0
Wednesday 10 May 2017 07:00

انتظارِ امام ؑ کی تڑپ اور ظہور کی کیفیات

انتظارِ امام ؑ کی تڑپ اور ظہور کی کیفیات
تحریر: ارشاد حسین ناصر

ایک ہستی جس کے انتظار کی تڑپ کو بارہ سو برس ہو رہے ہیں کہ آپ تشریف لے آئیں، بارہ سو برس ہوچلے ہیں، سینکڑوں نہیں بلکہ کروڑوں انسان اس امید کا دیا جلائے منتظر پھر رہے ہیں کہ آپ کی ؑ تشریف آوری ہو۔ ان بارہ سو برسوں میں کتنے لوگ ہیں، جو اس آس اور امید کا دیا جلائے رخصت ہوئے، شائد اس کا حساب ممکن نہ ہو، اس لئے کہ یہاں والدین اپنی اولادوں کو ان کی آمد کا مژدہ سناتے رہے اور انہیں جانا پڑا، ہم سب جانتے ہیں کہ مائیں آج بھی بچوں کو ان کے انتظار کی گھٹی پلا کر جوان کرتی ہیں۔ خواتین، مرد، بچے، بوڑھے، جوان، ہر مذہب، مسلک، مکتب اور خطہء ارضی و سماوی کی مخلوقات اور آدم زاد ان کے ظہور کی حسرت دل میں لئے سفر زیست کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ہمارے چمن زیست میں اگر کچھ خوشبو معطر کئے ہوئے ہے تو اس کی وجہ آپ کی آمد اور ظہور کا مژدہ ہے، ہر سو آپ کی آمد اور اچانک ظاہر ہونے کی خبریں ہیں۔ پھول، کلیاں، گلستان، خوشبو بکھیرتے ہیں کہ آپ تشریف لانے والے ہیں۔ شمع آپؑ کے فراق کو برداشت نہیں کر پاتی اور لاکھوں اشک بہا کر آپؑ سے التفات کا اظہار کرتی ہیں، بُلبل اپنی زبان میں آپؑ کی تڑپ میں غزل سرا رہتا ہے، عاشقان خون کے آنسو بہا کر آپؑ کی یاد میں مارے مارے پھرتے ہیں، ہر ایک آپؑ کے دیدار کامشتاق ہے، ہر ایک آپؑ سے ارتباط کا خواہش مند ہے، ہر ایک آپؑ کی زیارت کیلئے تڑپتا ہے۔۔۔۔۔

یہ تڑپ، یہ بے قراری، یہ آرزوئے ملاقات، یہ خواہش دیدار۔۔۔۔۔ وقت گذرنے کے ساتھ۔۔۔ آتش عشق و آرزوئے وصال میں شدت پیدا کر رہے ہیں۔ لٰہذا دعائیں کی جاتی ہیں کہ دیدار نصیب ہو۔۔۔۔۔ مناجات و ورد کیا جاتا ہے کہ آپؑ کی زیارت ہو، آنسو بہائے جاتے ہیں کہ مولاؑ تشریف لے آئیں، کیسی کیسی اُمیدیں ہیں، جو آپ ؑ کے ظہور پر موقوف ہیں۔۔۔۔۔۔ کتنے فیصلے ہیں جو صرف آپؑ کی آمد کے اعلان کے ساتھ مربوط ہیں اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ! وہ لوگ جو انتظار کر رہے ہیں، جنہیں آپؑ کا منتظر ہونے کا اعزاز حاصل ہے، جو آپؑ کے فراق میں تڑپتے ہیں اور وصال کیلئے آتش عشق کو جلائے ہوئے ہیں، اس دنیا کے خوش نصیب ترین لوگ ہیں۔ ان کا عشق بھی عجیب ہے، یہ بن دیکھے کا عشق ہے، یہ صدیوں پہ محیط عشق ہے، یہ صبر بلکہ برسوں کے صبر کا مثالی نمونہ و عشق ہے، یہ عجیب عشق ہے کہ پروانے انتظار میں ہیں کہ شمع روشن ہو اور وہ اس پہ قربان ہو جائیں۔ باغ عسکری کا یہ مقدس پھول 15 شعبان المعظم کو کھلا اور چہار سو اپنی خوشبو سے ماحول کو معطر کر دیا۔ آپ ؑ کے میلاد پاک کے مبارک دن کی مناسبت سے ان کیساتھ اپنی عقیدت و محبت کی لو تیز کرنے کا دن ہے۔

امام عصر کا خوبصورت فرمان ہے کہ "میں خاتم الاوصیاء ہوں، اللہ عزوجل میرے وسیلہ سے میرے خاندان اور میرے شیعوں کے مصائب و مشکلات ٹال دے گا" اور آپؑ کا یہ فرمانا کس قدر خوبصورت ہے کہ "میری غیبت کے زمانہ میں مجھ سے عوام کو اس طرح فائدہ پہنچے گا، جس طرح سورج بادلوں کی اوٹ میں چلا جائے تو اس کے فوائد زمین والوں کو حاصل ہو رہے ہوتے ہیں۔" آپ کی آمد اور خواصان خدا سے ملاقاتیں اپنی جگہ اہم اور درست بات ہے، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ آٗئمہ نے آپ کے ظہور پرنور کا وقت معین کرنے سے منع فرمایا۔ حضرت امام محمد باقر ؑ کے ایک صحابی نے آپ ؑ سے ظہور کے بارے میں سوال کیا تو آپ ؑ نے فرمایا: ’’جو لوگ ظہور کا وقت معین کریں، وہ جھوٹے ہیں، جو لوگ ظہور کا وقت معین کریں وہ جھوٹے ہیں، جو لوگ ظہور کا وقت معین کریں وہ جھوٹے ہیں۔‘‘ لہٰذا اس طرح کی روایات سے اچھی طرح یہ نکتہ سمجھا جا سکتا ہے کہ ہمیشہ کچھ لوگ شیطانی مقاصد کے تحت امامؑ کے ظہور کا وقت معین کرتے رہتے ہیں اور ایسے افراد آئندہ بھی پائے جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ آئمہ معصومین ؑ نے اپنے شیعوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ ظہور کے لئے وقت معین کرنے والوں کے سامنے خاموش نہ رہیں بلکہ ان کی تکذیب کی جائے۔

حضرت امام صادق ؑ اس سلسلہ میں اپنے ایک صحابی سے فرماتے ہیں:’’ظہور کے لئے وقت معین کرنے والوں کو جھٹلانے میں کسی کی کوئی پرواہ نہ کرو، کیونکہ ہم نے کسی کے سامنے ظہور کا وقت معین نہیں کیا ہے۔‘‘ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگوں کو آپ کے ظہور سے بذات خود آپ کی ذات اقدس سے بھی زیادہ جلدی ہے، لوگوں کو یہ بات فراموش نہیں کرنا چاہیئے کہ آپ حکم خدا سے غائب ہیں اور حکم و اذن خدا سے ہی ظاہر ہونگے اور جب ظاہر ہونگے تو دنیا کے ہر کونے میں آپ کی آواز پہنچے گی۔ کتب میں آپ کے قیام کے واقعات و کیفیات نقل ہوئے ہیں، ہمیں تمام مکاتیب فکر کی کتب میں لکھا ملتا ہے کہ جب ظلم و ستم اور تباہی دنیا کو تاریک اور سیاہ کر دے گی اور جب ظالم و ستمگر لوگ اس وسیع زمین کو بْرائی کا میدان بنا دیں گے اور دنیا بھر کے مظلوم ظلم و ستم سے پریشان ہو کر مدد کے لئے اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کریں گے، اچانک آسمانی آواز رات کی تاریکیوں کو چیر دے گی اور ماہ خدا، ماہ رمضان میں امام مہدی کے ظہور کی بشارت دے گی۔ دل دھڑکنے لگیں گے اور آنکھیں خیرہ ہو جائیں گی! رات بھر عیاشی کرنے والے، صبح ایمان کے طلوع سے مضطرب اور پریشان راہ نجات تلاش کریں گے اور امام مہدی ؑ کے منتظرین اپنے محبوب امام کی تلاش میں ہر ایک سے آنحضرت ؑ کا نشان اور پتہ پوچھتے پھر رہے ہوں گے اور آپ کے انصار و مددگار کے زمرے میں شامل ہونے کے لئے بے چین ہوں گے۔

اس موقع پر سفیانی جو کئی ملکوں پر قبضہ کئے ہوگا، جیسے شام (سوریہ)، اُردن، فلسطین، وہ امام سے مقابلہ کے لئے ایک لشکر تیار کرے گا۔ سفیانی کا لشکر جو امام ؑ سے مقابلہ کیلئے مکہ معظمہ کے راستہ پر روانہ ہوگا، لیکن جیسے ہی ’’بیداء‘‘ نامی جگہ پر پہنچے گا تو زمین میں دھنس کر نابود ہو جائے گا اور نفس زکیہ کی شہادت کے کچھ ہی مدت بعد امام مہدیؑ ایک جوان مرد کی صورت میں مسجد الحرام میں ظہور فرمائیں گے۔ کچھ یوں کہ پیغمبر اکرم ؐ کا پیراہن زیب تن ہوگا اور رسول خداؐ کا پرچم لئے ہوں گے اور خانہ کعبہ کی دیوار سے ٹیک لگائے ہوئے رکن و مقام کے درمیان ظہور کا زمزمہ کریں گے اور خداوند عالم کی حمد و ثناء اور محمد و آل محمد پر درود و سلام کے بعد خطاب فرمائیں گے:’’اے لوگو! ہم خداوند قادر سے مدد طلب کرتے ہیں اور جو شخص دنیا کے کسی بھی گوشے میں ہماری آواز پر لبیک کہے تو اسے نصرت و مدد کیلئے پکارتے ہیں اور پھر اپنی اور اپنے خاندان کی پہچان کراتے ہوئے فرمائیں گے:(فَاللّٰہَ اللّٰہَ فِیْنَا لاٰتَخْذُلُوْنَا وَ انْصُرُونَا یَنْصُرْکُمُ اللّٰہ تَعالیٰ) ’’ہمارے حقوق کی رعایت کے سلسلہ میں خدا کو نظر میں رکھو اور ہمیں (عدالت قائم کرنے اور ظلم کے مقابلہ میں) تنہا نہ چھوڑو، ہماری مدد کرو کہ خداوند عالم تمہاری مدد فرمائے گا۔‘‘

امام ؑ کی گفتگو تمام ہونے کے بعد اہل آسمان اہل زمین پر سبقت کریں گے اور گروہ در گروہ آکر امام ؑ کی بیعت کریں گے، حالانکہ ان سے پہلے فرشتہ وحی جناب جبرائیل ؑ امام ؑ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ ؑ کی ہمراہی کریں گے اور اس کے بعد 313 زمین کے ستارے مختلف مقامات سے سرزمین وحی (یعنی مکّہ معظمہ) میں جمع ہوکر امامت کے پْرنور سورج کے چاروں طرف حلقہ بنالیں گے اور وفاداری کا عہد و پیمان باندھیں گے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا، یہاں تک کہ دس ہزار جاں بکف سپاہیوں کا لشکر امام ؑ کے لشکر گاہ میں جمع ہو جائے گا اور فرزند رسول ؐسے بیعت کرے گا۔ امامؑ اپنے انصار کے عظیم لشکر کے ساتھ پرچم قیام لہراتے ہوئے بہت تیزی سے مکہ اور قرب و جوار کے علاقوں پر غالب آجائیں گے اور سرزمین پیغمبر ؐ کو نااہلوں کے وجود سے پاک کر دیں گے اور سرکش لوگوں کو مغلوب کریں گے۔ اس کے بعد عراق کا رخ فرمائیں گے اور شہر کوفہ کو اپنی عالمی حکومت کا مرکز قرار دیں گے اور وہاں سے اس عظیم انقلاب کو نظم و ہدایت فرمائیں گے۔ حضرت ابا عبداللہ الحسین ؑ نے فرمایا:’’اگر دنیا کی عمر کا ایک دن بھی باقی رہ جائے تو خداوند عالم اس دن کو اتنا طولانی کر دے گا کہ میری نسل سے ایک شخص قیام کرے گا اور زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا، جیسا کہ وہ ظلم و ستم سے بھرچکی ہوگی اور یہ بات میں نے پیغمبر اکرم ؐ سے سنی ہے۔‘‘ امام کا فرمانا اور حضرت مہدی کا تشریف لانا ایک اٹل خدائی فیصلہ ہے، جو دنیا کے ایک دن کیلئے باقی رہ جانے پر بھی ہو کر رہیگا، لہذا اس کی تیاری اور اپنی حالت کا احتساب اور جائزہ ضرور لینا چاہیئے۔

دوستان و عاشقان حضرت صاحب الامر والزمان ؑ کی صف میں شمار ہونا یقیناً ایسی سعادت و عبادت ہے، جس کا شاید کوئی تقابل نہ ہو، مگر دیکھنا یہ ہے کہ اس مقام و مرتبہ کو پانے کیلئے جس پاکیزگی قلب، طہارت روح و نظر، انسانیت سے محبت، درد مند دل اور تقویٰ و پرہیز گاری کی ضرورت ہے، وہ ہم میں بدرجہ اتم موجود ہے۔۔۔۔۔ ہمیں اس روز (15 شعبان) کو اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے، اپنے اعمال کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے، اپنے روز مرہ معمولات پر تنقیدی نگاہ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اپنا احتساب کر رہے ہوں تو حقیقی منتظر کہلانے کے حق دار ہونگے۔ متفق علیہ حدیث پاک ہے کہ "جو شخص اپنے زمانے کے امام کی معرفت کے بغیر مرا وہ جاہلیت کی موت مرا۔" امام العصرؑ کی معرفت کے زینے طے کرنے کیلئے میدان عمل میں رہنا ضروری ہے اور جو دوست و خواہران میدان عمل میں رہتے ہیں، انہیں خود احتسابی کی عادت ضرور ڈالنی چاہیئے۔ ہر عمل کا جائزہ لیں کہ یہ خدا کی طرف پرواز اور قربت کا باعث ہے یا دشمنان خدا سے تعلق کی مضبوطی کا ذریعہ ہے۔ اگر سفر بہ خدا ہے تو یقیناً ہم زمانے کے امام ؑ کی خوشنودی حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ یوم میلاد امام زمانہؑ کے دن خود احتسابی و جائزہ اعمال کے طور پر منائیں۔ اُمید ہے کہ اگر ہم نے احتساب و جائزہ اعمال کیا تو ہماری بے قراری، ہماری دعائیں، ہماری مناجات، ہماری خواہش دیدار و ملاقات اور آرزوئے وصال معرفت امامؑ کا ذریعہ بن سکتے ہیں اور ہم حقیقی منتظر کہلا سکیں گے۔

دیکھیں کہ کون کتنے پانی میں ہے، آیا ہم اس قابل ہیں کہ خود کو ان مثالی لوگوں سپاہیان امام کے ساتھ کھڑا کرسکنے کی جرات کریں؟ ہمارے دلوں میں دنیا کی محبت نے گھر کیا ہو اور ہم امام کے سپاہی بن جائیں یہ ممکن نہیں، کوئی اس دھوکہ و فریب میں نہ رہے کہ وہ سچی بیقراری کے بغیر امام کا سپاہی بن جائے گا اور امام کی قربت اسے حاصل ہو جائے گی۔ ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہوگا، اس سے پہلے کہ کوئی عدل نافذ کر دے اور ہم آمادہ و تیار ہی نہ ہوں۔ ذرا جائزہ لیں کہ ہماری محبت اور تڑپ علی ابن مہزیار جتنی ہے، جس نے کتنے ہی حج اس امید اور تڑپ کے ساتھ انجام دیئے کہ دیدا ر نصیب ہو جائے اور بالآخر اسے یہ سعادت نصیب ہوگئی، ملاقات ہوگئی، محفل یاران میں بیٹھنے کا اذن نصیب ہوا۔ ہمیں جائزہ لینا ہے، ہمیں احتساب کرنا ہے، ہمیں دنیا کی آلائشوں اور فساد سے خود کو دور رکھنا ہوگا۔ ہم جب اپنے آس پاس دیکھتے ہیں، ارد گرد نظر دوڑاتے ہیں یا پھر دنیا پہ نظر دوڑاتے ہیں، کئی دفعہ مشکلات کے پہاڑ سامنے پاتے ہیں، ایسی ایسی رکاوٹیں اور مشکلات، ایسی ایسی سازشیں کہ احساس ہوتا ہے کہ اب ہم اس سے نہیں نکل پائیں گے، بربادی ہمارا مقدر ہوگی، تباہی کو کوئی ٹال نہیں سکتا، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بڑی تباہی آنے والی ہے اور ناگہانی آفات گھیرنے والی ہیں، مشکلات اور مصائب پہاڑ کی صورت سامنے دکھائی دیتے ہیں اور ان سے بچ نکلنے کی کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی ہوتی کہ کیا ہوتا ہے۔ہم حیران و ششدر دیکھتے رہ جاتے ہیں اور مشکل کا پتہ ہی نہیں چلتا، یکایک مشکلات ٹل جاتی ہیں، مصائب اور پریشانیاں کافور ہو جاتی ہیں، غالب دکھائی دینے والا دشمن مغلوب ہو جاتا ہے، کسی کے وہم و گمان اور سوچ و فکر میں بھی نہیں ہوتا کہ یوں مشکلات سے جان چھوٹ جائے گی، مگر ایسا ہوتا ہے اور ایک بار نہیں بار بار ہوتا ہے۔۔۔۔۔

یہی وہ فائدہ ہوتا ہے، جو بادلوں کی اوٹ سے سورج پہنچا رہا ہوتا ہے۔ یہی وہ فائدہ ہے، جو ہمیں امام سے حاصل ہوتا ہے، مگر ہم احساس نہیں کرتے۔۔۔۔ اور اس وجہ سے ہمارے عرفاء بزرگان کہتے ہیں کہ ہم (اہل تشیع) بغیر صاحبؑ ( سرپرست و ولی) کے نہیں ہیں۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ ہم اس کا ادراک کریں یا نہ کریں۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم ایسے الطاف و اکرام پر آپؑ کی طرف متوجہ ہوں یا نہ ہوں۔۔۔۔ ان کا لطف و کرم جاری رہتا ہے، ان کے کرم کے سایہ کی چھت ہمیشہ تنی رہتی ہے۔ ہمارا امام ہمیں کبھی تنہا نہیں چھوڑتا، ہم ان کی حکومت میں زندگی بسر کر رہے ہیں، ہم ان کے رعایا ہیں، ہم ان کے حکم کے پابند ہیں، ہم ان کے کرم کے سائے تلے ہیں، اس بات کا احساس ان لوگوں کو بخوبی ہے جو باطل کے سامنے سینہ سپر میدان عمل میں ہیں اور اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے کیلئے ہجرت کرچکے ہیں، کوئی سیدہ زینب سلام کے روضہ کے تقدس کیلئے اپنے آپ کو پیش کرچکا ہے تو کوئی سامرہ میں وقت کے امام کے اجداد کی جائیداد اور ان کے مزارات و علامات کے تحفظ کیلئے سینہ تانے کھڑا ہے۔ آج صحیح معنوں میں ایسے ہی مجاہدوں سے امام کا ارتباط ہے، انہی کو پل پل رہنمائی ملتی ہے، انہی کو دشمن کے مقابل قوت ملتی ہے، انہی کو آپ کی قربت اور دیدار کی سعادت حاصل ہوتی ہے، آل سعود کے ولی عہد کو آج جن سے خوف و خطرہ محسوس ہو رہا ہے، وہی امام کے سپاہی ہیں اور ان کا سردار یعنی رہبر عظیم الشان و مرتبت اس قافلہ منتظران حقیقی کے سالار ہیں، ہمیں ان کی اطاعت اور رہبری پر افتخار ہے۔
خبر کا کوڈ : 635230
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش