0
Sunday 5 Nov 2017 15:16

پریشان امریکہ

پریشان امریکہ
تحریر: عارف حسین مدّبری
Arifmudabbiri5@gmail.com


مشکلات نے اپنا رخ امریکہ بہادر کی طرف موڑا ہوا ہے، بلکہ یوں کہوں تو بہتر ہوگا کہ امریکہ بہادر کے محترم صدر نے اپنی جارحانہ پالیسیوں کے ذریعے مشکلات کو اپنے ملک میں مدعو کیا ہوا ہے۔ صدر ٹرمپ ایک فرد نہیں بلکہ ایک فکر اور سوچ کا نمائندہ ہے۔ وہ سوچ یہ ہےکہ ڈراو، دھمکاو اور رعب جماو۔ طاقت کے بل بوتے پر اپنی غلطیوں اور ناکامیوں کو چھپاو۔ اگر اس سوچ  اور تفکر کا جیتا جاگتا نمائندہ اور پرچار کرنے والا دیکھنا چاہیں تو محترم ٹرمپ کا بغور مشاہدہ کیا جائے۔ ٹرمپ بھرپور کوشش کر رہا ہے کہ مندرجہ بالا فارمولے پر عمل  پیرا ہوتے ہوئے اپنی تاریخ میں ثبت شدہ غلطیوں اور ناکامیوں پر پردہ ڈالے، لیکن اس کا یہ فارمولا اپنا کام نہیں کر رہا ہے۔ امریکہ کی غلطیوں اور ناکامیوں پر پردہ پڑنے کی بجائے پردہ ہٹ رہا ہے۔ ویسے تو امریکہ کی تاریخ غلطیوں، جنایت کاری اور ناکامیوں سے بھری پڑی ہوئی ہے۔ جیسے کہ ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹمی حملہ، جس نے چند ہی لمحوں میں دو لاکھ بیس ہزار لوگوں کی جان لے لی۔ ویتنام کی جنگ میں ڈیڑھ لاکھ لوگوں کو تہ و تیغ کرنا، جس میں زیادہ تر بچے اور عورتیں شامل تھیں، جب سے ناجائز صیہونی حکومت وجود میں آئی ہے، اسرائیل کی مجرمانہ  حمایت اور پشتبانی کرنا، جس کی وجہ سے دنیا بھر میں فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی ہو رہی ہے، دنیا بھر میں مختلف ملتوں کی جاسوسی کرنا، عراق میں فوجی حملہ کرنا، جس میں ایک لاکھ سے زیادہ سویلین لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، وہ ممالک جو  اپنی خود مختاری اور آزادی پر یقین رکھتے ہیں، ان پر بے جا اور ظالمانہ پابندیاں عائد کرنا اور دنیا بھر میں  دہشت گردوں کی ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ طور پر حمایت اور تعاون کرنا، جنہوں نے ہزاروں  انسانوں کو قتل کر ڈالا ہے۔

لیکن موجودہ منظر نامے میں سب سے بڑی غلطی اور ناکامی اس کا افغانستان پر حملہ کرنا ہے۔ امریکہ بہادر اس جنگ میں اس طرح پھنسا کہ پھنستا ہی چلا گیا۔ یہاں تک کہ اس جنگ میں امریکہ بہادر کو بہت بھاری جانی و مالی نقصان ہوا اور ہو رہا ہے۔ ٹرمپ جب الیکشن کا امیدوار تھا تو اس نے سیاست دانوں کی چال چلتے ہوئے عوام کو اس جنگ سے نکلنے کا سبز باغ  دکھایا تھا، لیکن جب الیکشن میں کامیاب ہوگیا تو اپنی پالیسی ہی بدل ڈالی اور بچاری عوام دور سے اس سبز باغ کا خواب ہی دیکھتے رہ گئی۔ جناب جارح صدر کو صدارت کی کرسی پر بیٹھنے کے بعد ہی یہ بات سمجھ آگئی کہ اتنی ذلت آمیز اور ناکامیوں سے بھری ہوئی اس کشتی کے ذریعے افغانستان سے باہر آنا ممکن نہیں۔ دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو امریکہ  افغانستان سے پسپائی اختیار نہیں کر رہا، اس کی دو بڑی وجوہات ہیں: پہلی وجہ تو یہ ہے کہ  امریکہ اسلامی ریاستوں کو دل سے قبول نہیں کرتا۔ اسلامی ریاستوں کو اپنے لئے سب سے بڑا خطرہ تصور کرتا ہے۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ امریکہ پر اصل اور حقیقی کنٹرول یہودیوں کا  ہے، جو مسلمان تو کیا اپنے علاوہ دوسرے لوگوں کو انسان ہی نہیں سمجھتے۔ لہذا پہلی وجہ امریکہ کا مسلم ریاستوں سے نفرت۔ اسی وجہ سے جب بھی امریکہ کو موقع میسر آیا، اس نے اسلامی ریاستوں اور مملکتوں میں بے چینی، ناامنی اور دہشت گردی کو فروغ دیا ہے۔

عراق پر حملہ، افغانستان کی جنگ، شام، لبنان، یمن، بحرین میں بلواسطہ دہشت گردوں کے ذریعے ناامنی پھیلانا، انفرا اسٹریکچر کو تباہ کرنا، اقتصادی، علمی اور معاشی طور پر صدیوں پیچھے کی طرف دھکیلنا اس کی  واضح ترین مثالیں ہیں۔ اگر یہ ریاستیں نظریاتی اور معاشی طور پر مضبوط ہوں، جیسے ایران اور مصر تو ان ریاستوں سے امریکہ بہادر کی نفرت مزید بڑھ جاتی ہے۔ پاکستان جو کہ نہ صرف ایک نطریاتی مملکت ہے بلکہ واحد اسلامی ایٹمی طاقت  بھی، ہمیشہ امریکہ کی آنکھ میں کھٹکتا رہا ہے، لیکن اس نفرت کا اظہا ر ماضی میں وہ اپنے مفادات کی خاطر مصلحتاً نہیں کیا کرتا تھا۔ اب جبکہ پاکستان کی طرف سے وہ مفادات پورے نہیں ہو رہے ہیں، چنانچہ دوسری طرف سے نفرت کے اظہار میں بھی کوئی کمی نظر نہیں آ رہی ہے۔ امریکی ذمہ داران مختلف مواقعوں پر کھل کر اظہار کر رہے ہیں۔ دوسری وجہ جو کہ انتہائی اہم ہے اور جس کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ امریکہ افغانستان پر اپنا اثر قائم رکھ کر ایران، پاکستان اور افغانستان کے درمیان بننے والے اتحاد کو  روکنا چاہتا ہے۔ جو ان ممالک کو تذویراتی گہرائی عطا کرے گا اور ان کی قومی سلامتی کا  ضامن بھی ہوگا۔ ذرا تصور کیا جائے، ان تین ممالک کا اتحاد اور ایک دوسرے سے تعاون خطے کی ترقی و خوشحالی کے لئے کتنا معاون و مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ تینوں ممالک  قدرتی نعمتوں اور وسائل سے مالا مال۔

افغانستان معدنیات کی دولت سے مالا مال ہے جبکہ ایران تیل اور گیس کے ذخائر سے مالا مال۔ ملک عزیز کی بات ہی الگ ہے، جو زرعی، صنعتی اور ایٹمی طاقت ہے۔ اگر اسٹریٹیجک اہمیت کے حوالے سے دیکھا جائے تو تینوں ممالک انتہائی اہم محل وقوع کے حامل ہیں۔ ان تین مملکتوں کا اتحاد، امن و امان، آرام و سکون اور ان کی ترقی پورے خطے بلکہ پوری دنیا کے لئے بھی خوشحالی اور خوشی کا باعث بنے گی، لیکن امریکہ کبھی بھی یہ نہیں چاہے گا، اس لئے وہ اپنی سرتوڑ کوشش کر رہا ہے اور کرے گا کہ یہ اتحاد وجود میں نہ آئے۔ اسی مقصد کے حصول کے لئے امریکہ اپنے دیرینہ دوست اور تجارتی پارٹنر انڈیا سے ملکر ان کی ایجنسیوں کے ذریعے افغانستان کو پاکستان سے دور رکھنے کی بھرپور کوشش کرتا رہے گا۔ دوسری طرف ان دونوں ممالک کو ایران سے بھی دور رکھنے کی بھرپور کوشش کرے گا اور یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ افغانستان میں امریکہ نے بھارتی ایجنسیوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ وہاں سے ملک عزیز پاکستان کے خلاف افغانستان کی سرزمین اور وہاں کے لوگوں کو استعمال کرے۔ لیکن: و مکروا  و مکرا اللہ واللہ خیرالماکرین۔ ان شا اللہ وہ دن قریب ہے، جب اسلامی ریاستیں متحد ہو کر نہ صرف  اپنی ترقی بلکہ پوری دنیا کی فلاح و بہبود اور خوشحالی و ترقی کے لئے کام کریں گیں۔
نوٹ: ارباب اختیار آخری نکتے (پاکستان، ایران اور افغانستان اتحاد) کے بارے میں ضرور سوچیں اور اس کو عملی کرنے کے لئے جدوجہد کریں۔
خبر کا کوڈ : 681515
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش