0
Thursday 16 Feb 2017 18:20

اسلامی انقلاب کے 38 کامیاب سال

اسلامی انقلاب کے 38 کامیاب سال
تحریر: سید نیاز حسین نقوی

بعثت پیغمبر (ص) کا ایک اہم مقصد "اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کا نفاذ" تھا، جو کہ رسول اکرم (ص) نے سرزمین حجاز پر قائم کرکے اسلامی حکومت کا عملی نمونہ پیش کیا۔ مختلف ادوار میں اس الٰہی نظام کے تسلسل کی کوششیں کی جاتی رہیں۔ 1979ء میں امام خمینی (رہ) کی قیادت میں ایران میں آنیوالا انقلاب انہی کوششوں کا نتیجہ تھا۔ اِن دنوں ہمارے ایرانی بھائی انقلاب کی 38ویں سالگرہ منا رہے ہیں، جسکے ثمرات و برکات کی تفصیل کافی طویل ہے۔ ان سطور میں بعض کا اجمالی تذکرہ نذر قارئین ہے۔(مصنف)


سب سے اہم کامیابی یہ ہے کہ دنیا نے اسلام کو بطور کامیاب نظام حکومت مان لیا ہے۔ انقلاب کی کامیابی سے لے کر ٹرمپ کے احمقانہ اعلانات تک، ہر امریکی حکومت نے انقلاب کو ناکام بلکہ ختم کرنے کیلئے اپنے بجٹ میں ہر سال ایک خطیر رقم مختص کی، جس کے مصرف کی تفصیلات ہوشربا ہیں، مگر اللہ کے فضل و کرم سے نہ صرف اسلامی حکومت قائم رہی بلکہ مضبوط ہوتی گئی۔ ایران یکسر تبدیل ہوگیا، اسلامی ثقافت عوامی سطح پر رائج ہوئی۔ حجاب کا کلچر اس قوم کی پہچان بن گیا۔ عورت مسلمان ہو یا غیر مسلمان گھر سے باہر بے پردہ نکلنا جرم ہے۔ عالم اسلام کی وحدت اور مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں ایرانی حکومت کے اقدامات ناقابل فراموش ہیں۔ اسلامی حمیت کی پاسداری میں سلمان رشدی ملعون سے لے کر شان رسالت میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت تک ہر معاملہ میں ایران نے اسلامی دنیا کا سر بلند کیا۔ ایران ہمارا قابل اعتماد ہمسایہ ہے۔ خطیر رقم سے گیس پائپ لائن کا ہماری دہلیز تک پہنچانا پاک ایران دوستی کی بہترین مثال ہے۔ انہی کامیابیوں اور مسلم ہمسایوں کی قربت سے خائف ہو کر استکباری طاقتیں اس الٰہی نظام کے درپے رہی ہیں اور اس مقصد کیلئے پراپیگنڈہ کا حربہ اور کرائے کے قلم و زبان کا آزادانہ استعمال کیا گیا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔

افسوسناک معاندانہ رویہ

انقلاب کی 38ویں سالگرہ پر جہاں ملک بھر میں تقریبات ہو رہی ہیں اور ایرانی بھائیوں کی کامیابیوں پر انہیں خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے، بعض افراد مخصوص مصلحتوں اور ’’مجبوریوں‘‘ کے تحت معاندانہ طرز عمل سے منفی پراپیگنڈہ اور بے بنیاد بہتان تراشی کرکے اسلام دشمنوں کو خوش کر رہے ہیں۔ اگر انسان کا کم از کم ان دو آیات قرآنی پر ہی ایمان و یقین ہو تو بہتان تراشی و دیگر جرائم کا ارتکاب نہ کرے۔ سورہ مبارکہ العلق، آیت نمبر 14: کیا اسے علم نہیں کہ اللہ دیکھ رہا ہے؟ اور سورہ الزلزال آیت نمبر 8 : ’’ اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا۔" بغض و عناد ایک ایسا مرض ہے، جس کی وجہ سے آدمی روز روشن کو بھی سیاہ رات قرار دینے پر ڈٹ جاتا ہے۔ ہمارے ایک پاکستانی کالم نگار بھی کچھ ایسی ہی کیفیت کا شکار ہیں۔ ایک قومی اردو روزنامہ میں 13 فروری کے ’’ناتمام‘‘ کے عنوان سے بہتان میں ایک سفید ریش بزرگ نے گذشتہ سال 2 اپریل کے ایران مخالف اپنے کالم کے انکشاف کو دہرایا ہے کہ وہاں کسی کے چہرے پر انہیں مسکراہٹ نظر نہیں آتی۔ واقفان حال جانتے ہیں کہ ایرانی، زندگی ’’گزارنے‘‘ کی بجائے ’’انجوائے‘‘ کے قائل ہیں۔ سال میں کئی مرتبہ فیملی سمیت سیر و سیاحت ان کے کلچر کا حصہ ہے۔ اس بھونڈے الزام پر مزید دلائل کی ضرورت نہیں، لیکن موصوف نے جو سنگین بہتان تراشی ایرانی مسلمانوں کے ایمان و عقیدے پر کی ہے، وہ نہایت افسوسناک ہے کہ کسی کی زبان سے امیرالمؤمنین علیؑ اور امام حسنؑ و حسینؑ کا نام تک نہ سنا۔ اللہ سبحانہ و تعالٰی کا کیا ذکر۔

چونکہ ایران میں رسول اکرم ؐ اور ان کے اہلبیت ؑ کے پیروکار علماء کی حکومت ہے، لہٰذا ان پر عقائد و مذہبی حوالے سے سنگین الزام تراشی فقط ایران کا مسئلہ نہیں، بلکہ تمام ہم مسلکوں کی دینی حمیت پر وار ہے اور ایسے جھوٹے الزامات کا جواب بھی سب کا حق ہے۔ ایران کے کھلے دشمن بھی اس پر دین سے عاری معاشرہ کا الزام نہیں لگاتے۔ اس قوم کے چند دینی مظاہر کا اختصار سے ذکر کیا جاتا ہے، جن میں اللہ، رسول اور ان کے اہلبیت اطہار کا ذکر نمایاں ہوتا ہے۔ عبادت، دعا و تلاوت، حج و عمرہ، مقدس ہستیوں کے مزارات کی زیارت ایرانی مسلمانوں کی وہ نمایاں صفات ہیں، جن کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ محرم و صفر میں کربلا میں دنیا بھر سے آنیوالے 3 کروڑ زائرین میں نصف کے قریب تعداد ایرانیوں کی ہوتی ہے، جن کی ایک بڑی تعداد پیدل جاتی ہے۔ ایران کے ہر محلہ کی مسجد تمام نمازوں کے اوقات میں ہر عمر کے نمازیوں سے بھری ہوتی ہے۔ ہر مسجد میں حائل پردہ کے دوسری طرف عورتوں کی باقاعدہ شرکت ہوتی ہے۔ علماء کی تربیت کی وجہ سے اکثر ایرانی نماز تہجد کے پابند ہیں، جس کے بعد تلاوت و دعائیں پڑھی جاتی ہیں، پھر مسجد میں نماز فجر باجماعت ادا کی جاتی ہے۔ نماز مغرب کے بعد قرآن مجید کی باجماعت ناظرہ تلاوت کی جاتی ہے۔

جس قدر درود و سلام نمازوں، مساجد، امام بارگاہوں میں کیا جاتا ہے، اس کی مثال دنیا میں اور کہیں نہیں ملتی، حتٰی کہ ان کی شادی خوشی کی تقریبات بھی درود و سلام کی گونج میں ہوتی ہیں۔ ہر منگل کی نماز عشاء کے بعد مساجد میں رسول اکرم (ص) اور ان کی آلؑ کی تیرہ معصوم ہستیوں کے اسمائے گرامی پر مشتمل ’’دعائے توسل‘‘ نہایت خشوع و خضوع سے پڑھی جاتی ہے۔ ہر شب جمعہ امام علیؑ کی تعلیم کردہ عرفانی دعا ’’دعائے کمیل‘‘ کی گریہ و اشک کیساتھ تلاوت معمول کا حصہ ہے۔ صبح جمعہ رسول اللہ (ص) کے آخری جانشین اور پردہء غیب میں موجود امام مہدی علیہ السلام کی یاد میں ’’دعائے ندبہ‘‘ ایران کے طول و عرض میں مساجد میں پڑھی جاتی اور تمام چینلز سے براہ راست نشر کی جاتی ہے۔ جمعہ کے دن عصر کے وقت پیغمبر اکرم (ص) اور ان کی ذریت طاہرہ پر درود و سلام پر مشتمل ’’صلوات ابو ضراب اصفہانی‘‘ گھروں میں نہایت اہتمام سے پڑھی جاتی ہے۔

جمعہ کے دن غروب آفتاب سے قبل انبیاء علیہم السلام کے ذکر و معارف پر مشتمل ’’دعائے سمات‘‘ مساجد، دینی مراکز، گھروں میں انفرادی، اجتماعی طور پر تلاوت کی جاتی ہے۔ محرم و صفر میں نواسہء رسول کے شھدائے کربلا کی یاد جس طرح یہ قوم مناتی ہے، وہ محتاج بیان نہیں۔ واضح رہے کہ قرآن مجید کیساتھ ساتھ دعا و مناجات پر مشتمل کتاب ’’مفاتیح الجنان‘‘ ہر ایرانی کے گھر میں ملے گی۔ کالم نگار بتا سکتے ہیں یہ چند دینی مظاہر اس شان، خشوع، خضوع کیساتھ اور کس اسلامی ملک میں دیکھے جا سکتے ہیں؟ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سے ان کی عقیدت کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ رسول و اہلبیت رسول (ص) کے سچے پیرو تھے اور ایران کو ان معصوم ہستیوں کے راستے پہ ڈالا۔ ان ناقابل تردید چند حقائق کے باوجود اس عظیم مسلمان قوم پر دین سے عاری ہونے کے بے ہودہ الزامات کیوں لگائے جا رہے ہیں؟ اس کا جواب صاحبان انصاف پر چھوڑتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 610140
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش