0
Friday 27 Jul 2018 03:48

آہنی عزم یمنی، آل سعود حوصلہ ہارنے لگے(2)

آہنی عزم یمنی، آل سعود حوصلہ ہارنے لگے(2)
تحریر و ترتیب: آئی اے خان

25 مارچ 2015 سعودی عرب نے خطے کے 9 ممالک کو ساتھ ملا کرعسکری اتحاد بنایا اور یمن کے مفرور اور مستعفی صدر " منصور الہادی کو دوبارہ اقتدار پر لانے کے بہانے خطے کے غریب ترین ملک یمن پہ وسیع پیمانے پر حملوں کا آغاز کیا۔ یہ بات بھی کچھ کم اچنبھے کی نہیں ہے کہ یمن پہ جنگ مسلط کرنے کا باقاعدہ اعلان بھی سعودی عرب کی سرزمین سے نہیں کیا گیا بلکہ امریکہ میں تعینات اس وقت کے سعودی سفیر عادل الجبیر نے واشنگٹن میں پریس کانفرنس کے دوران یمن کے خلاف آغازِ جنگ کا باقاعدہ اعلان کیا اور اسی پریس کانفرنس میں یہ بھی اقرار کیا کہ ہم نے اپنے اتحادیوں بالخصوص امریکہ سے کافی مشورے کیئے اور ان مشوروں کے نتائج سے بہت خوش ہیں۔ ’’وائے رے بدنصیبی کہ امت مسلمہ کی مرکزیت کا دعویٰ کجا ا اور اسی امت کے اولین دشمن کی تابعداری کجا ‘‘(جس جنگ کو تحفظ حرمین کا لبادہ پہنانے کی کوشش کی گئی، اس کا اعلان امریکہ سے بدنصیبی نہیں تو کیا ہے)۔ سعودی سربراہی میں یمن پہ حملہ آور کثیر ملکی اتحاد کی مدد سے امریکہ نے کسی بھی مدد سے دریغ نہیں کیا۔

یمن پہ مسلط جنگ میں امریکہ نے سعودی عرب کی اتنی مدد کی کہ اس بات کا تعین بھی مشکل ہو گیا کہ اس جنگ میں امریکہ سعودی عرب کا رفیق کار ہے یا سعودی عرب امریکہ کا آلہ کار۔ یمنیوں پہ بمباری کرنے والے جنگی طیاروں کو ایندھن فراہم کرنے سے لیکر، ٹارگٹنگ میں مدد کرنے، اہم فوجی انفارمیشن دینے، ہلاکت خیز اور مہلک اسلحہ بالخصوص ایسے مہلک بموں کی فراہمی کہ عالمی قوانین کے تحت جن کا استعمال باقاعدہ جنگوں میں بھی ممنوع ہے، یہاں تک کہ آل سعود اور اس کے اتحادیوں کے خلاف مغربی میڈیا پر کسی بھی قسم کے ردعمل کا مقابلہ کرنے تک امریکہ نے یمن پہ حملہ آور اس جارح اتحاد کی بھرپور مدد کی۔ اس جنگ کے آغاز کے بعد بھی امریکہ نے ملین ڈالرز لاگت کا اسلحہ سعودی عرب کو بیچا، جس پہ آزاد میڈیا میں سعودی عرب اور امریکہ کو کڑی تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔

امریکی سرپرستی اور حمایت کی وجہ سے انسانی حقوق کے نام نہاد دعویداروں نے بھی سعودی عرب کے جنگی جرائم پہ آنکھیں موند لیں حالانکہ یمن میں سرِ عام مختلف مقامات یعنی غیر فوجی انفراسٹرکچرز جیسے اسپتالوں، بجلی کے اداروں، پانی کی نہروں، گاڑیوں اور یمن کی تعلیمی اور دینی عمارتوں، قومی املاک، کھیت کھلیانوں، چراہ گاہوں، خوراک کے ذخائر اور مقامی دوا ساز فیکٹریوں کو سعودی اتحاد کے بمبار طیاروں نے مسمار کر دیا، حالانکہ عملی جنگ میں ان میں سے کسی بھی عمارت کو نشانہ بنانا جنگی جرائم میں شمار ہوتا ہے یہی نہیں بلکہ سعودی جنگی اتحاد نے یمن کی فضائی، سمندری اور زمینی راہیں مسدود کرکے اسے محاصرے میں لے لیا، سخت محاصرے کی وجہ سے اشیائے خوردونوش، طبی امدادی سامان بالخصوص ادویات کی رسد بھی بند کر دیں جس کی وجہ سے جنگ زدہ یمن میں سب سے بڑے انسانی بحران نے جنم لیا۔ یہاں تک کہ کئی عالمی اداروں نے اپنی رپورٹس میں اس بحران کی نہ صرف نشاندہی کی بلکہ اس کے حل کی ضرورت پہ زور دیا۔ امریکہ نے ان تمام جنگی جرائم میں سعودی عرب کو نہ صرف سہولت فراہم کی بلکہ اس نے یمن کے ساحلوں پہ تین ریڈار پلیٹ فارموں کو نشانہ بنا کر براہ راست یمن جنگ میں حصہ لیا۔

پوری دنیا کے انصاف پسند عوام یمن پہ مسلط کردہ اس یک طرفہ جنگ کے خلاف جارح سعودی اتحاد اور امریکہ و برطانیہ کو کڑی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں تو ایسے وقت میں بھی امریکہ یمن جنگ میں اپنی موجودگی کا احساس شدت سے دلا رہا ہے۔ باالفاظ دیگر یمنی عوام کے قتال میں امریکہ نہ صرف سعودی عرب کے ساتھ شریک جرم ہے بلکہ یمن میں تباہی، خون خرابے اور اس جنگ کے دائرہ اور اس کی ہولناکی میں توسیع کا طلبگار بھی ہے۔ یہ امریکہ اور اس کے حواریوں کی ہی کارستانیاں ہیں کہ یمن میں اپنی مرضی کی حکومت کے قیام کا ارادہ لیکر حملہ آور سعودی عرب کیلئے یہ جنگ مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے اور ہر گزرتا لمحہ اسے ایک بند گلی کی جانب دھکیل رہا ہے۔ جس جنگ کے ابتدئی حملے کا نشانہ یمنی دارالحکومت بنا تھا، آج وہی جنگ سعودی عرب کے اندر تک آ چکی ہے اور سعودی شاہی خاندان اس سے متاثر ہورہا ہے، اس موقع پہ بھی نام نہاد سعودی دوست بجائے اس جنگ کے شعلے سرد کرنے کے، اسے اور ہوا دے رہے ہیں۔

یمن پہ مسلط کردہ اس یکطرفہ جنگ میں سعودی جارح اتحاد نے ابتدائی بیس دنوں میں شدید بمباری کرکے یمن میں 256 رہائشی عمارتوں، 72 تعلیمی اداروں، چھ فیول سٹیشنز، 2 آثار قدیمہ کے مقامات، اور 11 شاپنگ مالز کو مکمل طور پر مسمار کر دیا۔ ان حملوں کے دورن 2571 ہلاکتیں ہوئیں، جن میں 381 بچے اور 214 خواتین شامل ہیں۔ اس کے علاوہ 3897 افراد زخمی ہوئے، جن میں 618 بچے اور 455 خواتین شامل تھیں۔ یہ اعداد و شمار اس جنگ کے ابتدائی 20 دنوں کے ہیں۔ دسمبر 2017ء میں اقوام متحدہ نے اپنی ایک رپورٹ کے ضمن میں سعودی حملوں میں یمن میں ہونے والے نقصان کی تفصیل کچھ یوں بیان کی۔ 4 لاکھ 6 ہزار 289 رہائشی عمارتوں کی مسماری، 5924 کمرشل سینٹرز، 323 گیس اسٹیشنز، 1630 زراعتی مقامات، 15 ائیرپورٹس، 14 بندرگاہیں، 1963 سڑکیں اور پل، 773 مساجد، 296 اسپتال یہ تو وہ انفرانسٹرکچر ہے جو کہ تباہ ہوا۔ اگر انسانی جانی نقصان کا جائزہ لیں تو 12904 ہلاکتیں، اور 21 ہزار 165 زخمی، 20 لاکھ بے گھر، 170 لاکھ افراد اشیائے خورد و نوش کے محتاج، اور 18 لاکھ طالب علم جو تعلیم سے محروم ہو گئے۔

یہ اعداد و شمار جس میں عام شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد موجود ہے، جس میں غذائی اور ادویات کی قلت کا شکار ہزاروں محتاج انسانوں کا ذکر ہے، جس میں تباہ ہونے والے انفراسٹرکچر اور تعلیم سے محروم ہونے والے بچوں کی تعداد ہندسوں میں بتائی گئی ہے، اگر چہ یہ اعداد و شمار سعودی عرب کے جنگی جرائم کو ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں۔ واضح رہے کہ سعودی عرب کے جنگی جرائم پہ مبنی یہ اعداد و شمار اس عالمی ادارے کی ذیلی شاخ نے اپنی رپورٹ میں جاری کئے ہیں کہ جس ادارے کی تشکیل اور قیام کا بنیادی مقصد ہی جنگوں کی روک تھام اور انسانی بنیادوں پہ کرہ ارض کے باسیوں کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانا تھا۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ انہی رپورٹس کی بنیاد پہ اقوام متحدہ ہنگامی بنیادوں پر سب سے پہلے یمنی عوام پہ مسلط کردہ سعودی عرب کی اس یک طرفہ جنگ کی روک تھام کا بندوبست کرتا، پھر اس جنگ میں ہونے والے جانی و مالی نقصان کے ازالے کیلئے اپنی نگرانی میں بحالی کے اقدامات سرانجام دیکر سعودی عرب سے بھاری جرمانہ وصول کرتا۔

مگر افسوس: اقوام متحدہ جو ہمیشہ سے ہی بڑی طاقتوں اور ان طاقتوں کے آلہ کاروں کی باج گزار رہی ہے، اس نے صرف اعداد و شمار پہ مبنی رپورٹیں جاری کرنے پہ ہی اکتفا کیا یا پھر زبانی کلامی مذمت کے ذریعے اپنے دامن پہ پڑے خون کے چھینٹوں کو دھونے کی ناکام کوشش کی۔ یمنی بچوں کی ہلاکتوں، ان کے بنیادی حقوق کی پامالی، شکم مادر میں موجود بچوں کی غذا اور ادویات کی قلت کے باعث بڑھتی ہلاکتوں پہ بان کی مون نے سعودی عرب کا نام بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے گروہوں کی فہرست میں شامل تو کیا مگر سعودی عرب نے جب مالی امداد بند کرنے کی دھمکی دی تو یہ دھمکی اقوام متحدہ کے فیصلے پہ بھی غالب آگئی۔ یعنی معصوم نوزائیدہ بچوں کے قاتل نے جب امداد بند کرنے کی دھمکی دی تو اس کا نام ہی بچوں کے قاتلوں، ان کے حقوق ضبط کرنے والے گروہوں کی فہرست سے ہی نکال دیا گیا۔ اقوام متحدہ کے اس فیصلے نے اس کے اپنے وجود اور اس کی ساکھ پہ ہی کئی سوالات ثبت کردیئے۔

بات یہیں تک محدود نہیں بلکہ ایک طرف اقوام متحدہ سعودیہ کے جنگی جرائم کا اقرار بھی کرتی ہے اور اس کے خلاف نام کا سہی مگر ان جرائم کی راہ میں مزاحم ہونیکی اداکاری بھی کررہی ہے، دوسری جانب یمن میں جاری بربریت کے اس کھیل کے دوران ہی اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل میں سعودی عرب کی رکنیت کی تجدید کر دی۔ اقوام متحدہ کے اس رویے سے یہ بھی ثابت ہے کہ یمن میں جاری جنگی جرائم، انسانی حقوق اور بچوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں میں اقوام متحدہ کی مرضی و منشاء شامل ہے۔ جس سعودی عرب کو اقوام متحدہ نے انسانی حقوق کی کونسل میں دوبارہ شامل کیا ہے، یمن کے عوام بالخصوص بچوں کے خلاف اسی سعودی عرب کے غیر انسانی اقدامات ملاحظہ فرمائیں۔
یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق ہر 35 سیکنڈ کے بعد ایک یمنی بچہ ہیضہ میں مبتلا ہو جاتا ہے اور تقریباً روزانہ چار بچے اس بیماری کی وجہ سے اپنی جان کھو دیتے ہیں، کسی بھی ایک ملک میں کسی بیماری کے باعث ہلاک ہونے والے بچوں کی یہ سب سے زیادہ تعداد ہے۔

6 اکتوبر 2016ء پہلی بار یمن ہیلتھ آرگنائزیشن نے صوبہ عدن اور یمن کے جنوبی علاقہ جات میں ہیضہ کے 24 کیسز کی اطلاع دی۔ اس بیماری میں مبتلا افراد کی تعداد ایک ہی ہفتے میں 24 سے 1410 تک پہنچ گئی، جس کا نیتجہ یہ ہوا کہ اس بیماری کو مزید پھیلنے سے روکنے کے لیے یمن کے جنوب میں سارے ایجوکیشنل مراکز یکایک بند کرنا پڑے۔ اس بیماری کا اگلا مرحلہ، پچھلے مرحلے سے زیادہ خطرناک اور وسیع تھا، جو کہ 27 اپریل 2017 سے شروع ہوا۔ ہیضہ یمن کے 22 صوبوں میں سے 21 صوبوں میں پھیلنے لگا اور صرف یمن کے مشرق میں واقع صوبہ سقطری ہی وہ واحد صوبہ ہے جہاں پر ہیضہ کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔ متاثرہ علاقوں میں ہیضہ کا پھیلاو اس حد تک شدید تھا کہ مقامی ذمہ داران اور بین الاقوامی ادارے بھی اس پہ قابو پانے یا اس کی شدت کو روکنے میں بری طرح ناکام رہے۔ حجہ صوبے میں 350 افراد سے زائد، اِب میں 230 سے زیادہ، الحدیدہ صوبے میں 210 افراد سے زائد، صوبہ تعز میں 150 افراد سے زائد اور صوبہ عمران میں بھی 150 افراد سے زائد اس بیماری میں مبتلا ہوئے۔

انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس کے چیئر مین پیٹر ماورر نے جولائی 2017ء میں یہ اعلان کیا کہ اگر موجودہ حالات یونہی بڑھتے رہے، سال 2017ء کے آخر تک اس ملک میں ہیضہ کے مریضوں کی تعداد 6 لاکھ افراد تک پہنچ جائیگی حالانکہ ہیضہ ایک قابل تدارک مرض ہے جبکہ یمن میں یہ مرض قدرتی آفت کے طور پر نہیں بلکہ جارح دشمنوں کا کیا دھرا تھا۔ ہیضہ کی بیماری کو تاریخ میں کئی بار مختلف ممالک کے خلاف ہلاکت خیز ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ دوسری جنگ عظیم میں امریکہ اور جاپان نے اس وبائی مرض کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا، اپارتھائیڈ دور میں جنوبی افریقہ، اور عراق میں صدام حسین نے اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کیا۔ ہیضہ ایک وبائی بیماری ہے، جس کی جڑ وبریو کولورائے نامی بیکٹیریا ہے۔ یہ بیکٹیریا بہت عرصے تک پانی میں زندہ رہ سکتا ہے اور اس کو عام کرنے کا بہترین طریقہ پینے کے قابل استعمال پانی کو آلودہ کرکے یا صاف پانی کو گندے پانی کے ساتھ ملا دینا ہے۔ حصاروں، قلعوں اور ٹاؤنز کے کنوؤں کے پانی میں یہ بیکٹیریا داخل کرنا اس وبائی مرض کو پھیلانے کے آسان طریقے ہیں۔ 300 قبل از مسیح میں یونانیوں کے پاس اپنے دشمن کے خلاف سب سے مہلک حربہ یہی تھا کہ جس کے ذریعے وہ دشمن فوجوں اور لوگوں پہ غالب آتے تھے، تاریخ میں بائیلوجیکل جنگوں میں سب سے خطرناک حربہ یہی ہے۔

اسی ہلاکت خیز، مہلک اور غیر انسانی حربے کو سعودی عرب اور امریکیوں نے یمن کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ پہلے اس ملک کے انفراسٹرکچرز اور شہری پانی کے نطام کو درہم برہم کیا گیا اور بعدازاں اس پانی کو خطرناک بیکٹیریا سے آلودہ کر دیا گیا جو کہ شہری آبادی کیلئے انتہائی مہلک ثابت ہوا حالانکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی اگست 2010ء کی ریزلوشن نمبر 64292 کے مطابق، صاف پانی کی فراہمی اور گندے پانی کی محفوظ نکاسی انسان کے بنیادی ترین حقوق میں سے ہیں اور انہیں جنگ میں بھی کسی طور نشانہ نہیں بنایا جاسکتا۔ نام نہاد انسانی حقوق کے علمبرداروں اور اسلامی دنیا کی مرکزیت کے دعویدار جارح نے ایک طرف تو یمن کے عوام کو اس مہلک اور خطرناک بیماری سے دوچار کیا تو دوسری جانب برسوں سے جاری فضائی حملوں کے نتیجے میں یمن کے اسپتالوں اور کلینکوں کے خراب ہو جانے کے باعث اس بیماری کی روک تھام کیلئے انفراسٹرکچر بھی موجود نہیں۔ یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے کسی مجبور شخص کو شدید زخمی کردیا جائے اور جب وہ علاج کیلئے ہسپتال کا رخ کرے تو ہسپتال پہلے سے ہی بند یا مسمار کردیا جائے۔ ان بیماریوں سے بچاؤ کے لیے یمن کی 25 ملین آبادی کے پاس اور کوئی پناہ گاہ نہیں۔ ایک جانب جارح اتحاد کے طیاروں سے گرتا ہوا آتش و آہن، دوسری جانب پینے کے پانی کے ذریعے شہری آبادی میں بیماریوں کا پھیلاؤ، اس پہ طبی مراکز کی تباہی یہ ایسے عوامل ہیں جو جیتے جاگتے معاشرے کو دنوں میں تباہی سے دوچار کر سکتے ہیں۔ سعودی حملہ آور اتحاد نے اسی پہ اکتفا نہیں کیا بلکہ یمن کے زمینی سمندری اور فضائی محاصرے سے غذا اور ادویات کی ترسیل بند کرکے انسان دشمنی کی ساری حدیں عبور کرلی ہیں۔

یمن میں جاری تلخ حقائق پر پردہ ڈالنے کی نیت سے جارح اتحاد نے محاصرے کے ذریعے عالمی ذرائع ابلاغ، انسانی حقوق کی تنظیموں کے ذمہ داران، سوشل ورکرز کا یمن میں داخلہ بند کیا ہوا ہے، جس کا مقصد رواں صدی کے شدید ترین جنگی جرائم کو دنیا سے مخفی رکھنا ہے، ان تمام تر مذموم حربوں کے باوجود عالمی انسانی حقوق کے ادارے اور صورتحال پہ دقیق نظر رکھنے والے اہل دانش یمن میں ہیضے کی بیماری اور اس کے پھیلاؤ کیلئے مصنوعی کوششوں کو سعودی عرب کی جانب سے یمن کے خلاف بائیولاجیل جنگ قرار دے رےہ ہیں۔ اس امر میں بھی کوئی شک و شبہ نہں کہ امریکہ، برطانیہ اور ان کے اسلحہ ساز حلیف سعودی عرب کو اسلحہ کی اور دیگر امداد جاری رکھ کر یمنی عوام کے خلاف ان جنگی جرائم اور غیرانسانی برتاؤ میں برابر کے شریک ہیں۔ یہ ایک بائیولاجیکل جنگ ہے، جوکہ امریکہ اور آل سعود کے بے شمار جرائم میں سے ایک بھیانک اور قبیح جرم ہے جو کہ اس بار دنیا کے ایک غریب ترین ملک یعنی یمن میں وقوع پذیر ہوا ہے جبکہ اسے امریکہ کی دونوں حکومتوں کی حمایت حاصل ہے۔ موجودہ حالات میں 124 ممالک، انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے رکن ہیں، اس کورٹ کے پاس خاص اختیارات ہیں کہ ان جرائم کی بیخ کنی کرے جو کہ نسل کشی، انسانی جرائم اور جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہوں۔ امریکہ اس کورٹ کا رکن نہیں ہے حالانکہ اس کے ابتدائی معاہدے پر دستخط کرچکا تھا، لیکن بعد میں اپنے دستخط اس ادارے سے واپس لے لیے، اس کا یہ عمل بھی ظاہر کرتا ہے کہ انسانی حقوق کی علمبرداری کا دعویدار خود کتنا بڑا جنگی، انسانی جرائم اور انسانی نسل کشی کا مرتکب ہے۔
خبر کا کوڈ : 740494
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش