0
Wednesday 6 Jun 2018 17:03

رب کعبہ کی قسم کہ علی کامیاب ہوگیا

رب کعبہ کی قسم کہ علی کامیاب ہوگیا
تحریر: عمران خان

تاریخ بشریت میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہی وہ ہستی ہیں کہ جن کی ولادت سے شہادت تک کا سفر خدا کے گھر سے شروع ہوکر خدا کے گھر میں ہی اختتام پذیر ہوا۔ آپ اسلام و پیغمبر اسلام کے حامی و ناصر بن کر اس دنیا میں تشریف لائے۔ آپ کے فضائل و مراتب و مناقب کا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ 13رجب المرجب آپ کی ولادت باسعادت خانہ کعبہ میں ہوئی۔ اس دنیا میں تشریف لانے کے بعد آپ نے آنکھیں نہیں کھولیں، روایات میں ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کو اپنے ہاتھوں پہ لیا تو آپ نے آنکھیں کھولیں اور نبی کریم کے رخ انور کی زیارت کرکے تبسم فرمایا۔ بعض روایات کے مطابق آپ نے بطور پہلی غذا حضرت محمد مصطفٰی (ص) کے دہن مبارک سے حاصل کی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ اس ہستی کا نام ہے کہ جنکی توصیف اور مدح و ستائش کے لئے دنیا کے نابغہ اور عظیم انسانوں نے ہر دور میں اپنے قلم کو جنبش دی ہے مگر تمام تر کاوشوں کے باوجود کسی نے ذات علی کو بطور کامل و اکمل نہ خود پہچانا اور نہ دوسروں سے روشناس کرایا۔ ابو تراب، ابوالحسن، ابوالقسم، الہاشمی، سفیر خدا، شیر خدا، حیدر کرار، غیر فرار، مرتضیٰ، نفس رسول، لسان اللہ، یداللہ، کرم اللہ، وجہہ اللہ آپ کے معروف القاب ہیں۔ حضور نبی کریم نے بارہا آپ کے فضائل و مراتب اہل اسلام و اہل دنیا پر واضح کئے۔ آپ کو کرم اللہ وجہہ اس لیے بھی کہا جاتا ہے کہ آپ کا چہرہ مبارک کبھی بتوں کے سامنے جھکا ہی نہیں۔ آپ فصاحت و بلاغت
کے قلزم اورعلوم پر اس طرح حکومت رکھتے تھے کہ حدیث مبارکہ ہے
’’میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔"

مفسرین بیان کرتے ہیں کہ یہ حدیث مبارکہ اس بات کا فیصلہ ہے کہ حصول علم کیلئے بہرحال در علی سے رجوع کرنا پڑیگا ۔ آپ کو پیغمبر اسلام اور اسلام کا حامی و ناصر اس لیے بھی کہا جاتا ہے کہ اسلام کی پہلی دعوت پر جس آواز نے لبیک کہا اور نبی کریم کا ساتھ دینے کا اعلان کیا، وہ آواز حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی تھی۔ اسی طرح جب جنگ خندق میں عمرو بن عبدود نامی مشہور پہلوان ایک نسبتاً کم چوڑی جگہ سے خندق پار کرکے نبی اقدس کے خیمے کے باہر آن پہنچا، اور اہل اسلام کو للکارنے لگا تو نبی کریم نے فرمایا کہ ’’ہے کوئی ایسا جو اس بدزبان کی زبان بند کرے‘‘۔ اس دوران ایک غلام نے بتایا کہ ’’اے نبی: یہ اتنا بڑا پہلوان اور جنگجو ہے کہ ایک جنگ میں اس کے ہاتھ سے ڈھال گر گئی تو اس نے جانور کو اٹھا کر ڈھال کے طور پر استعمال کیا۔‘‘ جناب علی المرتضیٰ اپنی جگہ سے اٹھے اور میدان میں جانے کی اجازت طلب کی۔ رسول پاک نے آپ کو اپنے ہاتھوں سے گھوڑے پر سوار کیا اور فرمایا کہ ’’آج کل کا کل ایمان ، کل کے کل کفر کے مقابلے میں جا رہا ہے‘‘۔ روایات میں ہے کہ عمربن عبدود کے ساتھ جنگ میں آپ کے سراقدس میں ایک زخم آیا۔ تاہم آپ نے عمرو پر ایسا وار کیاکہ وہ دو حصوں میں زمین پر آن گرا۔ اسلامی لشکر نے یہ سمجھا کہ شائد حضرت علی شہید ہو
گئے ہیں، مگر جب گرد چھٹی تو آپ کے ہاتھوں میں عمر و کا سر تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے متبسم ہوئے اور فرمایا کہ
’’علی کا یہ ایک وار ثقلین کی عبادات سے افضل ہے‘‘ واضح رہے کہ ثقلین کائنات کو کہا جاتا ہے ۔ اس طرح ایک مقام پر نبی کریم نے ارشاد فرمایا کہ ’’تم سب میں بہترین فیصلے کرنے والا علی المرتضیٰ ہے‘‘ ایک اور مقام پر فرمایا ’’علی کا چہرہ دیکھنا بھی عبادت ہے‘‘پھر فرمایا ’’خدا اور اس کے رسول کو علی بہت محبوب ہے۔"

اسی طرح نبی کریم سے جب صحابہ کرام نے مسلمان اور منافق کی علامات دریافت کیں تو آپ (ص) نے فرمایا: ’’تمہیں جس پر شبہ ہو، تم اس کے سامنے علی کا ذکر شروع کردو، اگر اس کے چہر ے پر ذکر علی سے تبسم آئے تو سمجھو کہ مومن ہے اور اگر رنگت زرد ہوجائے یا رنگت متغیر ہو تو سمجھ لو کہ منافق ہے‘‘۔ اسی طرح حضرت ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ ’’ہم لوگ انصار میں سے ہیں اور ہم منافقوں کو علی مرتضیٰ سے بغض و عناد کی وجہ سے پہچان لیتے تھے‘‘۔ منقول ہے کہ جنگ احد میں آپ کی پنڈلی میں ایک ایسا تیر لگا جو کہ ہڈی سے پھنس چکا تھا۔ اس کو نکالنے کی کوشش کی گئی مگر کامیابی نہ ملی، تو حضور اکرم نے فرمایا کہ علی جب حالت نماز میں ہوں تو اس وقت یہ تیر نکالا جائے۔ چنانچہ دوران نماز آپ کی پنڈلی سے وہ تیر نکالا گیا، جو کہ باآسانی نکل آیا۔ مفسرین کے مطابق حالت نماز
میں آپ کا جسم انور انتہائی نرم ہو جاتا اور ملاقات خدا میں محو ہوتے۔ اسی طرح جب آیت مباہلہ نازل ہوئی تو حضور نبی کریم بچوں میں حضرت حسنین کریمین، مستورات میں جناب سیدہ النساء العالمین حضرت فاطمہ زہرا، اور نفوس میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اپنے ساتھ لے گئے۔ آپ راتوں کو جاگ جاگ کر یتیموں کی خبر گیر ی کرتے، بیماروں کی عیادت، غریبوں کی مدد اور غلاموں سے شفقت فرماتے۔ کوئی سوالی کبھی خالی ہاتھ آپ کے ہاں سے واپس نہ گیا۔ یہاں تک کہ آپ نے حالت رکوع میں انگشتری زکوۃ فرمائی۔ روایات میں ہے کہ نبی کریم، علی المرتضیٰ، سیدہ فاطمہ اور حسنین کریمین مسلسل تین روز تک اپنی افطاری سائل کو خیرات کرتے رہے اور خود پانی پی کر شکر بجالاتے رہے، جسے اللہ رب العزت نے پسند فرمایا ۔ یقینی طور پر جس ہستی کے اتنے فضائل ، مراتب ہوں اسی کو ہی فزت برب الکعبہ کا دعویٰ زیبا ہے۔

19ماہ رمضان 40 ہجری آپ فجر کی نماز سے قبل مسجد کوفہ میں تشریف لے گئے۔ ابن ملجم نامی خارجی نے حالت سجدہ میں آپ کے سراقدس پر زہر سے بجھی تلوار کا ایک وار کیا۔ جس سے آپ کا سر اقدس شگافتہ اور رخ انور لہو میں تر ہوگیا۔ بعض کتب کے مطابق ابن ملجم کا وار آپ کے سر اقدس کے عین اسی مقام پر لگا جہاں جنگ خندق میں عمروبن عبدود کا وار لگا تھا۔ فطرت انسانی کا تقاضہ ہے کہ اگر انسان کو کوئی کاری ضرب لگے تو بے ساختہ وہ درد کا اظہار کرتا ہے، اگر حواس قابو میں ہوں تو جوابی وار کیلئے لپکتا ہے مگر تاریخ
شاہد ہے کہ حضرت علی المرتضیٰ نے زہر بجھی تلوار کا وار سہہ کر بھی نہ کوئی چیخ و پکار کی، نہ اپنے دشمن پر اظہارغضب کیا، بلکہ آپ کے لبوں سے ایک فصیح و بلیغ جملہ ادا ہوا،
فزت برب الکعبہ، رب کعبہ کی قسم کہ میں کامیاب ہوگیا۔ یہ ایک جملہ ظاہر کرتا ہے کہ میرے امام (ع) شگافتہ سر اقدس کے ساتھ بھی کتنے پرسکون تھے۔ یہ امر بھی باعث تعجب ہے کہ میرے مولا نے یہ جملہ اس وقت ادا نہیں کیا کہ جب اسلام کی پہلی دعوت پہ ہی پیغمبر اکرم کی حمایت کا ببانگ دہل اعلان کیا۔ نہ ہی اس وقت ادا کیا کہ جب جنگ بدر میں تاریخ جہاد کے پہلے کافر کو اپنی تلوار سے واصل جہنم کیا، نہ ہی یہ جملہ اس وقت سنائی دیا کہ جب احد میں تنہا رسول کریم کے گرد پروانہ وار گھوم کر ان کی جانب اٹھنے والے آہنی ہتھیاروں کو اپنے جسم مبارک پہ روکا، نہ ہی میرے مولا نے یہ الفاظ اس وقت ادا کئے کہ جب سید الانبیاء نے غدیر کے موقع پہ من کنت مولا کا حکم سنایا۔ امام علی (ع) نے یہ الفاظ اس وقت بھی ادا نہیں کئے کہ جب مباہلہ میں پاک نفوس تشریف لے گئے۔ اہل عرب و عجم نے یہ الفاظ اس وقت بھی نہیں سنے کہ جب مرحب کو خیبر میں ٹھکانے لگایا، یا خندق میں عمرو بن عبدو د کو جہنم رسید فرمایا۔ یہاں تک کہ امیر کائنات نے یہ جملہ اس وقت بھی ادا نہیں کیا کہ جب کعبہ میں دوش محمد (ص) پہ سوار ہوکر لات و منات ، ہبل وعزیٰ کو چکنا چور کیا، اور نہ ہی یہ الفاظ اس وقت ادا ہوئے کہ جب آیت تطہیر نازل ہوئی۔ خبر نہیں میرے آقا نے پیغمبر
اکرم (ص) کی اپنے متعلق شہادت کی پیشگوئی پوری ہونے کا کتنا انتظار کیا تھا کہ جب مسجد میں داخل ہوئے تو اپنے قاتل کو جگا کر کہا، اٹھ غافل، وقت نماز ہے اور علی (ع) مسجد میں ہے اور زہر میں بجھی تلوار کی سر اقدس میں ضرب کھانے کے بعد فرمایا ’’رب کعبہ کی قسم علی کامیاب ہوگیا۔"

آپ نے اپنے خیر خواہوں اور ورثا کو قاتل کے ساتھ مروت و مہربانی کی تلقین کی، یہاں تک کہ اپنے لیے لایا گیا شربت دیکھ کر فرمایا کہ میرا قاتل گھبرایا لگتا ہے ، لہذا یہ شربت اسے پلاو۔ یعنی شدید زخمی حالت میں بھی دنیائے انسانیت کو حقوق انسانی کا درس دیتے رہے ، اپنے عمل سے بتاتے رہے کہ ایک انسان کے کیا حقوق ہیں۔ کائنات میں ایسی مثال کہیں نہیں ملتی کہ مضروب اپنے قاتل کے ساتھ خود بھی مہربانی کرے اور ضرب کھانے کے بعد اپنے ورثاکو بھی اس سے مہربانی کی تلقین کرے۔ انسانی حقوق کی بطریق احسن ادائیگی اور شفقت کی ایک مثال یوں بھی ملتی ہے کہ طبیب نے جب تجویز فرمایا کہ زہر کی تکلیف سے راحت کیلئے امیر کائنات کی خدمت میں دودھ پیش کیا جائے تو تاریخ کی کتابو ں میں لکھا ہے کہ کوفے کا ہر یتیم بچہ ہاتھ میں دودھ کا پیالہ لیئے امام علی (ع) کے دروازے پہ موجود تھا۔ واللہ یتیموں سے ایسی شفقت اور اپنے قاتل سے ایسا حسن سلوک صرف وہی ہستی ہی اپنا سکتی ہے جو کعبہ میں ولادت سے حیات کا سفر شروع کرکے حالت سجدہ میں اس اعلان کے ساتھ تمام کرے کہ رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا۔
خبر کا کوڈ : 729922
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش