0
Friday 27 Oct 2017 19:30

یوم سیاہ

یوم سیاہ
ترتیب و تنظیم: ٹی اچ بلوچ

کشمیریوں نے ڈوگرہ مظالم کے خلاف جہاد کرکے اور قربانیاں دے کر بیس کیمپ (آزاد کشمیر) کا یہ خطہ آزاد کروا کر 24 اکتوبر 1947ء کو غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان کی سربراہی میں انقلابی حکومت قائم کی۔ مجاہدین فتوحات کے لئے جدوجہد میں مصروف تھے۔ مہاراجہ اس صورت حال سے بہت پریشان ہوا اور اپنے متوقع انجام سے حواس باختہ ہو کر سری نگر سے بھاگ کر جموں پہنچ گیا اور ریاست کے بھارت کے ساتھ نام نہاد الحاق کی درخواست دے دی۔ مہاراجہ نے کانگریس کے ساتھ ملی بھگت کرکے 26 اکتوبر 1947ء کو اس نام نہاد الحاق کی آڑ میں بھارت نے اپنی فوجیں سری نگر میں اتارنا شروع کر دیں۔ لیکن اس کے برعکس حقائق یہ بتاتے ہیں کہ مہاراجہ نے الحاق کی درخواست پر دستخط نہیں کئے تھے۔ برطانوی مورخ اور محقق ایسٹرلیپ نے اس ضمن میں اپنی کتاب A birth of a tragedy میں لکھا کہ مہاراجہ نے بھارت سے کشمیر کے الحاق کی دستاویز پر دستخط نہیں کئے تھے، بلکہ یہ جعلی تھے۔ مہاراجہ نے ریاست کے اندرونی مسائل پونچھ میں چلنے والی تحریک کے پیش نظر بھارت سے فوجی و مالی امداد کی درخواست کی تھی، لیکن بھارت نے جان بوجھ کر تاخیر کی، تاکہ مہاراجہ مایوس ہو کر کشمیر کا بھارت کے ساتھ مجبوراً الحاق کر دے، جبکہ مہاراجہ کی ذاتی خواہش ریاست کی اندرونی خود مختاری قائم و برقرار رکھنے کی تھی۔

25 نومبر 1947ء کو آئین ساز اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے پنڈٹ نہرو نے کہا کہ کشمیری عوام کو اظہار رائے کا موقع دیا جائے تو اس کی نگرانی اقوام متحدہ جیسے غیر جانبدار ادار ے کو کرنی چاہیے۔ دسمبر 1947ء کو سری نگر کے لال چوک میں خطاب کے دوران پنڈت نہرو نے کہا تھا کہ ہمارا کشمیریوں کی سرزمین ہتھیانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور ہم کشمیریوں کو اپنی مرضی کے مستقبل کی ضمانت دیتے ہیں۔ 15 جنوری 1948ء کو گوبالا سوامی آینگر نے اقوام متحدہ میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ یہ کشمیری عوام کا اپنا فیصلہ ہوگا کہ وہ ہندوستان کے ساتھ الحاق پر قائم رہتے ہیں یا ایک آزاد خود مختار ملک کی حیثیت سے رہنا چاہتے ہیں۔ 12 فروری 1951ء کو پنڈت نہرو نے اپنی پارلیمنٹ میں واضح کیا کہ کشمیر کوئی محض زمین کا ٹکڑا نہیں ہے، جس کا سودا کر لیا جائے، یہاں لاکھوں عوام سے مویشیوں کا سا سلوک نہیں کرسکتے۔ ستمبر 1951ء میں بھارت نے دستور ساز اسمبلی کے انتخابی پروگرام کا اعلان کیا تو اس موقع پر پاکستان نے جب اپنے ردعمل کا اظہار کیا، تو اس کے جواب میں 9 مارچ 1951ء کو سلامتی کونسل میں بھارت کے نمائندے برینی گال لائونے اس امر کی یقین دہانی کروائی کہ دستور ساز اسمبلی اپنی رائے کا اظہار تو کرسکتی ہے، لیکن فیصلے کی مجاز نہ ہوگی اور پھر 29 مارچ 1951ء کو بھی ایسی ہی یقین دہانی کرائی، لیکن اس کے باوجود 24 جولائی 1952ء کو نام نہاد ریاستی اسمبلی نے کشمیر کے بھارت سے مہاراجہ کی الحاق کی توثیق کر دی۔

اس وقت کے ریاستی وزیراعظم نے اس پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ توثیق آزادانہ اور غیر جانبدارانہ ماحول میں نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی اس کی کوئی حیثیت ہے، کیونکہ اس رائے میں آزاد کشمیر، شمالی علاقہ جات اور مہاجرین جموں و کشمیر مقیم پاکستان کی مرضی شامل نہیں ہے۔ لیکن بھارت نے جب اس قرارداد کو اپنے مقاصد کیلئے اچھالنا شروع کیا تو پھر سلامتی کونسل نے 30 مارچ 1951ء کی قرارداد کی منشاء اور 24 جون 1957ء کے ریاستی انتخابات کے حوالہ سے رائے دی کہ ریاستی اسمبلی کا فیصلہ اقوام متحدہ کی قراردار کو ہرگز متاثر نہیں کرے گا اور نہ ہی وہ اسمبلی ایسے کسی فیصلہ کی مجاز ہے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر کی سنگین صورتحال سے توجہ ہٹانے کے لئے پاکستان میں دراندازی کر رہا ہے اور اس نے ایک منظم منصوبہ بندی سے تحریک طالبان سے روابط قائم کرکے پاکستان میں دہشت گردی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا ہے۔ تقسیم ہند کے وقت جن لوگوں نے کشمیریوں کو گاجر مولی کی طرح کٹتے دیکھا، ان میں سے کچھ لوگ زندہ ہیں، جو اس قتل گری اور لوٹ مار کے عینی شاہد ہیں۔ مہاراجہ کے ڈوگرہ سپاہی، بھارتی فوجی درندے اور انتہا پسند ہندو اس قتل عام میں شامل تھے۔ قتل ہونے والوں میں وہ لوگ شامل نہیں جو راستے میں جاتے ہوئے دھوکے سے مارے گئے۔

یورپی میڈیا میں جموں و کشمیر میں قتل کئے گئے مسلمانوں کی تعداد 2 لاکھ سے زائد بتائی گئی ہے۔ 27 اکتوبر کو نصف کروڑ مسلمانوں کو ڈوگرہ غلامی سے برہمنوں کی غلامی میں دیدیا گیا، اس دن بھارت نے اس چانکیہ تعلیم پر عملدرآمد کیا، جو انہیں اپنے مفاد کیلئے نچلی ترین سطح پر گر جانے کی اجازت دیتی ہے۔ جھوٹ، فریب، منافقت اور وعدہ خلافی نیز ایسی کوئی اخلاقی اور انسانی بُرائی دنیا میں ابھی تک متعارف نہیں ہوئی، جس کا مظاہرہ نہ کیا گیا ہو۔ کشمیر پر بھارتی قبضہ کروانے میں سب سے گھناوٗنا کردار وی پی مینن اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا ہے، جنہوں نے الحاق کی در پردہ سازش تیار کی جبکہ گاندھی، نہرو اور پٹیل سازش کی بنیادیں گہری کرنے والوں میں تھے۔ کشمیر پر بھارتی قبضہ کروانے میں مذکورہ بالا ایکٹرز نے ظالمانہ اور منافقت پر مبنی کردار ادا کیا، جو کہ دغا، بے اصولی، ناانصافی، حق تلفی، مسلمانوں سے عناد، مسلم کشی کی ایسی شرمناک داستان ہے، جو ظلم و استبداد اور جارحیت کی تاریخ میں منفرد ہے۔ یہ دن دراصل انڈیا کی بربریت، طاقت کے گھمنڈ کے خلاف بطور یوم سیاہ کے منایا جاتا ہے۔ تقسیم ہندوستان کے طے شدہ اصول کے مطابق ریاستوں کو اپنی مذہبی، جغرافیائی اور آبادیاتی حقائق کی بنیاد کے پیش نظر دونوں ممالک میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کرنے کا انتخاب کرنا تھا اور دونوں ممالک کے درمیان یہ بھی طے پا چکا تھا۔

الحاق کے لئے کوئی دبائو یا در پردہ کوشش بروئے کار نہیں لائی جائے گی۔ انڈیا نے اس تحریری معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حیدرآباد، جونا گڑھ اور جموں کشمیر کی ریاستوں پر قبضہ کر لیا۔ انڈیا نے کشمیریوں کی خواہشات کا، اس مذموم ارادے کے ساتھ، قتل کیا کہ مستقبل میں آبادی میں تبدیلی کرکے استصواب رائے سے اس الحاق کو مستقل کر لیا جائے گا۔ یہ کشمیریوں کو اپنی خواہش کے اظہار کی سزا دی گئی، جسے وہ 19 جولائی1947ء میں مسلم کانفرنس کی ایک قرارداد کے ذریعے سامنے لا چکے تھے۔ پہلے سے تیار کردہ سازش کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے بھارتی وردی پوش درندوں، ڈوگرہ سپاہیوں اور انتہاء پسند ہندوؤں نے جموں کے علاقے میں بہت بڑی تعداد میں مسلمانوں کو قتل کیا۔ یہاں ایک قابل غور نکتہ یہ ہے کہ اگر تقسیم کا منصوبہ انصاف کے اصولوں پر طے کیا گیا تھا، تو بھارت کے پاس کشمیر کے لئے کوئی زمینی راستہ نہ تھا، مگر نام نہاد اور بد دیانت ریڈ کلف بائونڈری کمیشن کا چیئرمین نے انصاف کا قتل کرتے ہوئے خفیہ طریقے سے گورداسپور کا مسلم اکثریتی علاقہ بھارت کے حوالے کر دیا۔ یہ کشمیر کا تنازع پیدا کرنے کا عملی اقدام تھا۔ اس رستے کو استعمال کرتے ہوئے بھارت نے بڑی ڈھٹائی اور بے حیائی کے ساتھ بہیمانہ اور وحشیانہ انداز میں کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کرکے جنوبی ایشیاء کے امن کو تباہ کرنے کے بیج بو دیئے۔

کشمیری عوام گذشتہ 70 برسوں سے احتجاج کر رہے ہیں اور اس دوران اُن کو بھاری اور ناقابل تلافی جانی و مالی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ لاکھوں نوجوانوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ہے، ہزاروں پھول جیسے بچوں کو سنگینوں پر چڑھایا گیا، لاکھوں خواتین بیوہ ہوئیں، لاتعداد معذور ہوئے، ہزاروں عورتوں کی آبروریزی کی گئی، بوڑھی مائیں اپنے جگر گوشوں کی گھر واپسی کا انتظار کرتے کرتے اس دنیا سے چلی گئیں۔ اربوں روپے کی جائیدادیں، مکانات، دکانیں اور دیگر اثاثے نذر آتش ہوئے۔ مسئلہ کشمیر کے حل میں کسی بڑی طاقت کے مداخلت نہ کرنے اور اقوام متحدہ کی طرف سے تاخیر نے کشمیریوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ جنگ ان کی اپنی ہے۔ اُنہوں نے تنہا ہی لڑنا ہے۔ بین الاقوامی برادری کے اس رویہ سے کشمیری نالاں ہیں، یہ ناراضگی کسی بڑے ناخوشگوار واقعہ کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ کشمیر نے ایک لاوا اور اُگلتے آتش فشاں کا روپ دھار لیا ہے۔ فی الوقت کشمیریوں پر بھارت کی جانب سے ظلم ڈھائے جا رہے ہیں اور درندگی، سفاکیت ،بربریت، حیوانیت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے، مگر کشمیریوں نے عزم بالجزم کر رکھا ہے کہ وہ ہر قیمت پر حق خودارادیت حاصل کرکے رہیں گے۔ 27 اکتوبر کو دنیا میں بسنے والے کشمیری یوم سیاہ منا کر عہد کرتے ہیں کہ وہ بھارت کا مکروہ، سیاہ اور بھیانک چہرہ اقوام عالم کے سامنے برہنہ کرینگے اور اقوام متحدہ سے اپیل کرتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و استبداد، جبر و تشدد اور دہشتگردی کیخلاف اپنا کردار ادا کرے اور اقوام متحدہ کی منظور کردہ قرارداد کے مطابق استصواب رائے کا انتظام کرے۔ 27 اکتوبر کو پاکستان میں مختلف سیاسی، سماجی، دینی، تاجر، وکلاء، نوجوان، طلباء کی تنظیمیں اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ یوم سیاہ منا کر بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف آواز بلند کرتی ہیں۔
خبر کا کوڈ : 679511
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش