0
Monday 27 Mar 2017 20:18

پنجاب پولیس، دکھاوے کی تبدیلی کافی نہیں

پنجاب پولیس، دکھاوے کی تبدیلی کافی نہیں
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

23 مارچ 2017ء یوم پاکستان کے موقع پنجاب حکومت کی طرف سے پنجاب پولیس کی وردی تبدیل کر دی گئی ہے۔ یوم پاکستان کے موقع پر لاہور کے تمام تھانوں میں نئی وردیاں پہنچا دی گئی تھیں۔ سابقہ وردی میں کالے رنگ کی سر پر ٹوپی اور اس پر پنجاب پولیس کا مونو گرام کالے رنگ کی ٹی شرٹ اور خاکی پینٹ کے ساتھ پیٹ بیلٹ شامل تھا، جس پر پولیس جوان کا بلیٹ نمبر لکھا ہوتا ہے۔ لیکن اب زیتونی رنگ کی وردی پہنی جائے گی، اس نئی وردی میں کچھ منفرد تبدیلیاں کی گئی ہیں، جس میں ایک طرف پولیس کے جوان کا نام اور دوسری طرف چھاتی پر بیلٹ نمبر لگایا جائے گا اور پرکشش ٹوپی پر پنجاب پولیس کا مونو گرام ہوگا، یونیفارم میں بائیں بازو پر پاکستان کا سبز پرچم اور اس کے نیچے پولیس جوان کا بیج ہوگا۔ پنجاب پولیس کو نئے یونیفارم کی فراہمی اس ماہ سے شروع ہوگی اور نومبر 2017ء تک یونیفارم کی فراہمی مکمل کر لی جائے گی، دفاتر اور فیلڈ میں کام کرنے والوں کے یونیفارم کا ڈیزائن الگ الگ ہوگا۔ دفاتر میں کام کرنے والے افسران و اہلکاروں کی شرٹ پینٹ کے اندر ہوگی، جبکہ فیلڈ میں ڈیوٹی کرنے والے افسران اور اہلکاروں کی شرٹ لانگ اور باہر ہوگی، فیلڈ میں کام کرنے والے گرمیوں میں ٹی شرٹ بھی استعمال کرسکیں گے، جب کہ کانسٹیبلز سروں پر پی کیپ بھی پہنیں گے۔

افسران کے یونیفارم پر کاٹن کے دھاگے سے بیجز چسپاں ہوں گے۔ اگر ہم نے جو وردی تبدیل کی ہے، اس کے ساتھ شاید کہ ہم اپنے افسران اور پولیس اہلکار کے رویے کو تبدیل کرسکتے اور یوم پاکستان کے موقع پر وردی تبدیل کرنے کے ساتھ رویے اور اخلاقیات بھی تبدیل ہوتے اور پنجاب حکومت کی طرف سے عوام کو ایک مثبت اور اچھا پیغام جاتا کہ پنجاب پولیس ہماری دشمن نہیں، بلکہ ہماری رکھوالی ہے۔ ہماری حفاظت کرنا، ہمارے درپیش مسائل سن کر ان کو حل کرنا، انکی اولین ذمہ داری ہے، جبکہ ایسا نہیں ہوسکا اور وردی کی تبدیلیوں کا اعلان کرکے حکومت پنجاب نے اپنی طرف ایک اہم کردار ادا کر دیا ہے، لیکن یہ کام ابھی مکمل نہیں ہوا ہے، بلکہ اس کے لئے ہمیں سرتوڑ کوششیں کرنی ہونگی۔ اخلاق کی بات ہو رہی ہے تو چند روز قبل ہی مینارِ پاکستان میں پنجاب پولیس نے ایک شہری کو گریبان سے پکڑ کر بدتمیزی کی، جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔ اس ویڈیو میں دیکھا گیا کہ پنجاب پولیس کے اہلکار ایک شخص کو گریبان سے پکڑ کر لے جا رہے ہیں، جبکہ ساتھ کھڑا اس شخص کا کم سن بچہ روتے ہوئے اپنے باپ کو چھوڑنے کی دہائیاں دے رہا ہے، جسے پنجاب پولیس کے اہلکار ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظر انداز کر رہے ہیں۔

اسی طرح پنجاب میں بہتری لانے کے لئے اقدامات ہو رہے ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال سے تھانہ اور پٹوار کلچر تبدیل کرنے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے، جس کے نتائج بھی سامنے آرہے ہیں۔ ملتان کے تمام تھانوں میں فرنٹ ڈیسک قائم کر دیئے گئے ہیں، جبکہ ریونیو معاملات کے لئے ون ونڈو سنٹرز کام کر رہے ہیں، جن سے لوگوں کو بڑی حد تک ایک خاص کرپٹ کلچر سے نجات مل گئی ہے۔ ظاہر ہے ابھی آئیڈیل صورتِ حال پیدا نہیں ہوئی، ملازمین کے رویوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے، تاہم ایک نئی سمت کا آغاز تو ہوا ہے، رفتہ رفتہ اِس کے مثبت نتائج بھی سامنے آئیں گے۔ جہاں تک خواتین کے اس داد رسی سنٹر کا تعلق ہے، تو اس کی کارکردگی پر مسلسل نظر رکھنے کی ضرورت ہوگی۔ چاروں طرف پھیلے ہوئے ظلم کے نظام میں خواتین کے لئے امن و سلامتی کا جو جزیرہ قائم کیا گیا ہے، اسے مگر مچھوں کی دستبرد سے بچانا ہوگا۔ تحفظ اور داد رسی کے خوشنما نعرے صرف اُسی صورت میں عملی شکل اختیار کرسکتے ہیں، جب اِس سنٹر کے لئے وضع کردہ نظام کی پوری طرح مانیٹرنگ کی جائے۔ جو لوگ خواتین کے لئے باعثِ عذاب بنتے ہیں، وہ عام لوگ نہیں ہوتے، اُن کا شمار سیاسی یا مالی طور پر معاشرے کی باشعور کلاس میں ہوتا ہے۔ عموماً یہ شکایت ملتی ہے کہ پولیس خواتین کے خلاف جرم کے مقدمات میں بااثر لوگوں کی آلہ کار بن جاتی ہے۔

مظلوم خواتین کی داد رسی کے لئے جو محکمہ سب سے پہلے ذہن میں آتا ہے، وہ پولیس ہے۔ پولیس اگر اِس حوالے سے اپنی کمزوری پر قابو پا لے اور خواتین کے خلاف جرائم کا قلع قمع کرنے کے لئے اسے اپنی ترجیحات میں شامل کر لے تو بہت جلد تبدیلی آسکتی ہے۔ خاص طور پر داد رسی سنٹر میں آنے والی عورتوں کو تحفظ اور امداد دینے کے لئے اگر کوئی پالیسی وضع کر لی جائے تو اس داد رسی مرکز کے ذریعے معاشرے کو ایک مثبت پیغام مل سکتا ہے۔ کسی بھی ملک میں امن و امان کا قیام پولیس کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے، جو بہرحال قانون و انصاف کے اصولوں کے تابع رہتے ہوئے پوری کیجاتی ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں کی پولیس اپنا عوام دوست مثبت امیج ثابت کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہے، مگر ترقی پذیر ملکوں میں پولیس کو تاحال وہ مقام حاصل نہیں، جس کی بنا پر عام آدمی پولیس نظام پر فخر کر سکے۔ اس کے لئے کافی حد تک ممکن کوششیں بھی کی گئی ہیں لیکن بہت کم جگہ پر اس کے مثبت نتائج دیکھنے کو ملے ہیں۔ جن جگہ پر پولیس اور عوام کے درمیان رابطہ قائم ہے اور پولیس اسٹیشن میں بیٹھے ایس ایچ او، اے ایس ائی اور پولیس اہلکار جو عوام کے درپیش مسائل کو آرام اور شائستگی سے سنتے ہیں اور ان کے مسائل کا سدباب کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہاں پر انصاف اور قانون کی عوام کی نظر میں ایک عزت و محبت پائی جاتی ہے۔ جس طرح علمائے کرام کے اخلاق و کردار سے عوام دین سے قریب اور دور ہوتے ہیں، اسی طرح قانون کے رکھوالوں کا مزاج معاشرے کیلئے قانون کی قدر و قیمت متعین کرتا ہے۔

ان کاغذی اقدامات کے باوجود پنجاب میں جرائم کی شرح میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، جبکہ شہریوں کو ڈاکووں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے، جرائم میں سٹریٹ کرائم اور خواتین سے زیادتی سرفہرست ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پنجاب بھر میں جرائم کے واقعات آسمان کو چھو رہے ہیں۔ سٹریٹ کرائمز میں 26 فیصد جبکہ خواتین سے زیادتی کے واقعات میں 12 فیصد اضافہ ہوا ہے اور ایسے واقعات کے 2 ہزار 354 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ گذشتہ 9 ماہ کے دوران 3 لاکھ 12 ہزار 418 مختلف کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ جرائم کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ باعث تشویش ہے، پنجاب میں جرائم پر قابو پانے کیلئے ہر سال سکیورٹی کے نام پر لاکھوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں، لیکن جرائم کے واقعات میں کوئی خاطر خواہ کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔ لاہور میں ڈولفن فورس، پیرو فورس، کوئیک ریسپانس فورس و دیگر فورسز موجود ہیں، لیکن واردات کے وقت فورسز دور دور تک نظر نہیں آتیں۔ 2015ء کے مقابلے میں 2016ء میں پنجاب میں کرائم کی شرح میں مجموعی طور پر 6 فیصد اضافہ ہوا ہے، جبکہ صوبائی دارالحکومت میں کرائم کی شرح میں 7 فیصد تک اضافہ ہوا ہے، جس سے محکمہ پولیس کی کارکردگی بہتر ہونے کے دعووں کا پول بھی کھل گیا ہے، گوجرانوالہ میں گینگ ریپ کی وارداتوں میں 300 فیصد اضافہ ہوا ہے، گینگ ریپ کی وارداتوں میں لاہور میں 75 فیصد، ڈی جی خان میں 300 فیصد راولپنڈی میں 18 فیصد اور سرگودھا میں 17 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ڈکیتی مزاحمت پر قتل کی وارداتوں میں گوجرانوالہ میں 44 فیصد، سرگودھا میں 10 فیصد، ملتان میں 33 فیصد، فیصل آباد میں 14 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پولیس رپورٹ کے مطابق پنجاب میں 20 دسمبر 2016ء تک 2015ء کے مقابلے میں 23 ہزار کے قریب زیادہ وارداتیں ہوئی ہیں۔ 2015ء میں پنجاب میں مجموعی طور پر 3 لاکھ 72 ہزار 678 وارداتیں ہوئی ہیں، جبکہ 20 دسمبر 2016ء تک وارداتوں کی تعداد 3 لاکھ 95 ہزار 973 تک پہنچ چکی ہے۔ تحریک انصاف کی رکن پنجاب اسمبلی سعدیہ سہیل رانا کے مطابق پنجاب پولیس میں اربوں روپے کی مبینہ کرپشن کا انکشاف ہوا ہے، جبکہ سیاسی شخصیات تحفظ دے رہی ہیں، 2011ء سے اپریل 2015ء تک مختلف کارروائیوں میں 2 ارب روپے کا اسلحہ، منشیات اور نقدی ضبط کی گئی، جسے مال خانہ میں جمع کرایا گیا نہ ہی اندراج کیا گیا، محکمہ داخلہ پنجاب نے دو سال قبل رپورٹ تیار کی تھی، جس پر تاحال کوئی ایکشن نہیں ہوا۔ محکمہ پولیس کو تحفظ فراہم کرنے میں مبینہ طور پر حکومتی ایوانوں میں موجود سیاسی شخصیات شامل ہیں، حکومت پنجاب ہر سال پنجاب پولیس کو اربوں کے فنڈز اور مراعات دے رہی ہے، لیکن محکمہ پولیس کی کارکردگی دن بدن بگڑتی جا رہی ہے، پولیس صوبے میں جرائم پر قابو پانے میں بُری طرح ناکام ہے، صوبائی دارالحکومت میں کوئی گلی یا سڑک راہزنی اور ڈکیتی سے محفوظ نہیں، دن دیہاڑے لوگوں کو لوٹ لیا جاتا ہے۔

تھانہ کی سیاست پولیس کی مجموعی کارکردگی اور تفتیش پر اثر انداز ہوتی ہے اور شفافیت کے فقدان کی وجہ سے عام آدمی کا اعتماد بری طرح مجروح ہوتا ہے، یہی وہ پہلو ہے، جس سے پہلو تہی کی بناء پر پولیس میں نہ صرف کرپشن کا رجحان فروغ پاتا ہے، بلکہ یہ بحثیت ادارہ اپنا عوام دوست امیج پیش کرنے سے قاصر ہے۔ چھوٹے موٹے مقدمات تو در کنار، اگر قتل جیسے سنگین مقدمات کے اندراج اور تفتیش میں بھی مقامی سیاست اثر انداز ہوتی رہے گی، تو غریب کو انصاف ملے گا، نہ پولیسنگ میں کوئی بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔ ایسے حالات میں پولیس کو کرپشن کا ذمہ دار ٹھہرانا مناسب نہیں۔ اگر واقعی ہمیں کرپشن سے پاک پولیسنگ درکار ہے، تو پھر غیر جانبدارانہ اور منصفانہ تفتیش کی ضرورت ہے یا پولیس نظام میں شفافیت مقصود ہے تو سب سے پہلے پولیس کو سیاسی اثر و رسوخ سے یکسر پاک کرنا ہوگا۔ پولیس اہلکار اور افسران کو عوام کو یقین دہانی کروانی ہوگی اور بتانا ہوگا کہ ہم آپ کے محافظ ہیں۔ آپ لوگوں کی مشکلات اور ان کو حل کرنا ہماری ہی ذمہ داری ہے اور یہ تب ممکن ہوگا، جب ان کے ساتھ اچھے اخلاق اور میانہ روی، ایمانداری سے امیر ہو یا غریب، سب کیلئے ایک ہی قانون ہوگا۔ مجرم کو کٹہرے میں کھڑا کریں گے، انصاف پر مبنی فیصلے کریں گے، اگر پولیس سے قانون، انصاف اور میرٹ کیمطابق کام کی توقع وابستہ کرنا چاہتے ہیں، تو پولیس پر چیک اینڈ بیلنس کا نظام واپس لانا ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 621838
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش