیں، انہوں نے کہا کہ نئے صدارتی الیکشن میں فری پیٹریاٹک یونین کے امیدوار کی کامیابی میں حزب اللہ بھی حصے دار ہے اور حزب اللہ کی وفاداری اور ایمانداری پر ان کی جماعت کو کبھی بھی کوئی شک و شبہ نہیں رہا۔ حزب اللہ کی استقامت کے نتیجے میں میشل عون کے بدترین سیاسی حریف سمیر جعجع اور سعد حریری بھی 81 سالہ مشعل عون کی حمایت پر مجبور ہوئے۔ ان دونوں کی ضد کی وجہ سے لبنان کو دو سال سے زیادہ کا عرصہ بغیر صدر کے گذارنا پڑا، ورنہ میشل عون بہت پہلے صدر منتخب ہوچکے ہوتے۔ نئے منتخب صدر کی سب سے بڑی اور اولین ترجیح سیاسی استحکام اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنا ہے اور وہ بھی اس طرح کہ خطے میں پھیلی ہوئی آگ کا کوئی شعلہ لبنان نہ پہنچ سکے۔ انہوں نے صدر منتخب ہونے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں واضح کیا کہ وہ (جعلی ریاست) اسرائیل کے زیرقبضہ لبنانی علاقوں کی آزادی کے لئے ہر ممکن کوشش کریں گے۔

درحقیقت انکا یہ موقف بھی حزب اللہ کا موقف ہے۔ اس طرح وقتی طور پر حزب اللہ کو بیک وقت دو سیاسی کامیابیاں ملی ہیں، یعنی ان کا حمایت یافتہ امیدوار صدر بن گیا اور اس پر مستزاد یہ کہ انکا اتحادی مقاومت اسلامی کے موقف کو صدارتی محل میں بیٹھ کر دہرا رہا ہے۔ جیسا کہ ہم ماضی میں لبنان کے غیر عادلانہ سیاسی نظام کے بارے میں بعض مقالوں میں بعض نکات بیان کرچکے ہیں، ان کی تکرار یہاں مناسب نہیں، اس کے لئے ’’ڈیموگرافی کی سیاست‘‘ اور ’’لبنان کے سیاسی حالات‘‘ کے عنوان سے لکھی گئی تحریروں کا مطالعہ فائدہ مند رہے گا اور یہ دونوں اسلام ٹائمز کے ریکارڈ میں موجود ہیں۔ لبنان کے سیاسی نظام میں لازمی قرار دیا گیا ہے کہ صدر مارونی مسیحی ہوگا، وزیراعظم سنی عرب اور اسپیکر پارلیمنٹ (مجلس النواب) شیعہ ہوگا۔ ابھی صدر کا انتخاب ہوا ہے اور حالات یہ بتا رہے ہیں کہ قومی مفاہمت کی پالیسی کے تحت 46 سالہ سعد حریری وزیراعظم منتخب ہوجائیں گے۔ بدھ دو نومبر کو اس سلسلے میں لازمی پارلیمانی مشاورت کا آغاز ہوچکا ہے۔ نجیب میقاتی، فواد سنیورا، سلام، لبنانی پارلیمنٹ کے ڈپٹی سپیکر فرید، اراکین پارلیمنٹ بطرس حرب، مشعل ال مر اور نائلہ توئینی نے سعد حریری کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ لبنان کے ذرایع ابلاغ کی تازہ ترین خبروں کے مطابق سعد حریری کو 86 اراکین پارلیمنٹ کی حمایت حاصل ہوچکی ہے۔

جمعرات 3 نومبر کو لازمی پارلیمانی مشاورت کا دوسرا دن ہوگا اور شیعہ جماعت امل کے سربراہ نبیہ بری جو پارلیمنٹ کے اسپیکر بھی ہیں، وہ صدر سے ملاقات کریں گے۔ حزب اللہ کی مجتہدین کمیٹی کے سربراہ آیت اللہ شیخ محمد یزبک نے واضح کیا ہے کہ حزب اللہ اور امل کے درمیان قربتوں کو دنیا کی کوئی طاقت ختم نہیں کرسکتی۔ انہوں نے زور دے کر مطالبہ کیا کہ لبنان میں اتفاق رائے سے سبھی پر مشتمل حکومت قائم کی جائے، جس میں (آبادی کے ہر حصے کی یعنی) سبھی کی نمائندگی ہو۔ امل کے سربراہ نبیہ بری نے کہا ہے کہ نئے وزیراعظم کے معاملے میں وہ سلیمان فرنجیہ اور ولید جنبلاط کے ساتھ ہوں گے۔ جنبلاط نے سعد حریری کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ وزیراعظم کی نسبت صدر لبنان میں زیادہ طاقتور شخصیت ہے۔ اس کے باوجود یہ نکتہ بھی ذہن میں رہے کہ سعد حریری سعودی عرب کے لاڈلے ہیں، باوجود اس کے کہ سعودی عرب نے لبنان کی کمپنیوں کو سعودی عرب سے نکال باہر کر دیا ہے اور امریکہ کے شانہ بشانہ لبنان کے خلاف اقدامات میں برابر کا شریک بن چکا ہے۔ 20 اکتوبر 2016ء کو العربیہ چینل نے خبر دی تھی کہ لبنان کے محمد ال موھتر فلاح کیلس اور حسن حاتم جمال الدین گلبل کلین اس اے آر ایل نامی کمپنی جس کا صدر مقام بغداد ہے، ان پر پابندیاں عائد کر دیں، کیونکہ انکا تعلق سعودی الزامات کے مطابق لبنان کی حزب اللہ سے تھا۔

مارچ 2016ء میں سعودی عرب کے اکسانے پر عرب لیگ نے بھی حزب اللہ کو نسل پرست صہیونی اسرائیل کے مقابلے میں عرب اسلامی مقاومت کرنے پر دہشت گرد قرار دیا تھا، اس کی دیکھا دیکھی خلیجی تعاون کاؤنسل نے بھی لبنان دشمن اقدامات کئے تھے۔ امریکہ نے حزب اللہ پر متعدد قسم کی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور حزب اللہ کے خلاف امریکی قانون ساز اداروں نے قوانین منظور کر رکھے ہیں۔ سعودی وزیر ثامر السبھان جو پہلے عراق میں سعودی سفیر تھا اور بغداد حکومت نے اسے ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر سعودی حکومت سے اس کی تبدیلی کا مطالبہ کیا تھا، یہ شخص اکتوبر میں بیروت کے دورے میں سعد حریری سے مشاورت کرچکا ہے۔ اس زاویے سے دیکھیں تو حزب اللہ ایک اور مرتبہ 2016ء جیسی صورتحال سے دوچار ہوسکتی ہے کہ جب لبنان کی حکومت میں موجود سعودی امریکی مہرے در پردہ حزب اللہ کے خلاف سازشوں میں مصروف تھے۔ یہاں مشعل عون کو زیادہ ہشیار رہنے کی تاکید ضروری ہوگی۔

سعد حریری نے فی الحال یہ بیان دیا ہے کہ لبنان، اس کے سیاسی نظام، ریاست لبنان اور لبنانی عوام کو بچانے کے لئے مشعل عون کی حمایت کی ہے۔ اگر وہ اس بیان کے واقعی پابند رہیں تو انہیں لبنانی ریاست اور عوام کی آزادی کے لئے حزب اللہ کی بھی دل سے حمایت کا قائل ہونا پڑے گا، کیونکہ لبنان اگر آج دنیا میں سربلند ہے اور اس کی دنیا میں کوئی پہنچان ہے تو وہ حزب اللہ ہے نہ کہ امریکہ، سعودی عرب یا فرانس۔ انہیں یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ اب تک صدر کے انتخاب نہ ہونے کی وجہ سعودی عرب کی مداخلت تھی اور سعودی بادشاہت کی خواہش تھی کہ حزب اللہ کا اتحادی صدر نہ بننے پائے۔ اس طرح حزب اللہ ایک محاذ پر کامیاب تو ہوئی ہے اور صدارتی محل میں سعودی عرب کا اثر و رسوخ کم تو ہوا ہے، لیکن دیگر مہروں کی صورت میں سعودی عرب پیٹھ میں چھرا گھونپ سکتا ہے، اس لئے لبنان کے عوام و خواص کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ درحقیقت لبنان کی تلخ سیاسی حقیقت کا مشکل ترین پہلو یہی حقیقت ہے کہ حزب اللہ منافقین کے گھیرے میں ہے اور نہیں معلوم کہ کب کونسا مہرہ دشمنوں کے ہاتھوں بک جائے۔

امریکہ کی سازش یہ ہے کہ لبنان کے ان سیاستدانوں اور مختلف برادریوں میں تقسیم کے ذریعے اسے جعلی ریاست، نسل پرست دہشت گرد صہیونی اسرائیل کے خلاف تر نوالہ بنا دیا جائے۔ امریکہ کی سازش یہ ہے کہ لبنان کی فوج اور حکومت کو حزب اللہ کے خلاف اقدامات پر مجبور کرے۔ سعودی عرب کی سازش یہ تھی کہ تین تا چار ارب ڈالر کی امداد سے لبنان کی قومی خود مختاری کو خرید کر اسے حزب اللہ کے خلاف استعمال کرے، جو لبنان نے مسترد کر دی۔ سازشیں ختم نہیں ہوئی ہیں۔ اب سازشوں کو نئے طور طریقوں سے نئی نقابیں اوڑھا کر بھی لایا جاسکتا ہے، ورنہ پرانے مہروں کے توسط سے بھی وہی اوچھے ہتھکنڈے دوبارہ آزمائے جاسکتے ہیں۔ سعودی و امریکی سازشوں کے بارے میں بھی ہم ماضی میں تفصیلات بیان کرچکے اور ان کی تکرار بھی مناسب نہیں۔ بس دعا صرف یہ ہے کہ خدا لبنان کی حزب اللہ کو کامیاب کرے اور پوری دنیا میں امت حزب اللہ کو دشمنوں کے شر سے پناہ میں رکھتے ہوئے اپنے اپنے محاذوں پر کامیاب و کامران فرمائے، خواہ مسلح مقاومت ہو یا سیاسی میدان۔
خبر کا کوڈ : 580588
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

سید احسن مہدی
ماشاء اللہ ۔۔۔ بہترین تجزیہ ہے لبنان کی موجود صورتحال پر، بہتر ہوتا اگر صدارتی انتخابات دیر سے ہونے کی چند اہم وجوہات یا سازش مختصراً بیان کی جاتی تو۔۔۔!!
تسکین
Pakistan
ماشاء اللہ، بہت خوبصورت تجزیہ اور لبنان کے اندرونی حالات حاضرہ کا تفصیلی جائزہ۔ excellent irfan ali sb
Pakistan
For Mr. Ahsan Mehdi. Please read again these sentences because it is already mentioned in this article why ???
انہیں یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ اب تک صدر کے انتخاب نہ ہونے کی وجہ سعودی عرب کی مداخلت تھی اور سعودی بادشاہت کی خواہش تھی کہ حزب اللہ کا اتحادی صدر نہ بننے پائے۔
حزب اللہ کی استقامت کے نتیجے میں میشل عون کے بدترین سیاسی حریف سمیر جعجع اور سعد حریری بھی 81 سالہ مشعل عون کی حمایت پر مجبور ہوئے۔ ان دونوں کی ضد کی وجہ سے لبنان کو دو سال سے زیادہ کا عرصہ بغیر صدر کے گذارنا پڑا، ورنہ میشل عون بہت پہلے صدر منتخب ہوچکے ہوتے۔
کریمی
Iran, Islamic Republic of
خیلی خوب عرفان صاحب
نوشاد
Pakistan
ماشاء اللہ عرفان بھائی
Pakistan
Update
Sayyed Nasrallah: Berri is the Major Guarantee in Difficult Times, We Trust Aoun

Hezbollah’s S.G. assured that what’s between Hezbollah and President Aoun was nothing but trust, “we don’t have any bargains or deals with him over presidency.” “We trust this man and we have confidence in him as an independent and patriot man who doesn’t follow any foreign agenda,” Sayyed Nasrallah pointed.
http://english.almanar.com.lb/89241
روزی علی
ماشاءاللہ عرفان صاحب
گہرا تجزیہ ہے۔ مقاومتی محاذ کو درپیش ممکنہ نئے خطرات کی طرف مدلل انداز میں اشارہ کیا ہے اور ان سے نمٹنے کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔
عرفان علی
Pakistan
روزی بھائی سمیت سارے دوستوں کی محبتوں کا شکریہ و التماس دعا
Pakistan
لبنان، سعودی بادشاہت کے پاگل پن کا نیا ہدف
https://www.islamtimes.org/ur/doc/article/525893/
لبنان کی حزب اللہ اور ناکام سعودی مہرے
https://www.islamtimes.org/ur/doc/article/536007/
Europe
mashallah
Europe
mashallah
Europe
mashallah
ہماری پیشکش