0
Monday 29 Oct 2018 20:59

ضلع مہمند کا واحد غلنئی ہیڈکوارٹر ہسپتال مریضوں کو علاج کی سہولیات دینے سے قاصر

ضلع مہمند کا واحد غلنئی ہیڈکوارٹر ہسپتال مریضوں کو علاج کی سہولیات دینے سے قاصر
رپورٹ: ایس علی حیدر

غلنئی ہیڈکوارٹر ہسپتال کو قابل علاج اور تمام اسٹاف کی حاضری یقینی بنانے کیلئے بائیومیٹرک سسٹم لگانے کی ضرورت ہے۔ ہسپتال میں ڈاکٹروں، نرسز اسٹاف، پیرا میڈیکل اسٹاف اور دوسرے عملے کی حاضریاں یقینی بنانا چیلنج بن چکا ہے۔ اس سسٹم سے تمام عملے کو بروقت ڈیوٹیوں پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ بدقسمتی سے قبائلی علاقہ جات میں محکمہ جات کا موثر مانیٹرنگ نظام نہ ہونے کی وجہ سے اکثر ادارے مکمل طور پر غیر فعال ہیں۔ لوگ سوالات اٹھاتے ہیں کہ ڈاکٹروں کی موجودہ تنخواہیں لاکھوں میں ہیں، پھر کیوں باقاعدہ ڈیوٹیاں نہیں دیتے؟ ہسپتال انتظامیہ کے حکام پر بھی مختلف قسم کے الزامات ہیں کہ ڈاکٹروں سمیت تمام اسٹاف کی حاضریاں ابھی تک کیوں یقینی نہیں بنائی گئیں۔ ضلع مہمند کا واحد بڑا ہیڈکوارٹر ہسپتال غلنئی جو کہ تقریباََ 5 لاکھ آبادی کیلئے بنایا گیا ہے، جس میں تقریباََ 10 سے زیادہ ڈاکٹرز، درجنوں دوسرے پیرا میڈیکل اسٹاف اور 30 سے زیادہ نرسز اسٹاف ڈیوٹیاں سرانجام دیتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ڈاکٹرز حضرات کیلئے پورے ہفتے کی روٹین ایسی بنی ہوئی ہے کہ جو پورے ہفتے میں تقریباََ 24 گھنٹے ڈیوٹی دیتے ہیں اور نرسز اسٹاف تو 30 میں صرف بمشکل 2 یا 3 موجود ہوتی ہیں۔

بعض اسٹاف پر یہ الزام بھی ہے کہ وہ پرائیوٹ سینٹروں میں اپنی ڈیوٹیوں سے آنکھیں چرا کر کام کر رہا ہے۔ وجہ صرف یہ ہے کہ اس اسٹاف پر کوئی موثر نگرانی کا نظام موجود نہیں، جس کے باعث اکثر اسٹاف غلط فائدہ اٹھاتا ہے اور اپنی سرکاری ڈیوٹیاں بلکہ فرائض صحیح انداز سے نہیں نبھاتا۔ بعض پشاور اور دوسرے اضلاع میں پرائیوٹ کلینکس اور سینٹروں میں بھی ڈیوٹی دیکر پیسے کما لیتے ہیں اور جس مقصد کیلئے یہ بڑے بڑے سرکاری ہسپتال بنائے گئے ہیں، جس پر حکومت کے کروڑوں روپے خرچ ہوئے ہیں، لیکن وہ مقصد عوام کو ان عناصر کے باعث حاصل نہیں ہو رہا۔ عام لوگ یہ سوالات بار بار اُٹھا رہے ہیں کہ محکمہ صحت کیا کر رہا ہے، جو کہ ایک اہم ادارہ ہے، لیکن اس نے آنکھیں بند کی ہوئی ہیں اور ایک ضلع کا ہیڈکوارٹر ہسپتال جو کہ لاکھوں افراد کیلئے بنایا ہوا ہوتا ہے، ایسے ادارے اور ہسپتال کو فعال کیوں نہیں کیا جاتا؟ اور یہاں پر ڈیوٹیاں دینے والے اسٹاف کی حاضریوں کو یقینی کیوں نہیں بنایا جاتا؟ ممبر قومی اسمبلی ساجد خان نے منتخب ہونے کے بعد 4 مرتبہ ہسپتال کا دورہ کیا، تاکہ اس کو فعال بنا کر ضلع کے عوام کو باآسانی صحت کی سہولیات فراہم ہوں، وہ بھی تاحال ہسپتال کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔

جب بھی ہسپتال انتظامیہ سے اسٹاف کی حاضریوں کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو وہ دوسرے مسائل کو بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ ہسپتال انتظامیہ کو فلاں فلاں مسائل ہیں، جبکہ یہ حربے وہ اپنی غیر حاضریوں سے توجہ ہٹانے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہسپتال کا ایم ایس اتنا بےبس کس طرح ہوسکتا ہے؟ کہ وہ اپنے اسٹاف کی حاضریوں کو یقینی نہ بناسکے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ضلع مہمند کے ایم این اے ساجد خان مہمند کو بھی چاہیئے کہ وہ ضلع مہمند کے ہیڈکوارٹر ہسپتال غلنئی کو فعال بنانے کیلئے اور لوگوں کو صحت کے سہولیات فراہم کرنے کیلئے ہسپتال میں بائیومیٹرک سسٹم لگوائیں، تاکہ جو ڈاکٹر حضرات لاکھوں روپے تنخواہیں لیتے ہیں، ان کی حاضریاں یقینی بنائی جاسکیں۔ ہسپتال میں تمام اسٹاف کی حاضریاں یقینی بنانے پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیئے، کیونکہ یہ انسانی زندگیوں کا معاملہ ہے۔ مہمند کی 5 لاکھ آبادی ہے اور دور دراز علاقے ہیں اور اکثر رات کے وقت بیمار افراد آتے ہیں، لیکن ہسپتال میں وہ سہولیات موجود نہیں ہوتیں، جو خاص طور پر اسٹاف کی حاضریوں کو بائیومیٹرک سسٹم کے ذریعے یقینی بنائی جاسکتی ہیں۔ اس لئے سہولیات یقینی بنائی جائیں، تاکہ عوام کی زندگیاں آسان ہوں اور مریضوں کو بروقت علاج کی سہولیات میسر ہوسکیں۔
خبر کا کوڈ : 758422
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش