0
Monday 28 Aug 2017 00:32

امریکہ، دہشتگردی اور پاکستان(2)

امریکہ، دہشتگردی اور پاکستان(2)
تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان


جنوبی ایشیاء کے بارے میں ٹرمپ کی حکمت عملی کا ایک اور اہم حصہ یہ ہے کہ بھارت کے ساتھ امریکہ کی تزویراتی شراکت داری کو مزید محکم کیا جائے۔ ٹرمپ کہتے ہیں کہ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور امریکہ کا کلیدی فوجی و اقتصادی شراکت دار ہے۔ افغانستان میں بھارت کے تعاون کو سراہتے ہوئے کہا کہ بھارت امریکہ کے ساتھ تجارت میں اربوں ڈالر کماتا ہے اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ بھارت افغانستان میں مزید امریکہ کی مدد کرے، خاص طور پر افغانستان کی اقتصادی معاونت اور ترقی کے لئے امریکہ کی مدد کرے۔ یہی نہیں بلکہ ٹرمپ کہتے ہیں کہ نہ صرف جنوبی ایشیاء بلکہ وسیع تر خطہ بحر ہند میں امن و سلامتی کے مشترکہ ہدف کے حصول کے لئے امریکہ متعہد ہے۔ امریکی صدر نے یہاں پر ایک مرتبہ پھر اسی طرح احمقانہ پن کا مظاہرہ کیا ہے، کیونکہ جس بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتے ہوئے ان کی شراکت داری کے خواہاں ہیں، اسی بھارت کی سات لاکھ فوج مقبوضہ کشمیر میں نہتے انسانوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھانے میں مشغول ہے، ٹھیک اسی طرح یہاں بھی ہندوستان کو امریکی سرپرستی حاصل ہے، جیسے غاصب اسرائیل کو فلسطینی سرزمین پر مظلوموں کا لہو بہانے کی امریکی کھلی چھوٹ حاصل ہے، کاش امریکی صدر ہندوستان کے ساتھ شراکت داری کے بارے میں بات کرتے ہوئے دنیا کو یہ بھی باور کرواتے کہ کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی کا خاتمہ یقینی بنایا جائے گا، لیکن افسوس ہے کہ ماضی کے تمام امریکی صدور کی طرح یہ موجود صدر یعنی ٹرمپ بھی صیہونی لابی کے زیر اثر ہیں۔

جہاں انہوں نے کشمیر و فلسطین کو فراموش کیا ہے، وہاں انہوں نے دہشت گردی کے نتیجہ میں قربانیاں پیش کرنے والے لاکھوں معصوم انسانوں کی توہین کرتے ہوئے ہندوستان کو افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف مدد کرنے کا اشارہ دیا ہے، جبکہ حققیت تو یہ ہے کہ ہندوستان خود افغانستان اور پاکستان میں دہشت گرد گروہوں کی پشت پناہی میں مصروف ہے تو کس طرح ممکن ہے کہ امریکہ اور ہندوستان مل کر دہشت گردوں کے خلاف کوئی تعاون کریں گے۔بہرحال امریکی صدر کو چاہئیے تھا کہ ایک طرفہ آئینہ دکھانے کی بجائے آئینہ کا دوسرا تلخ اور سنجیدہ رخ بھی پیش کرتے۔ امریکی صدر کی حالیہ تقریر دراصل اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ امریکی صدر کے دہشت گردی کے خلاف بلند بانگ دعوے فقط خام خیالی اور حقیقت سے برعکس ہیں۔ دراصل حقیقت میں امریکی صدر یہ چاہتے ہیں کہ وہ شام میں داعش اور النصرۃ جیسی خونخوار دہشت گرد تنظیموں کی حمایت کرتے رہیں، اسی طرح فلسطین میں ہونیوالے صیہونی مظالم پر چشم پوشی جاری رکھیں، مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی پر بھی ان کی آشیرباد رہے، عراق سے داعش اور النصرۃ کے خاتمہ کے بعد اب وہ پھر سے ایسے ہی کسی نئے گروہ کو جنم دینے کے بارے میں سنجیدگی سے فکر مند ہیں، اسی طرح پاکستان کی بات کریں تو یہاں بھی انکو دہشت گردوں کا صفایا ہوتا ہوا پسند نہیں آتا اور دہشت گردی کیخلاف جہد مسلسل میں مصروف عمل افواج پاکستان کی کوششوں اور انتھک محنت کو وہ اپنے احمقانہ بیانات میں سبوتاژ کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔

بات افغانستان کی ہو تو یہاں بھی وہ اس بات کے حامی ہیں کہ داعش کو مکمل کنٹرول کس طرح دلوایا جائے، تاکہ داعش ایک طرف حکومت پر قابض ہو جائے تو دوسری طرف طالبان کو بھی ٹھکانے لگایا جائے، کیونکہ اب یہ ان کے کام کے نہیں رہے، کیونکہ اب روس کے خلاف ان کو فی الحال کوئی نیا محاد نہیں کھولنا ہے، اب امریکی صدر کی خواہش ہے کہ داعش کو افغانستان کے بعد پھر پاکستان کا رخ دکھایا جائے اور ان دونوں ممالک میں موجود معدنی ذخائر اور دیگر وسائل پر باقاعدہ امریکی تسلط بذریعہ داعش یا کسی بھی طرح ہو ممکن بنایا جائے۔ بہرحال امریکی صدر نے پاکستان کے بارے میں ایسے وقت میں بیان بازی کی ہے کہ جب افواج پاکستان کے سپہ سالار جنرل قمر باجوہ کی سربراہی میں دہشت گردوں کی کمر توڑی جا رہی ہے اور ایسے حالات میں امریکی صدر کا احمقانہ بیان دراصل پاکستان کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کے ساتھ ساتھ دہشت گرد گروہوں کی حوصلہ افزائی کرنا بھی ہے۔ دوسری جانب اس معاملہ پر افواج پاکستان کے سپہ سالار جنرل قمر باجوہ نے فوری ایکشن لیتے ہوئے پاکستان میں موجود امریکی سفیر کو متنبہ کیا ہے اور انہیں بتا دیا ہے کہ پاکستان کوئی بھکاری ملک نہیں ہے اور ہمیں امریکہ سے کسی قسم کی کوئی مالی امداد کی ضرورت نہیں ہے۔ امریکہ نے ایک اور مرتبہ مکاری سے کام لیا ہے۔ افغانستان میں دہشت گردوں کی موجودگی امریکہ کی ناکامی ہے اور ممکن ہے کہ امریکہ خود ہی اس خطے کو عدم استحکام میں مبتلا دیکھنا چاہتا ہے، تاکہ اس کی فوجی موجودگی کا بہانہ رہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ افغان عوام، عراقی عوام کی طرح امریکہ کو اپنے ملک سے فوجی انخلاء پر مجبور کر دیں۔

یقیناً یہ شجاعت مندی اور بہادری کا فیصلہ تھا، جسے انہوں نے انجام دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان پر پوری پاکستانی قوم کو اعتماد ہے اور دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں پوری پاکستانی قوم ان کے شانہ بہ شانہ ہے۔ افواج پاکستان کے سالار کی جانب سے منہ توڑ جواب ملنے پر امریکی صدر نے ایک مرتبہ پھر بوکھلاہٹ میں بلوچستان پر حملہ کرنے کی بات کہہ ڈالی ہے، جس پر پوری پاکستانی قوم کو شدید غصہ ہے اور پاکستان کا بچہ بچہ امریکہ کے خلاف سراپا احتجاج بنا ہوا ہے۔ دوسری جانب چیئرمین سینیٹ جناب میاں رضا ربانی نے قوم کی ترجمانی کرتے ہوئے امریکہ کو دوٹوک پیغام دیا ہے کہ اگر امریکہ پاکستان کے کسی بھی حصے پر حملے کا خواب دیکھ رہا ہے تو اسے جان لینا چاہئیے کہ وہ امریکی فوجیوں کا قبرستان پاکستان میں بنانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے اور ہم اس معاملے پر امریکہ کو خوش آمدید کہتے ہیں کہ وہ اپنے فوجیوں کا قبرستان پاکستان میں بنانا چاہتا ہے تو آجائے۔ سیاسی ماہرین کے مطابق جیسا کہ کالم کے پہلے حصہ میں بیان کیا گیا ہے کہ امریکہ کی پرانی پالیسی کو ٹرمپ نے نئے الفاظ میں بیان کیا ہے، ورنہ پاکستان پر الزامات اور دھمکیاں امریکہ کی پرانی پالیسی ہے۔ افغان حکومت کو طالبان یا دیگر دہشت گردوں سے ڈرا کر امریکی مفاد کے لئے بلیک میل کرنا بھی پرانی پالیسی ہے۔ بھارت کو افغانستان میں بڑے بھائی کا کردار دینا 2006ء میں جارج بش جونیئر کے دورہ بھارت میں ہوچکا تھا۔

امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے منگل 22 اگست کو پریس کانفرنس میں صحافیوں کے سوالات کے جواب میں اشارہ دیا تھا کہ امریکہ کے پاس دو لیوریج ہیں کہ پاکستان کی مالی و فوجی معاونت یا امداد روک دے اور اس کا نان نیٹو اتحادی کا درجہ ختم کر دے۔ نیوکلیئر ہتھیاروں کی حفاظت پر تشویش کا اظہار ٹرمپ کے بعد ٹلرسن نے بھی کیا، حالانکہ یہ بھی ماضی کی امریکی حکومتوں کی پالیسی رہی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اب وقت آچکا ہے کہ پاکستان کو امریکہ سے متعلق اپنی پالیسی تبدیل کرنا ہوگی، پاکستان خطے میں چین، روس اور ایران سمیت افغانستان کے ساتھ مل کر بہتر حکمت عملی تیار کرسکتا ہے۔ یہاں یہ بات قابل قدر ہے کہ مسلم دنیا میں سب سے پہلا ملک ایران ہے کہ جس نے حالیہ دنوں پاکستان کے خلاف امریکی صدر کے بیانات کی شدید مذمت کرتے ہوئے امریکہ کو خطے میں دوسرے ممالک میں دخل اندازی کا مرتکب قرار دیا ہے اور امریکی صدر کے بیانات کی شدید مذمت کرتے ہوئے پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جاری جدوجہد کی قدر دانی بھی کی ہے۔ کاش کہ دنیا کے دوسرے مسلم ممالک اور ان کے حکمران بھی امریکی صدر کی پاکستان کیخلاف ہرزہ سرائیوں پر امریکہ کی مذمت کریں۔
۔۔۔۔۔ختم شد۔۔۔
خبر کا کوڈ : 664520
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش