1
0
Friday 19 May 2017 03:36

ستم پذیری گناہ کبیرہ ہے

ستم پذیری گناہ کبیرہ ہے
تحریر: محمد حسن جمالی

صرف ظلم کرنا گناہ نہیں ہے بلکہ ظلم سہنا بهی گناہ ہے۔ اللہ تعالٰی نے انسان کو عزیز بنایا ہے، ذلیل ہونے کے لئے پیدا نہیں کیا ہے۔ قوموں کی نابودی و زوال کے اسباب اور وجوہات میں ستم گری اور ستم پذیری سرفہرست شامل ہیں۔ جو قوم ظالم بنتی ہے یا ظالموں کے سامنے گردن جهکا کر بیٹھ جاتی ہے، زود یا دیر، اس کا زوال اور فنا قطعی ہے۔ آج وطن عزیز پاکستان میں اگر غور سے دیکها جائے تو ایک طرف سے ظالم حکمرانوں کے مظالم میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے تو دوسری جانب سے پاکستانی قوم بالخصوص نام نہاد قائدین مختلف مصلحتوں کا شکار ہوکر ظالم اور ستمگروں کے سامنے گردن جهکائے بیٹهے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہماری قوم گوناگون مسائل اور مشکلات میں گرفتار ہے اور ملک نابودی کے دہانے پر پہنچا ہوا ہے۔ ہمارے معاشرے کے عام لوگوں کا تصور یہ ہے کہ ظالموں سے نفرت کرنی چاہئے۔ ظلم ایک قبیح عمل ہے، ظلم کو دوام حاصل نہیں، مگر وہ اس بات سے یکسر غافل رہتے ہیں کہ ظلم سہنا، ستم پر خاموش رہنا، ظالم کی مذمت میں آواز بلند نہ کرنا بهی بہت بڑا منفور اور ناپسندیدہ عمل ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ستم قبول کرنا ستم کرنے سے زیادہ جرم نہیں تو کم بهی ہرگز نہیں ہے۔ ستم پذیری سے ستم گری کو دعوت دی جاتی ہے۔ ستم پذیری ستمگروں کو جرات فراہم کرتی ہے، ظالموں کو قوی اور مستحکم بناتی ہے۔ اس لحاظ سے ستمگری سے بڑا جرم ستم پذیری ہے۔ قوموں کی تباہی میں ظلم کا اہم کردار رہا ہے۔ حکومت کی حیات کفر کے ساتھ تو ممکن ہے لیکن ظلم کے ساتھ اس کی بقا ناممکن ہے۔

حضرت علی ابن ابی طالب (ع) فرماتے ہیں: ”ظلم ظالم کو متزلزل، نعمتوں کو سلب اور امتوں کو ہلاک کر دیتا ہے۔” قرآن کا صاف اعلان ہے: "ہم کسی بستی کو تباہ کرنے والے نہیں ہیں مگر یہ کہ اس کے رہنے والے ظالم ہوں۔" گویا قرآن کی نگاہ میں بھی قوموں کی ہلاکت کا اہم سبب ظلم ہے اور ظلم کے ذریعے حاصل ہونے والی کسی بھی چیز میں دوام نہیں ہوتا۔ اسی لئے مولائے کائنات فرماتے ہیں: ”اگر مجھے ہفت اقلیم کی حکومت صرف اس لئے دی جائے کہ میں چیونٹی کے منہ سے دانہ چھین لوں تو میں ایسا ہرگز نہیں کرسکتا۔” مگر افسوس؛ ہمارے ملک پر ایسے افراد قابض ہیں، جو اپنے اقتدار اور مسند کی حفاظت کے لئے پوری قوم کو قعر مذلت میں پہنچا کر افتخار کرتے ہیں۔ پوری عوام کو وہ اپنے گهر کی لونڈی سمجهتے ہیں اور ہماری قوم بهی خائن و جابر حکمرانوں کے سامنے اپنے آپ کو بے بس سمجهتی ہے۔ ستم پذیری میں اپنی عافیت تلاش کرتی ہے، اپنے حقوق کے حصول کے لئے آواز بلند نہیں کرتی۔ حکمرانوں کے غلط کرتوت، ناانصافیوں اور ان کی غیر مناسب پالیسیوں کے خلاف بولنے کی جرات نہیں کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہماری قوم زندگی کی بقا کی ضروریات اولیہ اور بنیادی و انسانی حقوق سے محروم ہے۔ پانی، مکان، لباس، طعام اور بجلی کے لئے غریب عوام دن رات محنت اور مشقت کرنے کے باوجود اس کی کافی مقدار حاصل نہیں کر پا رہی ہے۔

حکمران عوام سے امنیت کی نعمت چهین کر دہشتگردی کی آگ میں جلنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ بے روزگاری سے تنگ آکر جوان خودکشی کی طرف لپک رہے ہیں، ناقص نظام تعلیم کی وجہ سے بچے تعلیم سے متنفر ہوتے جا رہے ہیں، تربیت کے فقداں کے سبب معاشرہ بداخلاقی کے دلدل میں دهنستا جا رہا ہے، کمرشکن مہنگائی کی وجہ سے غریب طبقوں کی جوان بیٹیاں شادی کی حسرت دل میں لے کر عالم شباب کو خیرباد کہہ رہی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ناانصافی نے عدالت کی جگہ، دہشتگردی نے امنیت کی جگہ، تفرقہ نے اتحاد کی جگہ، باطل نے حق کی جگہ اور نفرت نے محبت کی جگہ بستی بسائی ہوئی ہے۔ کرپش، سود، لوٹ گهسوٹ، اقربا پروری، خیانت رشوت اور جهوٹ ہمارے حکمرانوں سے لے کر ایک ادنٰی ملازم تک کی پہچان بنا ہوا ہے۔ ہماری قوم کی ستم پذیری کے سبب چند اشرافیہ خاندان ہی اس ملک پر قابض ہیں، جو باری باری آتے ہیں اور عوامی حقوق پر ڈاکہ مار کر عیاشی کرتے ہیں۔ قومی خزانے سے دولت لوٹ کر دوسرے ملکوں میں اپنے لئے جائیداد خریدتے ہیں، اپنے لئے ذاتی سرمایہ بناتے ہیں۔ اپنی اولاد، خاندانی افراد اور دوست یاروں کو بنگلہ خرید کر تحفہ دیتے ہیں۔ اب تو پاکستان میں اقلیتی گروہ کی ذاتی ملکیت اراضی پر بهی حکمران قبضہ کرکے اپنے من پسند افراد کی ملکیت بنا رہے ہیں، جس کی مثال دیکهنا چاہیں تو خطہ بے آئین گلگت بلتستان ہے، جہاں کے نام نہاد وزیراعلٰی حفیظ الرحمن غریبوں کی ملکیتی اراضی کو محض مذہبی تعصب کی بنیاد پر خالصہ سرکار قرار دے کر ان پر ناجائز قبضہ کرکے وہاں اپنے ہم مسلک اور ہم فکر افراد کو بسا رہے ہیں، جو سراسر ظلم ہے اور جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔

مگر ہماری قوم کو ستم پذیری کی ایسی عادت ہوگئی ہے کہ ملک میں یہ ساری خرابیاں اور ناانصافیاں ہر روز مشاہدہ کرنے کے باوجود وہ خاموشی کا بت بنے رہتی ہے۔ شجاعت، غیرت اور جرات کا مظاہرہ کرکے ان ناانصافیوں کے خلاف زبان کهولنے سے عاجز و ناتواں دکهائی دیتی ہے، جس کی بنیادی وجہ اپنے اپنے مفادات ہیں۔ ہماری عوام سمجهتی ہے کہ جس دن حکمرانوں کے غلط کرتوت اور ناروا حرکتوں کے خلاف بولیں گے، ہماری نوکری کا خاتمہ ہو جائے گا، ہماری دال روٹی بند ہو جائے گی، اس خوف سے عوام حکمرانوں کی غلط سوچ و افکار کی سرزنش اور مذمت کرنے کے بجائے ان کی خوشامد اور چاپلوسی کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے رہے ہیں۔ عوام کی اسی خاموشی کے سبب ہمارے نااہل حکمران اس قدر جری ہوچکے ہیں کہ وطن عزیز کو دل سے چاہتے ہوئے اسے تحفظ فراہم کرنے کے لئے ملک کے درونی اور بیرونی دشمن عناصر کے اصلی چہرے پاکستانی قوم کو شفاف انداز میں دکهانے والوں کو چن چن کر مروا رہے ہیں، جس کی حالیہ مثال روزنامہ"نوائے وقت" کے میگزین انچارج عامر شکیل اور معروف کالم نگار عبدالرزاق پر فائرنگ کرکے شہید کرنا ہے۔ ان کا جرم یہ تها کہ وہ حقیقت اور سچ لکهتے تهے، حکمرانوں کے مظالم پر قلم اٹهاتے تهے، وطن عزیز کی جڑیں کاٹنے والوں کی عوام کو نشاندہی کراتے تهے، غریب عوام کو مختلف بہانوں سے لوٹنے والوں کو دکهاتے تهے، قومی سرمایہ پر ڈاکہ مارنے والے چوروں اور ڈاکووں کو منظر عام پر لے آتے تهے۔ کالم نگار عبدالرزاق کی موت کا سبب ہی وہ کالم بنا، جو انہوں نے "ڈاکو" کے عنوان سے لکها تها، اس تحریر میں مرحوم نے موجودہ دور کے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے "ڈاکوؤں" کو بے نقاب کیا تھا اور ان کے طریقہ واردات پر تفصیل سے روشنی ڈالی تھی۔

اس سے ہمیں یہ سمجهنے میں کوئی دیر نہیں لگتی کہ ہمارے حکمران ہماری مملکت میں صرف ان کو جینے کا حق دینے کے قائل ہیں، جو ان کے مظالم کے سامنے چپ کا روزہ رکهیں۔ ان کی غلط حرکتوں پر سکوت اختیار کریں اور ان کی مرضی کے مطابق شب و روز گزار دیں۔ ان کے لئے جو چیز اہم ہے، وہ اپنے مفادات ہیں۔ غریبوں کا خون چوسنا ہے اور اپنے آقا امریکہ اور سعودی عرب کے احکامات کو من و عن قبول کرنا ہے۔ عرصہ دراز سے آل سعود کے ایما پر عتبات عالیہ بالخصوص نواسہ رسول فرزند گوشہ بتول حضرت امام حسین (ع) کی زیارات پر جانے والے زائرین کو بارڈر پر بغیر کسی جرم و خطا کے روک کر جسمانی اور روحی اذیت و آزار سے دوچار کروا رہے ہیں۔ ہفتے دو ہفتے مختلف بہانوں سے ان کو بارڈر کے اس تپتے بیابان میں رکهتے ہیں، نہ کهانے کے لئے طعام میسر ہے اور نہ پینے کے لئے صاف پانی کا انتظام۔ یہاں تک کہ وضو اور طہارت کے لئے بهی پانی نہیں ملتا، جبکہ زائرین میں ضعیف و ناتواں بوڑھے، کم سن بچے، خواتین اور بیمار لوگ ہوتے ہیں، جو صرف اور صرف حسین (ع) کی محبت اور عشق میں کربلا معلٰی زیارت کے لئے جانے کی تمنا لے کر آئے ہوئے ہوتے ہیں۔ پتہ نہیں یہ کیسے مسلمان ہیں؛ کیا پیغمبر برحق حضرت خاتم الانبیآء محمد مصطفٰی (ص) کا یہ واضح و صریح ارشاد نہیں ہے کہ "میں حسین سے ہوں اور حسین مجھ سے ہیں، خدایا تو اسے دوست رکھ جو حسین کو دوست رکهتا ہے۔" شیعہ اور سنی مسلمان حسین (ع) سے اپنی محبت کے اظہار کے لئے آپ کے روضے کی زیارت کرنا چاہتے ہیں، جس کے لئے وہ اپنی جمع پونجی خرچ کرکے آتے ہیں، مگر بارڈر پر ایسے یزیدی اس انتظار میں بیٹهے ہوتے ہیں کہ کب عشاق حسین (ع) یہاں پہنچیں، تاکہ ہم انہیں اذیتوں سے دوچار کرکے اپنے آقاؤوں کو خوش کرکے کچھ سعودی ریال وصول کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔

یہ سارے کوئی غیر نہیں، اپنے حکومتی نام نہاد ملازمین ہیں، جنہیں بظاہر ہماری حکومت نے لوگوں کی حفاظت پر مامور کر رکها ہے، مگر پس پردہ ہمارے حکمرانوں کی طرف سے انہیں باقاعدہ یہ اشارہ ملا ہوا ہوتا ہے کہ تم نے مختلف بہانوں سے انہیں روک کر ان سے پیسے نکالنے کی کوشش کرنی ہے۔ انہیں آزار اور اذیتیں دینی ہے، ان کو تنگ کرنا ہے۔ یوں وہ متنفر ہو جائیں گے اور آہستہ آہستہ زیارتوں کا سلسلہ بند ہو جائے گا اور ہمارے آقا آل سعود کی خوشنودی حاصل کرنے میں ہم کامیاب ہو جائیں گے۔ درنتیجہ ہمیں سعودی ریال وافر مقدار میں ملیں گے اور ہم اپنے ہدف میں کامیابی سے ہمکنار ہوجائیں گے۔ مگر یاد رکهو، تم اس طرح کی بدسلوکی سے اپنے ناپاک عزائم میں ہرگز کامیاب نہیں ہوں گے۔ حسین ابن علی (ع) کے زائرین میں ہر سال اضافہ ہی دکهائی دے گا کم ہرگز نہیں ہوگا۔ ان تمام مشکلات کا واحد حل یہی ہے کہ ہم متحد اور متفق ہوکر ستم پذیری کے بت کو پاش پاش کرکے اس خول سے باہر نکلیں اور پوری بیداری سے موجودہ نظام کو انصاف پر مبنی نظام میں تبدیل کرنے کے لئے سارے تعلیم یافتہ لوگ جدوجہد کریں۔ صحافی و قلمکار حضرات بلا خوف حق اور سچ لکھ کر قوم کو شعور دیں۔ یہ حقیقت طے ہے کہ جب تک سارے ملکر موجودہ نظام کو بدلنے کی کوشش نہیں کریں گے، ظالم حکمران اور ان کے آلہ کار اسی طرح ہمارے ملک کے دانشور، صحافی، انجئینر ،ڈاکٹر، مفکر اور باصلاحیت افراد کو چن چن کر خون ناحق میں نہلاتے رہیں گے۔ ہمیں قومی، لسانی، مذہبی اور دیگر اختلافات سے بالاتر ہوکر انسانیت کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے اور وطن عزیز کی حفاظت کے لئے ہر طرح کی قربانی دینے سے دریغ نہیں کرنا چاہیئے، دوست اور دشمن کو پہچان کر پاکستان کی سالمیت کے لئے پوری توانائیاں خرچ کرکے جہاد کرنے کی ضرورت ہے۔ خدا وطن عزیز پاکستان کو داخلی اور بیرونی دشمنوں کے شر سے محفوظ رکهے۔(آمین)
خبر کا کوڈ : 638218
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

سید محمد علی شاہ
Iran, Islamic Republic of
ماشاء اللہ۔ بہترین اور دلکشا تحریر ہے
ہماری پیشکش