0
Wednesday 21 Dec 2016 20:49

داعش کا اگلا ہدف کیا ہوگا؟

داعش کا اگلا ہدف کیا ہوگا؟
تحریر: صابر کربلائی

داعش یعنی ’’دولۃ الاسلامیہ عراق و شام‘‘ یعنی یہ وہ مقصد تھا، جس کے حصول کے لئے اقوام متحدہ کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کے 80 سے زائد ممالک سے دہشت گردوں نے پہلے شام کا رخ کیا اور پھر عراق میں جا دھمکے، ان کا مقصد تھا کہ عراق اور شام میں اسلامی حکومت یا خلافت کا نظام رائج کرنا۔ اس کام کے لئے انہوں نے اپنا ایک خلیفہ منتخب کیا، جس کا نام ابو بکر البغدادی تھا، جو ماضی میں عراق میں امریکی زیر انتظام قائم جیلوں میں سی آئی اے سے تربیت پاتا رہا اور پھر امریکہ و اسرائیل کی اسکیم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے داعش کا سربراہ بن بیٹھا۔ میں جب بھی داعش لکھتا ہوں یا پڑھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ آخر دولۃ الاسلامیہ عراق و شام ہی کیوں؟ دولۃ الاسلامیہ تو تمام مسلمان ممالک میں ہونی چاہئیے تھی، پہلے تو ان ممالک کے اندر بہت شدت سے اس کی ضرورت محسوس کی جانی چاہئیے کہ جہاں پر مطلق العنان بادشاہتیں موجود ہیں، تو پھر ایسا کیوں ہے کہ صرف شام اور عراق میں۔؟ بہر حال یہ سوال یقیناً میری طرح لاکھوں کروڑوں اذہان میں موجود ہوگا، لیکن اس کا جواب ابھی تک آنا باقی ہے۔

داعش کا وجود جو سب سے پہلے شام میں نمودار ہوا اور پھر پانچ سال تک نہ صرف امریکہ اور اسرائیل نے اس دہشت گرد گروہ کی مدد کی، بلکہ خطے کی عرب بادشاہتیں بھی اس کام میں کسی سے پیچھے نہ تھیں۔ ان سب کا ہدف یہی تھا کہ بس شام کی حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے، داعش کی نام نہاد اسلامی خلافت کا قیام عمل میں لایا جائے اور بعد میں شام اور عراق جیسے ممالک کو تین تین ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا جائے، تاکہ خطے میں اسرائیلی مفادات کا تحفظ یقینی ہو، اسرائیل کے خلاف اٹھنے والی کسی بھی مزاحمت کو دبایا جائے اور مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں اٹھنے والی آوازوں کا گلا گھونٹ دیا جائے۔ بہرحال شام میں پانچ سال کے عرصے میں ان مغربی اور عربی حمایت یافتہ دہشت گرد گروہوں بالخصوص داعش نے بہت بڑے پیمانے پر خونریزی کا بازار گرم کئے رکھا، لیکن بالآخر شامی افواج کی انتھک کوششوں کے نتیجہ میں شام کا مشہور معرکہ جسے ’’حلب‘‘ کے عنوان سے پہچانا جاتا ہے، وہ بھی شامی افواج کے ہاتھوں فتح ہوا ہے، داعش کو ذلت آمیز اور بدترین شکست اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ خبریں یہاں تک بھی ہیں کہ بھاگنے والے داعشی دہشت گرد خواتین کے حلیوں اور لباسوں میں بھاگتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں۔

شام کا شہر حلب جو گذشتہ کئی برس سے داعش کے شکنجہ میں تھا، اب آزاد ہوچکا ہے، عالمی ذرائع ابلاغ پر نشر ہونے والی خبروں میں بتایا جا چکا ہے کہ روس، چین، ایران، شام کے بے مثالی اتحاد کے بدولت شام کو یہ فتح نصیب ہوئی ہے اور پورے شام پر اب شامی حکومت کا مکمل کنٹرول ہے۔ یہ بات شام سے باہر دیگر ممالک میں بالخصوص پاکستان میں داعش کے حامی اور داعشی فکر کے لوگوں کو بڑی ناگوار گزر رہی ہے کہ شام پانچ سال کے بعد بالآخر مضبوط انداز میں موجود ہے اور داعش سمیت ان کے امریکی، اسرائیلی اور عرب آقاؤں کے خواب چکنا چور ہوگئے ہیں تو اب صورتحال یہ ہے کہ حلب کی فتح پر جہاں پورے شام کے عوام جنہوں نے پانچ سال تک قربانیاں دی ہیں، نہ صرف شکرانہ بجا لائے ہیں بلکہ داعش کی اس ذلت آمیز شکست پر جشن منا رہے ہیں اور یقیناً جشن منانا ان کا حق بھی ہے۔

افسوس کی بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں کچھ ناعاقبت اندیش افراد جو کہ اساتذہ، کالم نگاروں اور دانشوروں کے لبادے میں موجود ہیں، انہوں نے حلب میں داعش کی شکست کا نوحہ پاکستان میں اس طرح شروع کیا ہے، جیسے کشمیر کو پاکستان سے ہندوستان نے چھین لیا ہو اور پاکستان کا بچہ بچہ اس پر سوگوار ہو، حالانکہ ہونا تو یہ چاہئیے کہ شامی عوام کی خوشی میں ان سب کو خوش ہونا چاہئیے کہ ان مظلوموں کو داعش جیسے خونخوار بھیڑیوں سے نجات حاصل ہوئی، جن کی درندگی کا نشانہ نہ صرف مسلمان بلکہ عیسائی اور دیگر مذاہب کے لوگ بھی بنتے رہے، جہاں مسلمانوں کی مساجد کو تباہ کیا گیا وہاں قدیم تاریخی کلیساؤں کو بھی بم دھماکوں سے اڑانے والے یہی داعشی تھے۔ اسی طرح پیغمبر گرامی قدر حضرت محمد (ص) کے جلیل القدر صحابہ کرام کے مزارات مقدسہ کو بم دھماکوں سے اڑانے والے بھی یہی داعشی درندے تھے، لیکن حیرت کی بات ہے کہ جس روز سے حلب میں شامی افواج اور عوام کو فتح و کامرانی حاصل ہوئی ہے، اسی روز سے ہی پاکستان میں کچھ مخصوص داعشی سوچ کے حامل افراد نے معصوم اذہان کو اپنے ناپاک اور مذموم عزائم کے لئے بھڑکانا شروع کر دیا ہے اور ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ داعش کی شکست شام میں نہیں بلکہ پاکستان میں ہوئی ہے۔

کیا داعش کا اگلا ہدف پاکستان ہوگا؟ یہ سوال نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے باشعور افراد کے اذہان میں جنم لے رہا ہے۔ میں نے ماضی میں ایک کالم میں تذکرہ کیا تھا کہ داعش پاکستان میں موجود ہے اور آج ان تمام حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے پھر یہی تکرار کرتا ہوں کہ داعش پاکستان میں موجود ہے اور اب حلب سے فرار کرکے افغانستان پہنچنے والے داعشی دہشت گردوں کے لئے اگلی پناہ گاہ شاید پاکستان ہی نہ ہو، کیونکہ یہاں پہلے سے ہی داعش کے ہم فکر لوگ موجود ہیں، جو ان کی آمد کے منتظر ہیں۔ حلب میں بدترین شکست کا سامنا کرنے کے بعد اب داعش کی بہت بڑی تعداد افغانستان پہنچ چکی ہے اور ماہرین سیاسیات کا کہنا ہے کہ دراصل افغانستان میں داعش کا وجود جو پہلے خفیہ تھا، اب اعلانیہ ہوگا اور داعش کا اگلا ہدف اب پاکستان بھی ہوسکتا ہے۔

پاکستان پر داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کی پہلے بھی نظر رہی ہے اور اب شام اور عراق جو ان کے بنیادی مقاصد تھے، وہاں پر ناکامی کے بعد بالآخر اب افغانستان پہنچ چکے ہیں اور روس کبھی بھی ان داعشی دہشت گردوں کو افغانستان میں نہیں رہنے دے سکتا تو نتیجہ میں یہ داعشی دہشت گرد اس لئے بھی پاکستان کا رخ کرسکتے ہیں کہ یہاں پہلے سے ہی داعش کی فکر پروان چڑھانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے اور ماضی میں اسی فکر کا قلع قمع کرنے کے لئے ہی افواج پاکستان نے ایک بھرپور اور کاری ضرب لگاتے ہوئے ضرب عضب آپریشن کا آغاز کیا تھا، جس کے نتائج بھی مثبت آئے اور داعش کی فکر رکھنے والے دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ گئی تھی، لیکن تاحال انہی دہشت گردوں کے نیٹ ورکس پاکستان بھر میں موجود ہیں، جن پر حکومت اور افواج پاکستان کو مزید توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ امریکہ، اسرائیل، برطانیہ اور مغربی سامراج سمیت عرب بادشاہتیں بھی اپنی بادشاہتوں کے تخت کو بچانے کی خاطر یہی چاہتے ہیں کہ دنیا کے دیگر مسلمان ممالک میں بننے والی حکومتوں کو کمزور ترین حکومتیں بنایا جائے، جو اپنے دفاع کے لئے بھی یا تو مغرب سے بھیک مانگیں یا پھر عرب بادشاہوں سے بھیک مانگتے رہیں اور اس کام کے لئے مغربی اور عربی سامراج نے مشترکہ طور پر ایک پراڈکٹ شام اور عراق میں متعارف کروائی تھی، جسے اب ناکامی ہوچکی ہے تو لٰہذا اب اس پراڈکٹ کو بچانے کے لئے دوسرے ممالک کا انتخاب کیا جا رہا ہے، جس میں افغانستان اس کی لپیٹ میں آچکا ہے اور اگر داعش کی ذلت آمیز شکست و رسوائی کا نوحہ پاکستان میں اسی طرح ہوتا رہا تو ایسا لگ رہا ہے کہ ایک سال سے بھی کم عرصہ میں داعش جیسی لعنت علی الاعلان پاکستان میں داخل ہو جائے گی، یہاں پر داعش کے سلیپنگ سیلز بھی حرکت میں آسکتے ہیں، حکومت جو پہلے ہی پنامہ اور دیگر مسائل میں پھنسی ہوئی ہے، نہ جانے کس طرح اس خطرے کا مقابلہ کر پائے گی۔

یقیناً یہ ایک غور طلب اور سنجیدہ معاملہ ہے، جس پر اہل اقتدار، ہمارے سکیورٹی کے ادارے بھی متوجہ ہوں گے اور اپنے وطن کے دفاع کی خاطر انتھک محنت کرتے ہوئے ہمیشہ کی طرح اس وطن عزیز کو کہ قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کا پاکستان بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں گے۔ ان شاء اللہ دشمنان اسلام و پاکستان نیست و نابود ہوں گے، خواہ وہ داعش کی صورت میں ہوں یا پھر کسی اور صورت میں ہی کیوں نہ ہوں۔ سوال پھر وہی ہے کہ آخر دولۃ اسلامیہ صرف عراق اور شام میں ہی کیوں؟ یا پھر اب افغانستان ہی اس کا نشانہ کیوں؟ خاکم بدہن یا پھر پاکستان کیوں؟ کیا دولۃ اسلامیہ کی ضرورت عرب دنیا میں کہ جہاں مطلق العنان بادشاہتیں موجود ہیں وہاں پر نہیں ہے۔؟
خبر کا کوڈ : 593798
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش