0
Sunday 3 Jun 2018 11:12

سامراج کے ہاتھوں قیدی و بےبس میڈیا اور ہم

سامراج کے ہاتھوں قیدی و بےبس میڈیا اور ہم
تحریر: سید نجیب الحسن زیدی

کسی عربی کے ایک رسالہ میں ایک کہاوت پڑھی تھی کہ ایک مصور دیوار پر نقش و نگار بنا رہا تھا اور تصویر میں ایک انسان اور ایک شیر کو اس کیفیت میں دکھا رہا تھا کہ انسان شیر کا گلا گھونٹ رہا ہے۔ اتنے میں ایک شیر کا وہاں سے گزر ہوا اور اس نے تصویر کو ایک نظر دیکھا۔ مصور نے تصویر میں شیر کی دلچسپی دیکھ کر اس سے پوچھا سناؤ میاں! تصویر اچھی لگی؟ شیر نے جواب دیا کہ میاں! اصل بات یہ ہے کہ قلم تمھارے ہاتھ میں ہے۔ جیسے چاہے منظر کشی کرو، ہاں اگر قلم میرے ہاتھ میں ہوتا تو یقیناً تصویر کا منظر اس سے مختلف ہوتا۔ کچھ اسی قسم کی صورتحال کا سامنا عالم اسلام کو آج مغربی میڈیا کے ہاتھوں کرنا پڑ رہا ہے۔ ابلاغ کے تمام تر ذرائع پر مغرب کا کنٹرول ہے۔ الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹڈ میڈیا دونوں کے سرچشمے اس کی تحویل میں ہیں۔ متعصب یہودی کا دماغ اور سیکولر عیسائی دنیا کے وسائل اکھٹے ہو چکے ہیں۔ سیکولر لابیاں انسانی معاشرے میں مذہب کی دوبارہ اثراندازی سے خائف ہو کر مذہب کا ر استہ روکنے کے لئے سیاست، معیشت، میڈیا لابنگ اور تحریف و تحریص کے تمام ذرائع استعمال کر رہی ہیں اور عیسائی دنیا کے مذہبی لوگ بھی خود کو میڈیا کے آگے سرنڈر کر کے لادینیت کا راگ الاپ رہے ہیں، مغرب کی سیکولر لابیوں کے اعصاب پر یہ خوف سوار ہے کہ انسانی معاشرہ دو  صدیوں میں مذہب سے بغاوت کے تلخ نتائج بھگت کر اب مذہب کی طرف واپسی کے لئے ٹرن لے رہا ہے اور دنیا میں مسلمانوں کے سوا کسی اور قوم کے پاس مذہب کی بنیادی تعلیمات (آسمانی وحی اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  کی تعلیمات و سیرت) اصلی حالت میں موجود و محفوظ نہیں ہیں۔ اس لئےاسلام منطقی طور دنیا کے مستقبل کی واحد امید بنتا جا رہا ہے۔ چنانچہ یہودی دماغ اور سیکولر قوتوں کی صلاحیتیں اور وسائل اب صرف اس مقصد کے لئے صرف ہو رہے ہیں کہ اسلام اور اسلامی اصولوں کے علمبردار مسلمانوں کے خلاف میڈیا کے زور سے نفرت کی ایسی فضا قائم کر دی جائے جو اسلام کی طرف انسانی معاشرہ کی متوقع بازگشت میں رکاوٹ بن سکے۔

اسلام اور دیندار مسلمانوں کے خلاف مغربی میڈیا اور لابیوں کا سب سے بڑا ہتھیار انسانی حقوق کا نعرہ ہے اور انہیں جھوٹ کا یہ سبق اچھی طرح رٹایا جا رہا ہے کہ "جھوٹ بولو! اور اتنی بار بو لو کہ لوگ اسے سچ سمجھنے پر مجبور ہو جائیں"، چنانچہ اسی فلسفہ کے مطابق اسلام کو انسانی حقوق کے مخالف کے طور پر متعارف کرایا جا رہا ہے۔ عورتوں، اقلیتوں، اور کمزور طبقات کی دہائی دے کر اسلام کو جبر کے نمائندے کے طور پر  پیش کیا جا رہا ہے، دنیا میں اگر میراث و حجاب پر سوال اٹھائے جاتے ہیں تو ہمارے ملک میں طلاق و جہاد کی باتوں کو ایشو بنا کر گھنٹوں ٹی وی شو ہوتے ہیں جن میں لاحاصل بحث ہوتی ہے جبکہ کوئی ملکی ترقی کی بات نہیں کرتا کہ ملک کہاں تھا اور کہاں جا رہا ہے۔ آج آزادی کے چوتھے ستون میڈیا اور ذرائع ابلاغ کا جو حال ہے وہ آپ تمام حضرات کے پیش نظر ہے، یہ کہیں مجرم کو منصنف تو کہیں منصف کو مجرم بنا کر پیش کر رہا ہے، تو کہیں قاتل کو مقتول اور مقتول کو قاتل۔  ساری دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر عالمی ذرائع ابلاغ جو کچھ کر رہے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، تو انکا تو شیوہ ہی یہی ہے انکے اپنے مفادات ہیں ان کا  لحاظ نہیں کریں گے تو انہیں بجٹ کی فراہمی سے لیکر دیگر مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، لہٰذا وہ تو سچ اور جھوٹ کے پالے کو  درہم و دینار کی کھنک کے ساتھ تبدیل کریں گے ہی لیکن یہ اب ہم پر ہے کہ اپنے تجزیہ کی صلاحیت کو اتنا بڑھائیں کہ میڈیا کی خبروں کے درمیان اصل و نقل کو پہچان سکیں، یہ جان سکیں کہ ذرائع ابلاغ کے پیچھے کونسی لابی کام کر رہی ہے اور دن بھر چلنے والی بریکنگ نیوز کے پیچھے کیا سیاست ہے؟

میڈیا تو خیر میڈیا ہے جب اقوام متحدہ جیسا ادارہ بھی پیسوں پر چل رہا ہے تو اوروں کی تو بات ہی کیا، کون بھول سکتا ہے کہ پچھلے سال کس طرح اقوام متحدہ نے سعودی عرب کو بلیک لسٹ میں قرار دیا پھر جب یہ دھمکی دی گئی کہ بجٹ کی فراہمی روک دی جائے گی تو اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری نے افسوس کے ساتھ اپنی مجبوری کی دہائی دیتے ہوئے اسے بلیک لسٹ  سے نکال دیا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پیسے اور دولت کے بل پر کس طرح حق کو ناحق کیا جا رہا ہے۔ یہ تو دنیا کی  موجودہ  صورتحال ہے جبکہ اس صورتحال سے کہیں بدتر معاملہ ہندوستان کا ہے، جہاں وہ سب کچھ تو ہے ہی جو اوپر بیان کیا گیا، علاوہ از ایں مقامی میڈیا ہر چیز کو زعفرانی رنگ میں دیکھ رہا ہے اور چند گنے چنے منصف صحافیوں اور چند گنے گنے منصف چینلوں کے سوا ہر طرف ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت کے خلاف چوطرفہ زہر اگلا جا رہا ہے، کہیں اشتعال انگیز تقریریں کرنے میں مشہور بعض مسلم عمائدین کو ٹی وی شو میں سجا کر پیش کیا جا رہا ہے، تو کہیں میدان سیاست سے بےخبر سیدھے سادے مولویوں کو سیاست کے تپتے اکھاڑے میں ہاتھ پیر باندھ کر ماہرین سیاست، و سیاسی مبصرین کے چبھتے سوالوں کے سامنے چھوڑ دیا جاتا ہے جسکا لازمی نتیجہ عوام میں اس بات کا القاء ہے کہ انکے پاس کہنے کے لئے اب کچھ نہیں ہے، انہیں جو کرنا تھا یہ اپنی تقریبا سات سو سالہ حکومت میں کر چکے اب ہمیں کچھ کرنا ہے اور ہندوستان کو بچانا ہے، ملک کی تخریب ہو چکی اب تعمیر کرنا ہے، دوسری طرف سوشل میڈیا پر کھلے عام اور بعض لوکل چینلز پر ڈھکے چپھے انداز میں مسلمانوں کو ایک خوفناک موجود کی صورت پیش کیا جا رہا ہے اور ان سے مقابلہ کے لئے گہار لگائی جا رہی ہے تاکہ ووٹوں کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کر کے حکومت تک رسائی حاصل ہو سکے۔
 
دنیا میں جو ہو رہا ہے سو ہو رہا ہے، سیکولر میڈیا بھی ملک میں جس طرح سامراجی دوپٹہ سر پر ڈالے زعفرانی رنگ میں رنگا چلا جا رہا ہے وہ اپنی جگہ لیکن خود ہمارے اپنے  اردو اخبارات کا جو حال ہے اس کے بارے میں کیا کہا جائے؟ کس طرح یہ لوگ دین و ایمان بیچ کر وہ خبریں شائع کرتے ہیں جن سے انکا اخبار چلے اور کس طرح دینی اور قومی مسائل پر متنازعہ مضامین شائع کر کے یہ قوم کا مذاق اڑاتے ہیں اور کوئی کچھ کہنے والا نہیں اجتماعی و دینی مسائل اپنی جگہ کم از کم قومی مشترکہ مسائل پر تو انہیں کھل کر اپنے موقف کا اظہار کرنا چاہیئے، اس کے باوجود آپ دیکھیں فلسطین کے حساس مسئلہ پر ان کا کردار کیا ہوتا ہے؟ خانہ پری کے لئے چند سطروں کو اپنے اخبار میں جگہ دیکر یہ سمجھتے ہیں کہ فلسطین کے مظلوموں کا حق ادا ہو گیا، جبکہ دیگر زبانوں جیسے انگریزی و ہندی کے اخبارات کی تو بات ہی کیا ہے گو کہ فلسطین و انسان و انسانیت کا کوئی تعلق نہیں، جس ملک میں مہاتما گاندھی کے آدرشوں پر چلنا قدر ہو وہاں کس طرح فکر میں تبدیلی لاکر گاندھی جی کے اصولوں کو پامال کیا جا رہا ہے۔ اپنے آپ میں افسوس کا مقام ہے، ایسے میں کیا ضروری نہیں کہ ہم اپنے تشخص کو باقی رکھتے ہوئے  انصاف کی آواز بلند کریں اور کم از کم سوشل میڈیا کی حد تک اتنا جاگ جائیں کہ وہ کام نہ کریں جو دشمن ہم سے لینا چاہتا ہے اور کم از کم اسکی سجائی دکان سے سامان نہ خریدیں اور اسکی مصنوعات کی مارکیٹنگ نہ کریں۔ اس دور میں جبکہ میڈیا سامراجی طاقتوں کے ہاتھوں اسیر ہو کر حق بیانی سے نہ صرف کترا رہا ہے بلکہ کھلم کھلا غلط بیانی سے کام لے رہا ہے اور ملک میں شدت پسندانہ طرز فکر کی ترویج کر رہا ہے ایسے میں ہمارا کمترین وظیفہ یہ ہے کہ اگر خود میڈیا کے ذریعہ نشر ہونے والی خبروں کا تجزیہ نہیں کر سکتے تو صاحبان فکر و نظر کی طرف رجوع کریں اور سوشل میڈیا پر کوئی بھی پیغام یا کلپ فارورڈ کرنے سے پہلے سوچ لیں کہ ہم کہیں دشمن کے ہاتھوں استعمال تو نہیں ہو رہے۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 729108
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش