0
Thursday 24 Aug 2017 15:50

علی ؑ و زہراءؑ کا عقد اور ہمارا طرز عمل

علی ؑ و زہراءؑ کا عقد اور ہمارا طرز عمل
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

آج بہت زیادہ تعداد میں لوگوں نے سوشل میڈیا پر حضرت علیؑ اور حضرت فاطمہؑ کے عقد کا تذکرہ کیا۔ آج ان کا یوم عقد ہے۔ کائنات کے افضل ترین جوڑوں میں ایک جوڑا رشتہ ازدواج میں بندھ گیا ہے۔ اسلام کے شادی بیاہ اور اس کی رسم و رواج سے متعلق بہت سے احکامات اس عقد سے معلوم ہوئے ہیں۔ دلہا اور دلہن دونوں کی پرورش خاتم الانبیاء کے ہاتھوں ہوئی ہے۔ اس لئے دونوں کا مزاج ایک سا ہے، دونوں کا طرز زندگی ایک سا ہے، دونوں الٰہی رنگ کو اختیار کئے ہوئے ہیں اور اسلام کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا چکے ہیں۔ پرودہ نبوتؐ یہ جوڑا قیامت تک آنے والوں کے لئے ایک نمونہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کا کردار، ان کے آپس کے تعلقات، ان کا آپس میں امور کو انجام دینا سب کچھ مشعل راہ بنے گا۔ سردار انبیاءؑ کے پاس جب سردار اولیاء حضرت علیؑ خواستگاری کے لئے تشریف لائے تو حضرت نے فرمایا کہ میں اپنی بیٹی سے پوچھ کر رشتہ طے کروں گا۔ نبی مکرم ؐ اپنی دختر نیک اختر کے پاس تشریف لائے اور پوچھا کہ بیٹی کیا میں تمہارا عقد علیؑ کے ساتھ کر دوں۔؟ حضرت فاطمہؑ خاموش رہیں، آپؐ نے دوبارہ یہی سوال کیا آپؑ پھر خاموش رہیں، جب تیسری بار حضرت رسالت مآب ؐنے پوچھا اور حضرت فاطمہؑ خاموش رہیں تو سردار انبیاءؑ نے فرمایا بیٹی کا خاموش رہنا اس کی رضا ہے، اگر وہ راضی نہیں تو اسے اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہیے۔

ٹھہریئے، ذرا یہیں رک جایئے ذرا اپنے گریبان میں جھانک لیتے ہیں، ہمارا طرز عمل کیا ہے؟ کیا ہم شادی سے پہلے بیٹیوں کو یہ حق دیتے ہیں؟ یا ان پر اپنی مرضی مسلط کر دیتے ہیں؟ ہمارا معاشرہ بچیوں پر جبر کرتا ہے، ان کو ان کے حق سے محروم کرتا ہے، سارے گھر والوں کو معلوم ہونے کے بعد بچی کو پتہ چلتا ہے کہ اس کا رشتہ طے ہو چکا ہے اور گھر میں ہونے والی چہل پہل اسی وجہ سے ہے۔ جس نے زندگی گزارنی ہے، جس کے ساتھ اس کا مستقبل وابستہ کیا جا رہا ہے، اسے معلوم ہی نہیں کہ وہ کون ہے؟ کیا کرتا ہے؟ ان کے درمیان ذہنی ہم آہنگی ہو بھی پائے گی یا نہیں۔ غرض ہزاروں سوالات بچی کے ذہن میں ہی دم توڑ جاتے ہیں اور کوئی یہ زحمت نہیں کرتا کہ بچی سے اس کی مرضی پوچھ لی جائے۔ ایک عجیب بات دیکھنے کو ملی، کہا جاتا ہے ہم بچی کے دشمن تھوڑا ہیں، ہم نے غور و فکر کرکے رشتہ طے کیا ہے، ہم اس کے مستقبل کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔ آپ کی بات سر آنکھوں پر، آپ نے واقعاً بچی کے فائدے کا ہی سوچا ہوگا، لیکن عین ممکن ہے کہ جو چیزیں آپ کے لئے اہم ہیں، وہ بچی کے لئے اہم نہ ہوں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو چیز بچی دیکھے، وہ جنریشن گیپ کی وجہ سے آپ نظر انداز کر رہے ہوں۔ نبی اکرمﷺ سے زیادہ خیر خواہ باپ بیٹی کے لئے کون ہوسکتا ہے، جنہوں نے اپنی بیٹی کو ماں کا پیار بھی دیا۔ اس کے باوجود جب رشتہ طے کرنے کی بات آئی تو اپنی بیٹی سے خود دیافت کیا۔

اس بات پر ضرور غور کیجئے گا، جب ہم نے بچی سے اس کا وہ حق چھین لیا، جو شریعت نے اسے عطا کیا تھا تو اس کا نتیجہ بہت بھیانک نکلا۔ ہم نے کئی خاندانوں کو تباہ و برباد ہوتے دیکھا ہے۔ جب میں گورنمنٹ کالج ساہیوال کا طالب علم تھا اور ہوٹل سے کھانا کھاتا تھا۔ ہوٹل والے نے بتایا کہ میں اگلے چند روز چھٹی پر گھر جاؤں گا، کیونکہ میری بیٹی کی شادی ہے۔ جب وہ بیٹی کی شادی کرکے لوٹا تو بہت پریشان تھ، بیٹی کی شادی سے اس کے کاندھوں سے جس احساس ذمہ داری نے اتر کر اسے سکون مہیا کرنا تھا، وہ کہیں نظر نہیں آرہا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ کسی کرب میں مبتلا ہے۔ ایک دن میں نے والد مرحوم سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اس نے اپنی بیٹی کی شادی اس کے مرضی کے خلاف کر دی، بیٹی نے کافی واویلہ کیا، مگر اس کی بات نہ سنی اور جب شادی ہوگئی تو دوسرے دن ہی وہ اپنے خاوند سے طلاق لیکر واپس گھر آگئی کہ وہ کسی اور سے شادی کرنا چاہتی ہے اور گھر والوں نے زبردستی شادی کی ہے۔ یہ تو ایک واقعہ ہے، روز کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیجئے، کورٹ میرج حد سے بڑھ گئی ہیں، طلاق بڑی تیزی سے معاشرے میں پھیل رہی ہے، خواتین کو قتل کرنے کے عشاریے مسلسل بڑھ رہے ہیں، فیملی کورٹس میں مقدمات کی بھرمار ہوچکی ہے اور یہ مسئلہ سماج کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ ہر گھر والے پریشان ہیں، مگر یہ جاننے کی کوشش نہیں کی جاتی کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔؟رشتہ طے کرتے وقت انسان کا انسان سے تعلق نہیں جوڑا جاتا بلکہ بچی کی شادی بنگلے، گاڑی، جاب اور بنک بیلنس سے کی جاتی ہے۔ یہ تعلق اتنا حقیر ہے، جسے ٹوٹتے چند لمحات لگتے ہیں۔

حضرت زہراءؑ کا یوم عقد منانے والو، جب اپنی بچیوں کی شادی طے کرنے لگو تو وہی معیار پیش نظر رکھا کرو، جو رسالت مآب کے پیش نظر تھا۔ آپؐ نے اپنی بیٹی کا رشتہ مالدار لوگوں کو دینے سے انکار کیا تھا اور ایک ایسے شخص کو دیا تھا، جس کے پاس جہیز میں دینے کے لئے کچھ نہ تھا، ایک متاع بیچ کر کچھ سامان لایا گیا تھا۔ حیران ہوتا ہوں اور آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو جاتی ہیں، جب وجہ تخلیق کائنات کی بیٹی کے جہیز کی تفصیل پڑھتا ہوں۔ چند مٹی کے برتن ہیں، مشک ہے، چکی ہے اور بستر ہے۔ علماء نے ان تمام اشیاء کی تعداد 20 کے قریب لکھی ہے اور جب خاتم الانیباءؑ جناب سیدہ کائنات کے جہیز کے پاس تشریف لائے تو غور سے ہر چیز کو دیکھا، ایک باپ ہی جانتا ہے کہ وہ بیٹی کے جہیز سے کتنا پیار کرتا ہے، آپؐ نے جہیز کے پاس دست دعا بلند کئے اور ایک دعا کی، جو صرف اپنی بیٹی کے لئے نہ تھی بلکہ قیامت تک آنے والی تمام بیٹیوں کے لئے حضرت نے فرمایا، اے پرودگار اس گھر کو برکت عطا فرما، جس کے اکثر برتن مٹی کے ہوں۔

یاد رکھو، اگر عزت کا معیار زیادہ جہیز ہوتا تو آپؐ سے بڑھ کر جہیز کون دے سکتا تھا؟ اور اگر شرف کی بنیاد بڑی تقریب ہوتی تو آپؐ سے بڑھ کر کون یہ تقریب منعقد کرسکتا تھا۔؟ مگر آپؐ نے اس طرح سے بیٹی کی شادی کی جیسے اس وقت مدینہ کے غریب ترین مسلمان کی بچی کی شادی بھی ہوسکتی تھی۔ آپؐ نے عزت و شرف کے معیار کو چند دھاتوں اور مٹی کے مجموعے سے تبدیل کرکے روحانیت کو قرار دیا۔ عقد روح کا روح سے رشتہ قرار پایا اور اللہ کے ایک عظیم حکم کی تکمیل ہو تو وہ خاندان وجود میں آتا ہے جسے علیؑ و زہراءؑ کا خاندان کہا جاتا ہے۔ علیؑ و زہراءؑ کی شادی کا جشن منانے والو، اپنے عمل سے ثابت کرو کہ تم اس جشن پر خوش ہو، گھر میں عمر رسیدہ ہوتی بہنوں اور بیٹیوں کے جذبات کو خاندان، جہیز اور جانے کن کن رکاوٹوں سے قتل کرنے والو، اپنے رویوں کو تبدیل کرو۔ جب تم معیارات تبدیل کر دو گے اور اس خاندان کے قائم کردہ معیارات پر زندگی گزارنے کی کوشش کرو گے تو اللہ تمہارے کام آسان کر دے گا اور ویسے بھی بیٹیاں اللہ کے رسولؐ کو بہت پیاری تھیں، اللہ ہر بیٹی کو عزت مند زندگی دے۔
خبر کا کوڈ : 663988
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش