2
Thursday 29 Mar 2018 00:29

لبنان کا انتخابی معرکہ اور حزب اللہ کا گھیراؤ

لبنان کا انتخابی معرکہ اور حزب اللہ کا گھیراؤ
تحریر: عرفان علی

لبنان کی صورتحال پر ایک تازہ نظر کی ضرورت محسوس کی، کیونکہ لبنان میں عام انتخابات کا میدان سج چکا ہے۔ ایک سو اٹھائیس اراکین پر مشتمل لبنان کے قانون ساز ادارے (پاکستانی سیاسی اصطلاح میں قومی اسمبلی) مجلس النواب کے لئے 6 مئی 2018ء کو عام انتخابات بہت ہی زیادہ اہمیت کے حامل ہیں، کیونکہ پچھلے انتخابات 7 جون 2009ء کو ہوئے تھے اور اب تقریباً نو سال بعد اس کا انعقاد ہو رہا ہے۔ لبنان میں یونی کیمرل (یک ایوانی) پارلیمانی نظام نافذ ہے اور اس کی یونی کیمرل پارلیمان (مجلس النواب) کے اراکین کو چار سال کی مدت کے لئے عوام ایک پیچیدہ انتخابی نظام و طریقہ کار کے ذریعے منتخب کرتے ہیں اور اس مرتبہ پہلے سے زیادہ پیچیدہ طریقہ کار بنایا گیا ہے۔ مطلب یہ کہ 2009ء کے بعد 2013ء اور اس کے بعد 2017ء میں یعنی دو عام انتخابات ہونے چاہئیں تھے، لیکن بیرونی سازشوں اور اندرونی اختلافات کی وجہ سے نہ صرف انتخابات نہ ہو پائے بلکہ صدر مملکت کا انتخاب بھی نہ ہو پایا۔ لبنان کا سیاسی تعطل بڑی مشکل سے اس وقت ختم ہوا، جب میشال عون کو صدر منتخب کرکے ایک مخلوط حکومت قائم کی گئی، جس میں سعد حریری وزیراعظم بنے تو حزب اللہ بھی حکمران اتحاد کا حصہ بنی۔ ویسے تو دنیا میں رائج مخصوص سیاست اور خاص طور پارلیمانی و انتخابی سیاست ہے ہی ایسی کہ اس میں تنقید برائے تنقید اور اختلاف برائے اختلاف اور ایک دوسرے پر الزامات کی جنگ ایک جزو لاینفک بن چکی ہے، لیکن لبنان جیسے بہت ہی چھوٹے ملک جس کی خانہ جنگی کی ایک طویل تاریخ رہی ہے، وہاں بیہودہ الزامات اور بے جا تعصبات نے سیاسی فضاء کو کچھ زیادہ ہی کشیدہ کر دیا ہے۔

لبنان کی سیاست میں ایک طویل عرصے سے دو بڑے واضح مگر متضاد سیاسی رجحانات کی حامل قیادتیں اور جماعتیں اپنا وجود رکھتی ہیں اور اس کے پیچھے عشروں سے نافذ غیر عادلانہ مذہبی و مسلکی تقسیم پر مبنی سیاسی نظام کا کردار اپنی جگہ، لیکن عالمی سامراج امریکہ، اس کی ناجائز ٹیسٹ ٹیوب بے بی (جعلی ریاست اسرائیل) اور ان کے اتحادیوں کا کردار بھی کچھ کم نہیں ہے۔ ایک قیادت و جماعت حزب اللہ کی صورت میں وجود رکھتی ہے، جو لبنان کی کمزور ریاست اور منقسم قوم کو اسرائیل کے حملوں سے بچانے کے لئے ناقابل فراموش قربانیاں اور کارنامے انجام دے چکی ہے اور جس کا اعتراف صرف دوست اور حامی نہیں بلکہ مخالف اور دشمن بھی کرتے آئے ہیں، لیکن سازشانہ ذہنیت اور اغیار کی غلامی پر آمادہ ایک طبقہ ایسا ہے، جسے اسرائیلی بلاک کے مفاد میں نیابتی جنگ کا ایندھن بننے کا شوق بھی ایک طویل عرصے سے ہے۔ اس بلاک میں فرانس اور برطانیہ بھی شامل ہیں تو اب سعودی عرب بھی کھل کر اسرائیل کا مفاد پورا کر رہا ہے، جس کی صرف ایک چھوٹی سی لیکن تازہ ترین مثال بھارتی طیاروں کو براستہ سعودی عرب، اسرائیل تک فضائی سفر کرنے کی اجازت مل چکی ہے اور پہلی فلائٹ جا چکی ہے۔ یہ وہی سعودی عرب ہے، جس نے ایران اور قطر کے لئے اپنی فضائی حدود استعمال کرنے پر پابندی لگا دی ہے۔

سبھی کو معلوم ہے کہ بین الاقوامی و علاقائی صورتحال ایسی ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ جنگجو انتہاء پسندوں کو اہم حکومتی عہدے دے کر کسی نئی مہم جوئی کے لئے پر تول رہے ہیں اور سعودی عرب خود برادر کشی کی بدترین نظیر قائم کر چکا ہے کہ یمن میں یکطرفہ بلاجواز جنگ مسلط کرکے عرب مسلمانوں کا قتل عام کر رہا ہے، قطر کے عرب مسلمانوں اور ایران کے عجمی مسلمانوں پر پابندیاں لگا چکا ہے اور حزب اللہ کے خلاف امریکہ و اسرائیل کی نیابتی جنگ (یعنی بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ) کا کردار ادا کر رہا ہے، اس لئے لبنان کے یہ عام انتخابات اور زیادہ اہمیت اختیار کرگئے ہیں۔ اسرائیلی بلاک براہ راست بھی اور سعودی حکومت کے ذریعے بھی لبنان کے عام انتخابات میں حزب اللہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف اپنے مہروں کو میدان میں اتار چکا ہے، لیکن حزب اللہ کے مخالفین خود آپس میں بھی بہت سے حلقوں میں ایک دوسرے کے خلاف ہی صف آراء ہیں، کیونکہ فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ، یعنی انکی ڈوریں ہلانے والے متبادل ترجیحات بھی رکھتے ہیں۔ البتہ بیرونی دشمنوں اور ان کے نیابتی کرداروں کی تمام تر توانائیاں جس ایک نکتے پر مرکوز ہیں یا یوں کہیں کہ حزب اللہ کے مخالفین کا بنیادی ہدف بعلبک و ھرمل میں شیعہ خواص کے ذریعے حزب اللہ کے خلاف صف آرائی اور محاذ آرائی ہے۔ اس سلسلے میں دو معمم حضرات پیش پیش رہے ہیں، جیسے محمد علی ال حسینی جو حزب اللہ کے خلاف ہیں اور انہیں اسرائیل میڈیا میں بھرپور کوریج ملی اور بعلبک ھرمل میں اب شیخ عباس جوھری حزب اللہ کی مخالفت میں انتخابات میں اترے ہیں اور جنہیں گرفتاری کے فوری بعد خصوصی طریقہ کار اختیار کرکے رہا کروایا گیا۔

لبنان کے موجودہ وزیر داخلہ نھاد مشنوق نے بیروت میں حزب اللہ اور دیگر کے انتخابی اتحاد پر منفی ردعمل ظاہر کرکے حزب اللہ کے خلاف منفی و توہین آمیز بیان دیا ہے۔ مشنوق کا تعلق سعد حریری کی جماعت تیار المستقبل سے ہے۔ یاد رہے کہ وزارت داخلہ کے ذیلی ادارے کے تحت ہی انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے۔ حزب اللہ کے ایک اور مخالف سیاستدان طرابلس کے اشرف ریفی (سابق وزیر انصاف اور سابق پولیس سربراہ) نے سنی عربوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے الگ انتخابی پلیٹ فارم کا اعلان کیا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ انکے بھی سعودی عرب سے بہت اچھے اور قریبی تعلقات ہیں۔ انہوں نے سعد حریری پر شدید تنقید کی ہے جبکہ سعد حریری کے خلاف سابق وزیراعظم (سنی عرب سیاستدان) نجیب میقاتی نے بھی بیان جاری کیا ہے۔ اسی طرح القوات اللبنانیہ کے سربراہ سمیر جعجع جنہوں نے ماضی میں اعلانیہ اسرائیل کی نیابتی جنگ لڑی، وہ بھی بہت سے اتحادیوں کے موقف سے اتفاق نہیں کرتے، لیکن حزب اللہ کی مخالفت کو قدر مشترک مان کر کہیں کہیں ایک دوسرے کا ساتھ دے رہے ہیں تو کہیں ایک دوسرے پر تنقید کر رہے ہیں۔ یعنی انتخابی صف بندی دلچسپ بھی ہے اور حیران کن بھی! لگ ایسا رہا ہے کہ سعودی عرب طرابلس میں اشریف ریفی و میقاتی کے گروپوں کو ترجیح دے سکتا ہے۔

سوشل میڈیا پر حزب اللہ کی کردار کشی تو طویل عرصے سے جاری ہے، لیکن اس مرتبہ فیس بک انتظامیہ نے امریکہ اور اسرائیل کی خوشنودی کے لئے حزب اللہ لبنان کا عام انتخابات کے لئے بنایا گیا فیس بک پیج ’’نحمی و نبنی الانتخابات النیابیہ‘‘ بند کر دیا ہے۔ طرابلس میں سعد حریری نے تقریر میں حزب اللہ پر تنقید کی، جبکہ حزب اللہ کے دو رہنما (دونوں علمائے دین) شیخ نبیل قاووق اور شیخ علی دعموش کے بیانات سامنے آچکے ہیں کہ سعودی حکومت اور لبنان کا سعودی سفارتخانہ لبنان کے اندرونی معاملات اور انتخابات سے متعلق معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں۔ شیخ قاووق کے مطابق سعودی عرب لبنانیوں کو ایک دوسرے کے خلاف اکسا رہا ہے اور سعودی عرب کا ہدف یہ ہے کہ لبنان کی اندرونی سیاسی صورتحال کو بدلنا چاہتا ہے، اسی لئے حزب اللہ کے مخالفین کی انتخابات میں مدد کر رہا ہے۔ جیسا کہ پہلے اشارہ کیا کہ سعودی و اسرائیلی بلاک کا ایجنڈا یہ ہے کہ حزب اللہ کے مضبوط گڑھ بعلبک ھرمل میں سیکولر لبرل شیعہ اور مذہبی شیعہ خواص کو حزب اللہ کے خلاف کامیاب کروایا جائے، اس سلسلے میں سمیر جعجع اور سعد حریری کی جماعتوں نے بعلبک ھرمل سے اپنے اتحاد کی فہرست میں چھ شیعہ امیدواروں کو حزب اللہ کے خلاف کھڑا کیا ہے۔ بعلبک ھرمل لبنان کے پندرہ انتخابی اضلاع میں سے ایک ضلع ہے، جس کی مجلس النواب میں کل دس نشستیں ہیں اور ان دس میں سے 6 نشستیں شیعہ مسلمانوں کے لئے مخصوص ہیں، دو نشستیں سنی اور ایک ایک نشست مارونی اور کیتھولک مسیحیوں کے لئے ہے۔

یاد رہے کہ لبنان کے سیاسی نظام میں صدر کا عہدہ مسیحی مارونی لبنانی، وزیراعظم کا عہدہ سنی عرب اور مجلس النواب کے رئیس (اسپیکر قومی اسمبلی) کا عہدہ شیعہ اثناء عشری کے لئے مخصوص ہے۔ لبنان کی سیاست کے اہم مسیحی مارونی خاندانوں میں فرنجیہ اور جمایل (جمیل) اور شخصیات میں ان خاندانوں کی شخصیات کے علاوہ حزب اللہ کے اتحادی موجودہ صدر میشال عون، انکی جماعت فری پیٹریاٹک موومنٹ کے سربراہ اور انکے داماد جبران باسل (موجودہ وزیر خارجہ) اور خود سمیر جعجع جیسے لوگ شامل ہیں اور یہ شخصیات اور جماعتیں دونوں قسم کے سیاسی رجحانات میں تقسیم ہیں، جیسے کہ لبنان کے دیگر اہم سیاستدان ہیں۔ اس عام انتخابات کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ اس میں سابق وزیراعظم تمام سلام، موجودہ وزیر (دروز سیاستدان) مروان محمد علی حمادہ اور نبطیہ کے سیکولر شیعہ سابق وزیر یاسین کامل جابر بھی رکن پارلیمان بننے کے مقابلے میں کھڑے ہوئے ہیں، اسی طرح پرانے سیاستدانوں کی اولادیں جیسا کہ ولید جنبلاط نے اپنے بڑے بیٹے تیمور کو جانشین بناکر میدان میں اتارا ہے اور اسی طرح جبران توینی کی بیٹی میشال توینی، سابق لبنانی صدر سلیمان فرنجیہ کے پوتے طونی فرنجیہ، پہلی مرتبہ انتخابات کے میدان میں اترے ہیں۔ تیمور جبنبلاط شوف و عالیہ کے انتخابی حلقے میں سعد حریری اور سمیر جعجع کے اتحادی ہیں۔ ولید جنبلاط کے خیال میں انتخابات سے تبدیلی تو ممکن نہیں، لیکن نئے چہرے آکر کچھ تحرک دکھا سکتے ہیں، جبکہ جعجع کی نظر میں انتخابات ہی تبدیلی کی کنجی ہیں۔

لیکن حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ کی نظر میں مالی بدعنوانیوں کا خاتمہ سب سے زیادہ اہم ہے۔ انکی نظر میں سابق وزرائے اعظم لبنان پر قرضوں میں اضافے کے ذمے دار ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ وہ ذاتی طور بدعنوانی کے خلاف میدان میں اتریں گے۔ انہوں نے لبنان کی قومی فوج کی حمایت کی۔ حزب اللہ نے بعض حلقوں میں میشال عون یا جبران باسل کی جماعت سے انتخابی اتحاد یا ایڈجسٹمنٹ کی ہے تو کہیں اسپیکر نیبہ بری کی حرکت الامل سے ناطہ جوڑا ہے۔ نبیہ بری کہتے ہیں کہ عام امتخابات میں مقابلہ دشمن اسرائیل سے ہے۔ حزب اللہ بھی یہی سمجھتی ہے کہ دشمن اسرائیل ہے اور تکفیری دہشت گرد بھی خاص طور پر داعش دشمن ہے اور تکفیریوں کے حامی حزب اللہ اور انکے اتحادیوں کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔ لبنان سمیت پوری دنیا میں اس وقت ماہرین متذبذب ضرور ہیں، لیکن سبھی یہ سمجھتے ہیں کہ امریکی حکومتی عہدیداروں کی تبدیلیاں اور لبنان کے اطراف کے خطے کی صورتحال اس عام انتخابات پر بہت زیادہ اثر انداز ہوگی، جبکہ حزب اللہ کے مخالف بلاک کے سیاستدان ولید جنبلاط نے بھی ایک انٹرویو میں اعتراف کیا ہے کہ اگر جنگ ہوئی تو اسرائیل جیت نہیں سکے گا، کیونکہ اسلامی مقاومت (حزب اللہ) اس کا مقابلہ کرے گی، جیسا کہ پہلے کرچکی ہے۔ لبنان کی معروف خاتون صحافی مونا العالمی جو اٹلانٹک کاؤنسل کے رفیق حریری سینٹر فار دی مڈل ایسٹ کی نان ریزیڈنٹ فیلو ہیں، کو 28 فروری 2018ء کو اپنے مقالے میں یہ اعتراف کرنا پڑا (حالانکہ یہ بھی جزوی سچ ہی ہے، مکمل نہیں کیونکہ حزب اللہ پورے لبنان کابلا تفریق دفاع کرتی ہے اور پوری مملکت میں دشمنوں کا مقابلہ کرتی ہے):Hezbollah's power and resilience at the Lebanese level is not only derived from its military might and Tehran's constant backing, but more importantly, from the tireless support of its Lebanese Shia Muslim community base. The allegiance of Lebanese Shia to Hezbollah is widely known to be rooted in the party's capability to win hearts and minds through its social program and the organization's nearly forty year struggle against Israel and more recently its war on terror."
خبر کا کوڈ : 714441
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش