0
Friday 9 Feb 2018 00:44

جامعۃ المصطفٰی میں جشن انقلاب اسلامی

جامعۃ المصطفٰی میں جشن انقلاب اسلامی
رپورٹ: لبیک علی

انقلاب اسلامی کی انتالیسویں سالگرہ کی مناسبت سے جامعہ المصطفٰی العالمیہ میں ایک عظیم الشان محفل ’’جشن انقلاب اسلامی‘‘ کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں جامعہ کے طلباء، اساتذہ اور مختلف شعبوں کے مسؤلین کے علاوہ تحریک امت واحدہ کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی اور اہل سنت والجماعت کے معروف عالم دین مولانا حیدر علوی نے خصوصی شرکت کی۔ پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔ جامعہ کے استاد اور ملک کے مایہ ناز قاری وجاہت رضا نے اپنی خوبصورت آواز میں قرآنی آیات کی تلاوت کے ساتھ انتہائی روح پرور ماحول ترتیب دیدیا۔ ذکر خدا کے بعد جامعہ کے سینئر طالب علم شجاعت حسین نے مختصر سی گفتگو میں انقلاب اسلامی کے اہداف اور کامیابیوں پہ گفتگو کی۔ بعدازاں جامعہ کے طلاب کے خوش الحان گروپ نے ترانہ ’’امام خمینی‘‘ پیش کیا۔ جس کے بعد شعبہ ثقافت کے مسؤل سید خاور عباس نقوی نے معزر مہمانان گرامی کا شکریہ ادا کیا اور اپنی گفتگو میں انقلاب اسلامی کے الہی اہداف پہ روشنی ڈالی۔ انہوں نے اپنی گفتگو میں انقلاب اسلامی کا ایام اللہ قرار دیا اور اس عظیم نعمت کی قدر دانی اور اسکی بقا میں اپنا کردار ادا کرنے کی کوششوں کو شرعی وظیفہ قرار دیا۔

معروف اہل سنت عالم دین جناب حیدر علوی صاحب نے اپنے خطاب میں احیاِامت کو امام حسین علیہ السلام کے قیام کا بنیادی اور اہم مرکز قرار دیا۔ علامہ حیدر علوی نے کہا کہ سید الشہدا، امام عالی مقام حضرت امام حسین علیہ السلام کے دور میں امت اسلامیہ ایک بے جان پیکر میں تبدیل ہو چکی تھی، سید الشہدا علیہ السلام کے دور میں نمازیوں کی کمی نہیں تھی اور روزہ داروں کی کمی نہیں تھی، اگر کمی تھی تو امامت الہیہ کی تھی اور سرمایہ داری نظام کے مقابلے میں سید الشہدا نے اسلام کی حقیقی تصویر اور روح کو زندہ کیا۔ اسی طرح انقلاب اسلامی ایران بھی سرمایہ داری نظام کے خلاف تھا اور یہ طاغوت و استکبار کے خلاف قیام تھا۔ دنیا کے شہنشاہی نظام اور بادشاہی نظام اس انقلاب کو اپنے لیے خطرہ محسوس کرتے تھے اور آج بھی اسی نظام سے خوفزدہ ہیں۔ انہوں نے اپنی گفتگو میں کہا کہ جس طرح دنیا کے مسائل کی وجہ طاغوتی، سرمایہ دارانہ نظام ہے اسی طرح ان مسائل کا حل انقلاب اسلامی میں مضمر ہے۔

جامعہ المصطفٰی کے مدیر علامہ انیس الحسنین خان نے معزز مہمانان گرامی کا شکریہ ادا کیا اور انقلاب اسلامی کی مناسبت سے رہبر معظم، علماء کرام، حوزات علمیہ اور تمام مسلمانان عالم کو مبارک باد پیش کی۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ انقلاب اسلامی امام خمینی کی بابصیرت قیادت میں کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ امام خمینی کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ وہ فقیہ، دین شناس اور زمان و مکان کے تقاضوں سے آگاہ عالم دین تھے، جو دشمن کی سازشوں سے مکمل طور پر مکمل طور پہ آگاہی رکھتے تھے، انہوں نے ہر محاذ پہ دشمن کے ہر وار بخوبی جواب دیا اور فتح پائی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں پاکستانی ہونے کے ناطے اس بات پر فخر ہے کہ پاکستان کے عوام انقلاب اسلامی کی حمایت میں پیش پیش تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے اہل تشیع اور اہل سنت کے اکابرین نے انقلاب اور امام خمینی کی تعلیمات سے الہام لیتے ہوئے پاکستان میں اتحاد بین المسلمین کے ذریعے مشترکہ دشمنوں اور مشکلات کا سامنا کیا اور آج اس انقلاب کا پرچم رہبر معظم انقلاب آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے ہاتھوں میں ہے۔ دعا ہے کہ خدا وند متعال اس انقلاب اسلامی کو انقلاب امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے ساتھ متصل فرمائے۔ (آمین)
 
قائم مقام نمائندہ المصطفٰی درپاکستان آقای ٰعلی ضیائی نے اسلامی انقلاب کو انقلابات کی تاریخ کا سب سے پائیدار انقلاب قرار دیا۔ انہوں نے اپنی گفتگو میں کہا کہ دنیا کے مختلف حصوں میں مختلف اوقات میں انقلابات آئے لیکن تاریخ کا حصہ بن گئے۔ اسلامی انقلاب انتالیس سال گزر جانے کے باوجود نہ فقط کمزور نہیں ہوا بلکہ دن بدن مضبوط سے مضبوط تر ہو رہا ہے۔ دشمن نے اس انقلاب کو راستہ روکنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن امام خمینی نے اللہ پر بھروسہ اور توکل کرتے ہوئے ہر سازش کو ناکام بنایا اور اعلان کیا کہ امریکہ ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا کیونکہ ایرانی قوم کا انقلاب مادی اہداف کے حصول کے لیے نہیں تھا یہی وجہ ہے کہ اقتصادی پابندیوں کے باوجود اب تک استکبار اور استعمار کے خلاف ایرانی قوم کی نفرت کم نہیں ہوئی بلکہ ہمیشہ ایران نے امریکہ اور عالمی استکبار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی ہے اور ہمیشہ’’ امریکہ مردہ باد‘‘ کا نعرہ لگایا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انقلاب سے پہلے ایرانی قوم کی یہ حالت تھی کہ اگر کوئی ایران میں مقیم امریکی باشندہ قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا تو ایران میں اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جاسکتی تھی جبکہ امریکہ میں مقیم ایرانی جرنیل کے خلاف امریکا ہی میں کاروائی کی جاسکتی تھی، اس انقلاب کی بدولت ایرانی قوم اور مسلمانوں کو عزت اور سربلندی ملی اور دشمن کے خلاف بات کرنے کا حوصلہ ملا۔

انقلاب اسلامی کی انتالیسویں سالگرہ کی مناسبت سے منعقد ’’جشن انقلاب‘‘ تقریب کے مہمان خصوصی سربراہِ امت واحدہ پاکستان علامہ محمد امین شہیدی تھے ۔جنہوں نے اسلامی انقلاب کوآیت اکمل دین میں بیان ہونے والے نظام حیات کی عملی تفسیر قرار دیا۔ علامہ امین شہیدی نے کہا کہ حکمرانوں کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ دین کی حقیقی روح ختم ہوجائے ، اگرچہ دین ظاہری طور پر باقی رہے ۔ اہلبیت علیہم السلام کو دیوار سے لگانا اور انہیں معاشرے سے حذف کرنا بھی اسی کوشش و سازش کی ایک کڑی تھی۔ امام خمینی کی قیادت میں کامیابی سے ہمکنار ہونے والے انقلاب نے دنیا میں تہلکہ مچایا۔ جب غیر معصوم کی قیادت میں برپا ہونے والے انقلاب کے یہ اثرات ہیں تو ، معصوم کی قیادت میں قائم ہونے والا نظامِ حکومت اور انقلاب کتنا عظیم ہوگا؟۔ علامہ امین شہیدی نے مزید کہا کہ دشمن نے انقلاب کو محدود کرنے کی سرتوڑ کوشش کی، جنگ مسلط کی۔ اقتصادی محاصرہ کیا، دہشت گردی کا بازار گرم کیا اور اسلامی نظام کے اہم ارکان اور برجستہ علما کو شہید کیا لیکن اس کے باوجود آج بھی دنیا کے چپے چپے میں انقلاب اسلامی کے آثار موجود ہیں۔ امام خمینی کی نظر میں صرف اسلام اہم تھا، یہی وجہ ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے ’’ہم رہیں یا نہ رہیں انقلاب کو ہمیشہ قائم رہنا چاہیے‘‘۔
خبر کا کوڈ : 703346
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش