0
Thursday 11 Jan 2018 13:08

سانحہ قصور، درد گہرا بھی ہے، تہ دار بھی ہے، بے حد بھی!

سانحہ قصور، درد گہرا بھی ہے، تہ دار بھی ہے، بے حد بھی!
تحریر: ثاقب اکبر

سانحہ قصور آنکھوں کو بے خواب کر دینے والا، دلوں کو رنج و غم سے بھر دینے والا، ضمیروں کو جھنجھوڑ دینے والا، والدین کو تشویش میں مبتلا کر دینے والا، بچوں کو خوف میں مبتلا کر دینے والا، گویا سارے معاشرے کو ہلا دینے والا ہے۔ جب سے یہ المناک واقعہ الم نشرح ہوا ہے، اس پر جس انداز سے پورا معاشرہ غم سرا بنا ہوا ہے، اپنے اور پرائے اس پر جس انداز سے ماتم کناں ہیں اور جیسے کوچے کوچے میں صفِ ماتم بچھی ہے، یوں لگتا ہے کہ ہر ایک نے محسوس کیا کہ زینب اُس کی اپنی بیٹی ہے اور وحشی اس کی اپنی ہی بیٹی کے ساتھ درندگی کرنے والے ہیں۔ اس پہلو سے اگر دیکھا جائے تو یہ کہے بغیر چارا نہیں کہ انسان کی فطرت ابھی زندہ ہے، ضمیروں میں ابھی حرارت باقی ہے اور دلوں میں ابھی سوز و گداز موجود ہے۔ اس سانحے کے بعد اس پر بھی بہت بات ہوئی ہے کہ اس کا ذمہ دار کون کون ہے اور کس کس کو اپنے گریبان میں جھانک کر اپنی ذمہ داری کا تعین کرنا چاہیے اور اپنی غفلت پر دو آنسو بہانے چاہئیں۔ کس کو چاہیے کہ وہ اپنی بے خبری اور نااہلی کا اعتراف کرے اور کس کو چاہیے کہ وہ مظلوم کی دادرسی کرے۔ کسی نے حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا، کسی نے پولیس کو قصور وار گردانا، کسی نے عدلیہ کے دروازے پر پڑی زنجیر ہلانے کی بات کی اور کسی نے سپہ سالار کو آواز دی۔ سیاست دان بھی بولے، حکومت نے بھی ٹسوے بہائے۔ پولیس نے امن کے نام پر مزید دو انسانوں کا خون کر دیا۔ جنھوں نے سانحہ ماڈل ٹاﺅن پر جے آئی ٹی بنائی تھی، انھوں نے اس سانحہ پر بھی جے آئی ٹی بنانے کا اعلان کر دیا۔ سپریم کورٹ نے سوموٹو لینے کا سندیسہ دیا۔ سپہ سالار کے ترجمان نے سپہ سالار کی طرف سے اظہار غم کیا اور تحقیقات میں اپنے تعاون کی پیش کش کی۔

مذہبی رہنماﺅں نے بھی آہ و فریاد میں اپنا حصہ ڈالا۔ معاشرے کے یہ تمام طبقے اور ان کے علاوہ بھی لوگ اپنے اپنے مقام پر ان وجوہ کے ذمہ دار ہیں، جنھوں نے رفتہ رفتہ معاشرے میں اس درجے کا بگاڑ پیدا کر دیا ہے کہ جس کا علاج سطحی، نمائشی، عارضی اور انفرادی اقدامات سے نہیں ہوسکتا۔ میڈیا نے بھی حالات کی تصویر کشی کی ہے۔ ڈھیر ساری بریکنگ نیوز چلائی ہیں۔ سیدھی گولیاں چلاتے ہوئے پولیس والوں کو بھی دکھایا ہے۔ سی سی ٹی وی کیمرے نے جو تصویریں محفوظ کی ہیں، انھیں طشت ازبام کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر بیٹھے درد مندوں نے بھی نالہ و فغاں میں حصہ لیا ہے۔ اس کربلا کی شام غریباں کی مقتول زینب کے لئے سارے ہی ماتم گزار نظر آرہے ہیں۔ ظلمت شب میں سب کو حقیقت دکھائی دے رہی ہیں۔ چراغ گُل کرکے بھی ایک دوسرے کی آہ و زاری کو سب اپنی ہی آہ و زاری سمجھ رہے ہیں۔ سب کے سینوں میں انسانیت کی حرمت کا پاس موجزن دکھائی دیتا ہے۔ معاشرے کا یہ بگاڑ کتنا وسیع اور کتنا گہرا ہوچکا ہے، اس کے لئے 2017ء کے 25 ستمبر سے 23 اکتوبر تک ایک ماہ کے اخبارات کی چند سرخیاں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں، جو ہمارے ایک درد مند دل رکھنے والے ساتھی نے محنت کرکے اکٹھی کی ہیں۔

ملاحظہ فرمائیں۔
25 ستمبر2017ءکی ایک سرخی کچھ یوں ہے:
”بہاولنگر:17 سالہ لڑکی سے اغوا کے بعد زیادتی، پنجایت نے ونی قرار دیدیا"
 27 ستمبر کی ایک سرخی ملاحظہ فرمائیں:
 ”7 سال میں 77 بچے اغوا، لاہور پولیس ایک بھی بازیاب کرانے میں ناکام"
قصور ہی میں اکتوبر میں ایسا ہی ایک سانحہ ہو گزرا ہے، جسے 4 اکتوبر کے ایک اخبار نے ان لفظوں میں آشکار کیا:
”قصور میں ایک اور بچی اجتماعی زیادتی کا شکار"
 7 اکتوبر کو ایک اور دل ہلا دینے والی خبر ان الفاظ میں شائع ہوئی:
”بھاٹی گیٹ 9 سالہ بچی کا زیادتی کے بعد قتل، لاش ہمسائے کی چھت سے ملی"
9 اکتوبر کو ایک اور ستم آشکار ہوا:
”شیخوپورہ: زیادتی کا شکار دوشیزہ انصاف کے لئے دربدر، مقدمہ درج نہ ہوسکا"
9 اکتوبر ہی کو بہاولنگر کی ایک دردناک کہانی ان لفظوں میں بیان ہوئی:
”بہاولنگر: محنت کش کی نابالغ بیٹی اغوا، ملزم گرفتار نہ ہوسکے، ورثاء کا احتجاج"

19 اکتوبر کو جلالپور پیر والہ کی ایک یتیم لڑکی کی دردناک کہانی ان الفاظ میں سامنے آئی:
”جلالپور پیر والہ: چیئرمین میونسپل کمیٹی کی یتیم لڑکی سے کئی ماہ تک زیادتی"
 21 اکتوبر کو ستم گر حکمرانوں کے قبیلے کے ایک فرد کے ظلم کی داستان اخبارات کے صفحے پر ان لفظوں میں نمودار ہوئی:
”چیئرمین چکوال کے بیٹے نے سٹیج اداکارہ سپنا چودھری کو اغوا کر لیا، اجتماعی زیادتی"
 22 اکتوبر کے اخبارات نے درد کی ایک اور داستان ان لفظوں میں بیان کی:
”پھالیہ: 5 اوباشوں کی طالبہ کو اغوا کرکے کئی روز تک زیادتی"
23 اکتوبر کو غم میں گہنایا ہوا سورج طلوع ہوا تو اخبارات پر طرح طرح کے ظلم کی داستانیں رقم تھیں، قصور کی داستان کچھ یوں تھی:
”قصور: تھانیدار کے بیٹے کی اغوا کے بعد بچی سے زیادتی کی کوشش"
جتوئی کی خبر کچھ یوں تھی:
”سود خور جاگیردار اراضی پر قابض، نابالغ لڑکی پر برہنہ کرکے تشدد"
بوریوالا کا ایک ستم کچھ یوں بیان کیا گیا تھا:
”بوریوالا: فیکٹری مالک کے بیٹوں کا مزدور پر برہنہ کرکے تشدد، مزدوروں کا احتجاج"
کہاں تک سنو گے کہا تک سناﺅں
ہزاروں ہی شکوے ہیں، کیا کیا بتاﺅں


قصور ہی کی رنج آور داستانیں اتنی ہیں کہ آدمی کو عمر بھر رلانے کے لئے کافی ہیں۔ لہٰذا واقعہ ایک نہیں ہے اور بگاڑ بھی علاقائی نہیں ہے۔ پورا معاشرہ ہی بگاڑ کا شکار ہے، حکومت کا پورا ڈھانچہ ہی کھوکھلا ہوچکا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اللہ کی لاٹھی کسی وقت بھی برسنے لگے گی۔ اس سے پہلے کہ ایسا ہو جائے، آیئے سب اپنی اپنی ذمہ داری کا احساس کریں، سب جانتے ہیں کہ میڈیا معاشرے کی اصلاح کے لئے اپنا کتنا حصہ ڈال رہا ہے اور معاشرے کے بگاڑ میں اس کی خدمات کس درجے کی ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ قانون کس کے حق میں کس بھاﺅ بکتا ہے اور کون فریاد کناں اور ماتم کناں قانون کے محافظوں کی جھڑکیاں، لاٹھیاں اور گولیاں سہ کر خاموش ہو جاتے ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ عدالتوں میں فائلیں کن پہیوں کی مدد سے حرکت کرتی ہیں، سب جانتے ہیں کہ حکومتوں میں آنے والے کس زور اور قوت سے برسراقتدار آتے ہیں اور عوام کے نام پر لئے ہوئے اقتدار کو وہ کیسے استعمال کرتے ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ جن کے ذمے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ عائد ہوتا ہے، معروف و منکر کے حوالے سے ان کی شناخت اور ترجیح کیا ہے۔
درد گہرا بھی ہے، تہ دار بھی ہے، بے حد بھی!
خبر کا کوڈ : 696342
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش