0
Tuesday 13 Dec 2016 10:36

امت مسلمہ کی "میڈ اِن اسرائیل" قیادت۔۔۔؟؟؟

امت مسلمہ کی "میڈ اِن اسرائیل" قیادت۔۔۔؟؟؟
تحریر: ابو فجر

پاکستان اور ترکی میں بہت سے چیزیں مشترک ہیں اور آج کل دونوں ممالک کی دوستی بھی عروج پر ہے۔ پاکستان کو جہاں بھی ترکی کی ضرورت پڑتی ہے، ترکی شانہ بشانہ ہوتا ہے۔ یہ "قدر مشترک" اس قدر ہم آہنگ ہوچکی ہے کہ رجب طیب اردوان نے بھی پاکستانی صدر ضیاءالحق کی طرح "امیر المومنین" بننے کی ٹھان لی ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردوان کیخلاف بغاوت کی ناکامی کے بعد ان کی طاقت میں غیر معمولی اضافہ ہو رہا ہے اور یہ اضافہ صرف سیاسی ہی نہیں بلکہ اسے قانونی و آئینی شکل بھی دی جا رہی ہے۔ ایک جانب بغاوت میں ملوث ہزاروں افراد کو قانونی کارروائی کا سامنا ہے تو دوسری جانب ترک صدر کو مزید مضبوط کرنے کیلئے پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کر دیا گیا ہے، جس کی منظوری کے بعد ناصرف صدر کے اختیارات میں غیر معمولی اضافہ ہو جائے گا بلکہ وزارت عظمٰی کے اختیارات بھی ان کے پاس آجائیں گے۔ نیوز چینل الجزیرہ نے ایک رپورٹ جاری کی ہے، جس کے مطابق 21 شقوں پر مشتمل آئینی ترمیم کا بل حکمران جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی جانب سے پیش کیا گیا ہے۔ اگر یہ بل منظور ہوگیا تو ترکی کا موجودہ آئینی ڈھانچہ ہی تبدیل ہو جائے گا اور صدر کے پاس ایگزیکٹو اختیارات بھی آجائیں گے۔

پارلیمنٹ میں بحث سے پہلے یہ بل متعلقہ پارلیمانی کمیشن میں زیربحث لایا جائے گا۔ پارلیمنٹ میں بحث کے بعد منظوری کی صورت میں اس پر ریفرنڈم کروایا جائے گا۔ یہ ریفرنڈم بہار 2017ء میں متوقع ہے۔ واضح رہے کہ رجب طیب اردوان اس سے پہلے تین دفعہ ترکی کے وزیراعظم کے طور پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ وہ 2014ء میں مقبول ووٹ سے منتخب ہونیوالے ملک کے پہلے صدر بھی ہیں۔ ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ 2007ء اور 2010ء کی آئینی ترمیم کے بعد ترکی صدارتی نظام کی جانب بڑھ چکا ہے، جس کے پیش نظر صدر کے اختیارات میں اضافے کا موجودہ بل ضروری تھا۔ اس آئینی ترمیم کو ترک جمہوریت کی تاریخ میں ایک اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب اپوزیشن جماعتیں اسے ترک جمہوریت کیلئے خطرہ قرار دے رہی ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ ایک ہی شخص کے پاس تمام اختیارات جمع کرنا جمہوریت کی روح کے منافی ہے اور اسے جمہوریت کی بجائے آمریت کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ اپوزیشن جماعتیں پارلیمانی بحث کے دوران اس بل کو چیلنج کرنے کی تیاری کر رہی ہیں۔ واضح رہے کہ نئی آئینی ترمیم کے نتیجے میں صدر کو اجازت ہوگی کہ وہ کسی سیاسی جماعت کا حصہ ہوتے ہوئے اپنے فرائض سرانجام دے سکے۔ وزارت عظمٰی کے تمام اختیارات بھی اس کے پاس ہوں گے اور اعلٰی ترین عدالتی بورڈ کے 12 میں سے 6 ارکان کی تقرری کا بھی اختیار اس کے پاس ہوگا۔ مجوزہ قانون کے مطابق صدر 2 بار 5 سال کے عرصے کیلئے منتخب ہوسکے گا، جس میں رجب طیب اردوان کا موجودہ دور صدارت شمار نہیں ہوگا۔

رجب طیب اردوان کو "امیر المومنین" بنانے کیلئے اسرائیل سرمایہ کاری کر رہا ہے اور ترکی کو آگے لانے کا مقصد عرب دنیا میں ایران کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو روکنا ہے۔ سعودی عرب میں آل سعود کے کردار سے امت مسلمہ بالعموم اور اہل عرب بالخصوص مایوس ہوچکے ہیں۔ اس مایوسی کے بعد قیادت کا ایک خلا پایا جا رہا ہے، جس کو پُر کرنے کیلئے اہل عرب حزب اللہ (لبنان) کے حسن نصراللہ اور ایران کے سید علی خامنہ ای کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ عربوں کا جھکاؤ سید حسن نصراللہ کی طرف زیادہ ہے، جس سے اسرائیل سمیت استعماری قوتیں پریشان ہیں اور اسی تناظر میں ترکی کی قیادت کی حمایت کی جا رہی ہے اور اسے ایک منصوبہ بندی کے تحت "اسلامی دنیا کی قیادت" کے طور پر آگے کیا جا رہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ امت مسلمہ حقیقی قیادت کی پیروی کرتی ہے یا "میڈ ان اسرائیل" رجب طیب اردوان کے پیچھے چلتی ہے؟؟؟
خبر کا کوڈ : 591240
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش