0
Thursday 8 Feb 2018 08:27

قبضہ کرکے تباہ کرو، خطرناک امریکی سازش

قبضہ کرکے تباہ کرو، خطرناک امریکی سازش
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ
 
افغانستان میں اکتوبر سن 2001ء میں امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نعرے کے ساتھ عسکری مداخلت کا آغاز کیا تھا، تب سے افغانستان شدید داخلی انتشار کا شکار ہے۔ اب امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ طالبان ظلم کر کے سرخ رُو نہیں ہوں گے۔ اس سے قبل بھی روس کیخلاف جنگ میں خطے تباہی کا شکار رہا۔ لیکن اب صدر ٹرمپ نے دہشت گردی کیخلاف جنگ کے مقصد پہ قائم رہتے ہوئے یہ کہا ہے کہ امریکہ کا اصل مقابلہ روس اور چین سے ہے، چین بھی روس کی طرح عالمی سیاست کی بساط میں امریکہ کا مدمقابل ہے۔ پاکستان امریکہ کا اتحادی تھا، لیکن اسوقت ہم روس اور چین کے قریب ہیں۔ ٹرمپ نے دھمکی نہیں دی ہے کہ شمالی کوریا کی طرح پاکستان کیخلاف بھی ایٹمی ہتھیار استعمال ہو سکتے ہیں، ایٹمی اثاثوں پہ اعتراض کو دہرا رہے ہیں۔ پاکستان کی ایٹمی ٹیکنالوجی کو بھی شدت پسندوں کی موجودگی کے الزام کیساتھ جوڑتے ہوئے، دنیا کیلئے فرضی خطرہ قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ بات تو ان افغان طالبان کی ہو رہی تھی، جن کی بنیاد امریکہ نے رکھی تھی اور انہیں کیساتھ مذاکرات پر زور بھی دیا جا رہا ہے۔
 
صدر کے بعد امریکی وزیر خارجہ، وزیر دفاع اور سی آئی اے چیف نے یہ واضح کیا ہے کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ اصل مقصد نہیں، اس وقت امریکی مفادات کیلئے بڑا خطرہ روس اور چین ہیں۔ اس سے امریکی رائے عامہ کو پورے گلوب پہ پھیلے ہوئے عسکری انفرااسٹرکچر کا جواز سمجھانا زیادہ آسان ہے۔ ساتھ ہی نیوکلیئر ہتھیاروں کے بل بوتے پہ روس کے زیادہ پراعتماد ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے درمیانے درجے کے ایٹمی ہتھیار بنانے اور استعمال کرنے کی پالیسی بھی سامنے آئی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کے بارے میں نہایت سخت لہجہ اپنایا ہے، اب پابندیاں بھی عائد کی ہیں، جیسا کہ ایران کے ساتھ ہوا۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے پاکستان اب چین کیخلاف فرنٹ لائن اسٹیٹ بننے کو تیار نہیں، اس مقصد کیلئے پاکستان کا ازلی دشمن امریکہ کا ساتھ دے رہا ہے۔ بنیادی وجہ سی پیک اور پھر ٹرمپ کی جنوبی ایشیا کو شامل کرتے ہوئے نئی افغان پالیسی ہے۔ اسلام آباد افغانستان سے متعلق امریکا کی نئی پالیسی سے متفق نہیں ہے۔ یہ افغانستان کی جنگ اپنی زمین پر نہیں لڑے گا۔ یہ افغانستان میں ہندوستان کے وسیع کردار کی مخالفت کرتا رہے گا۔
 
امریکا نے ایشیاء میں چین کے اثر و رسوخ کے مقابلے کے لیے ہندوستان کو اپنا اسٹریٹجک شراکت دار منتخب کرلیا ہے۔ نتیجتاً پاکستان کی سلامتی کے لیے ہندوستان کی جانب سے کیا خطرات پیدا ہوتے ہیں، اِس سے امریکا کو یا تو کوئی فرق نہیں پڑتا، یا پھر خطے میں ہند امریکی بالادستی کے خلاف پاکستان کی مزاحمت کو کمزور کرنا، اِس کی پالیسی کا حصہ ہے۔ ہندوستانی ڈکٹیشن کی مزاحمت اور امریکا کی اسٹریٹجک پالیسیوں کی مخالفت کرنے کی قابلیت پاکستان میں ایک اہم وجہ سے موجود ہے۔ وہ اہم وجہ پاکستان کی ایٹمی اور میزائل صلاحیت ہے۔ اس کے بغیر پاکستان پر یا عراق کی طرح حملہ کردیا جاتا یا پھر ایران کی طرح پابندیاں لگا دی جاتیں۔ دوسری جانب شمالی کوریا اپنی تنہائی کے باجود امریکا کو نیچا دکھانے میں اِس لیے کامیاب ہے، کیوں کہ وہ ایک ایٹمی قوت اور میزائل ٹیکنالوجی کی ماہر قوم ہے۔ ایک اسلامی ایٹمی قوت امریکا اور زیادہ تر مغربی ممالک کے لیے ہمیشہ سے گلے کی ہڈی کی طرح تھی۔ جب پاکستان امریکا کا قریبی اتحادی تھا، تب بھی امریکا کی پوری کوشش تھی کہ کسی نہ کسی طرح اِس کے ایٹمی اور میزائل پروگرام کو بتدریج کم کرتے ہوئے ختم ہی کردیا جائے۔ امریکا کے ہندوستان کے ساتھ اتحاد کے بعد اِن کوششوں میں تیزی آئی ہے۔ 

پاکستان کے اسٹریٹجک پروگرامز کے خلاف ٹیکنولوجیکل اور سیاسی پابندیوں کے علاوہ امریکا اب مطالبہ کر رہا ہے کہ پاکستان اکیلے ہی ایٹمی مواد اور تھوڑے اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے ایٹمی میزائلوں کی تیاری بند کردے۔ مگر اِس کے ساتھ ہی یہ ہندوستان کی اِس کے ایٹمی اسلحے میں اضافے اور جدت لانے، اِس کی میزائل اور اینٹی بیلسٹک میزائل صلاحیتوں میں اضافے اور اِس کی فضائی و بحری افواج اور سیٹلائٹ اور خلائی پروگرام میں ترقی کے لیے بھرپور مدد کر رہا ہے۔ رپورٹس موجود ہیں کہ امریکا نے کسی تنازعے یا بحران کے دوران پاکستان کے ایٹمی اسلحے پر قبضہ کرنے یا اِسے برباد کرنے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔ امریکی تھنک ٹینکس نے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے دہشتگردوں کے ہاتھ لگ جانے یا اِس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز طور پر پاک فوج کے انتہاپسند فوج میں تبدیل ہوجانے کے خیالی پلاؤ بنا رکھے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس طرح کی خوفناک صورتحال پیدا کی جاسکتی ہے تاکہ قبضہ کرو اور تباہ کرو کے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جاسکے۔ اگر پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ایک اور جنگ ہوگئی، تو حالات میں مزید خرابی آئے گی۔ کشمیر دونوں ممالک کے بیچ ایک جاری تنازع ہے جو ایٹمی جنگ کو ہوا دے سکتا ہے۔
 
چوںکہ دونوں ممالک کی فوجی قوت میں عدم توازن موجود ہے، اِس لیے پاک و ہند جنگ کے فوری طور پر ایٹمی جنگ میں تبدیل ہونے کا خطرہ موجود ہے۔ اِس لیے جنگ کا تو سوچا بھی نہیں جانا چاہیے۔ مگر پھر بھی ہندوستان کے سیاسی اور عسکری قائدین پاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرائیکس اور محدود جنگ کی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ اگر ہندوستان نے کبھی پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑنے کا فیصلہ بھی کیا تو اُسے پہلے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو ختم کرنے کے لیے حملہ کرنا ہوگا، یا پھر ہندوستان کے لیے یہ کام امریکا سرانجام دے گا؟ پاکستان کو دونوں ہی طرح کی صورتحال کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ کیونکہ ماضی میں اپنے ایٹمی اثاثوں کی سلامتی و تحفظ کے لیے امریکا سے تعاون کی وجہ سے امریکا کو پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے بارے میں اچھی خاصی انٹیلیجنس حاصل ہے۔ مگر پاکستانی حکام امریکا کی پاکستان کے اثاثوں پر قبضہ کرنے کی صلاحیت کو درست طور پر مسترد کرتے ہیں۔ ہمارے پاس کئی ہتھیار، کئی جگہوں پر پھیلے ہوئے اور اچھی طرح محفوظ ہیں، اِس لیے اِن پر قبضہ، یا اِن پر حملہ کرکے اِنہیں برباد نہیں کیا جاسکتا۔ مگر ایٹمی ہتھیار ڈیلیور کرنے والے سسٹم (میزائل وغیرہ) کو چھپانا یا محفوظ رکھنا مشکل ہوتا ہے۔ 

کسی بھی تنازعے کی صورت میں ابتدائی حملے کا شکار یہ ڈیلیوری سسٹم ہی بنیادی ہدف ہوں گے۔ کسی بھی تنازعے کی صورت میں جب انہیں الگ رکھے گئے وارہیڈز سے ملایا جارہا ہوگا، تو اُن کی جگہوں کا پتہ لگانا آسان ہوجائے گا۔ اِس کے علاوہ، جیسا کہ حال ہی میں کوریا میں دیکھا گیا، میزائل لانچ کو سائبر حملوں اور دیگر تکنیکی ذرائع سے سبوتاژ کیا جاسکتا ہے۔ اِس اسٹریٹجک صورتحال میں پاکستان کے ایٹمی اثاثے ہی بیرونی خطرات اور دباؤ کے خلاف پاکستان کی سب سے بڑی قوت ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اپنی ایٹمی صلاحیت کو قابلِ اعتبار بنائے رکھنے کے لیے کئی اقدامات کرنے چاہیں۔ پہلا، شمالی کوریا کی طرح آرٹلری اور تھوڑے فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی ہندوستان کے کولڈ اسٹارٹ حملے کے خلاف مزاحمت کی پہلی صف کے طور پر تنصیب۔ اِس سے ہندوستانی حملہ ناکام ہوجائے گا اور ایٹمی حملے کی نوبت اوپر چلی جائے گی۔ دوسرا، پاکستان کو ایٹمی حملوں کی صلاحیت رکھنے والے طویل، درمیانے اور مختصر فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی تعداد بڑھانی ہوگی تاکہ ہندوستان کے کسی بھی بیلسٹک میزائل سسٹم کا توڑ کیا جاسکے۔ تیسرا، پاکستان کو اپنے میزائلوں پر ایٹمی وارہیڈز کی تنصیب کے لیے لگاتار ایٹمی مواد تیار کرتے رہنا ہوگا۔ 

چوتھا، جوابی حملے کے لیے کم از کم کچھ میزائل ایٹمی وارہیڈز سے لیس کرکے اُنہیں پوشیدہ رکھ کر تیار رکھنا ضروری ہے۔ اِس کے علاوہ آبدوزوں پر نصب بیلسٹک میزائل پاکستان کو دوسرا حملہ کرنے کی صلاحیت فراہم کرسکتے ہیں۔ پانچواں، مؤثر فضائی دفاعی نظام اور محدود اینٹی بیلسٹک میزائل سسٹمز کی تنصیب ضروری ہے تاکہ کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹرز کو محفوظ بنایا جاسکے۔ چھٹا، سائبر جنگ کے لیے حملے اور دفاع، دونوں کی صلاحیت پیدا کی جانی چاہیے۔ اِس سب کے علاوہ، پاکستان کو جلد سے جلد خبردار کرنے والے سسٹمز، جن میں سیٹلائٹس، طیارے اور ڈرونز شامل ہیں، حاصل کرنے چاہیں۔ اِس دوران پاکستان کو چین کے ایسے سسٹمز سے مدد لینی چاہیے۔ آخر میں یہ کہ چین کی بری، بحری اور فضائی افواج کے ساتھ اسٹریٹجک اور روایتی مزاحمت کی صلاحیت بڑھانی چاہیے تاکہ کم وقت اور کم خرچ میں فوائد حاصل کیے جاسکیں۔ اِس کے بعد پاکستان اپنے سماجی و اقتصادی مقاصد کو بیرونی جارحیت، مداخلت اور دباؤ کے خوف کے بغیر حاصل کرسکے گا۔ 

خود امریکہ کی پالیسی ایک مثال ہے کہ امریکی فوج نے بڑے پیمانے پر روس سے نمٹنے کے لیے اپنے جوہری ہتھیاروں کو تبدیل کرنے اور نئے، چھوٹے ایٹم بم میں بنانے کی تجویز دی ہے۔ امریکی فوج کو خدشات ہیں کہ ماسکو کے خیال میں امریکہ کے جوہری ہتھیار استعمال کرنے میں بہت بڑے ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ کسی بھی قسم کی مزاحمت کے لیے موثر نہیں ہیں، ہمارے حکمت عملی اس بات کو یقینی بنائے گی کہ روس اس بات کو سمجھ جائے کہ جوہری ہتھیار کا کسی بھی قسم کا استعمال، چاہے چھوٹے پیمانے پر ہی کیوں نہ ہو، قابل قبول نہیں۔ امریکہ کے نائب وزیر دفاع پیٹرک شینہن نے کہا ہے کہ ان کے ملک کے جوہری ہتھیاورں نے امریکہ کو 70 سال سے زائد عرصے تک محفوظ رکھا ہے۔ مبصرین یہی کہتے ہیں کہ 2010 کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ امریکی فوج نے مستقبل کے جوہری خطرات کے بارے میں اس کی سوچ کا اظہار کیا ہے۔ ہامرے مدنظر بھارتی فوجی حکام کی جانب پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کا ذکر اور امریکہ کیستاھ گٹھ جوڑ کے نتیجے میں بڑھتا ہوا خطرہ ہے، جس سے نبٹنے کی صلاحیت پاکستان رکھتا ہے، صرف مزاحمت اور استقامت کی پالیسی کے تسلسل کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 702976
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش