1
Wednesday 28 Nov 2018 00:31

فوکویاما کی آرزو سے امریکہ کے زوال پر مبنی الہی قانون کے آغاز تک

فوکویاما کی آرزو سے امریکہ کے زوال پر مبنی الہی قانون کے آغاز تک
تحریر: مہدی فضائلی

امریکی ماہر سیاسیات فرانسس فوکویاما نے 1992ء میں اپنی کتاب "تاریخ کا اختتام اور آخری آدمی" میں پیشین گوئی کی کہ سرد جنگ کا خاتمہ انسانی تاریخ کااختتام ثابت ہوگا۔ انہوں نے یہ تصور پیش کیا کہ چونکہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد پوری دنیا میں امریکی سربراہی میں لبرل ڈیموکریسی کا نظام نافذ ہو چکا ہے اور بنی نوع انسان کے پاس لبرل ڈیموکریسی سے زیادہ بہتر کوئی اور نظام نہیں ہو سکتا لہذا انسانی تاریخ اپنے اختتام کو پہنچ چکی ہے اور اب عالمی سطح پر مزید کسی تبدیلی کی توقع نہیں رکھنی چاہئے اور پوری دنیا پر اسی نظام کی حکمفرمانی قبول کر لینی چاہئے۔ یہ وہ آرزو تھی جس کا اظہار فرانسس فوکویاما نے اس نظریے کی صورت میں کیا۔ لیکن حقیقت کیا ہے؟ کیا تاریخ اسی سمت میں آگے بڑھی ہے جس کی وہ آرزو کر رہے تھے؟ یا درحقیقت دنیا کسی اور قانون کے تحت آگے بڑھ رہی ہے؟ تحریر حاضر میں اسی بات کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔
 
کسی بھی ملک کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کس حد تک اپنی خارجہ پالیسی کے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ آئیے امریکہ کو بھی اسی نظر سے دیکھتے ہیں۔ گذشتہ چند عشروں سے امریکی خارجہ پالیسی کے انتہائی اہم اور بنیادی اہداف میں سے ایک ایران میں رونما ہونے والے اسلامی انقلاب کو شکست دینا اور ایران میں بنیادی سیاسی تبدیلی لانا رہا ہے۔ جب ہم ایران میں رونما ہوئے اسلامی انقلاب کی گذشتہ چالیس سالہ تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں حکمفرما ہونے والا اسلامی جمہوری نظام نہ صرف کمزور نہیں ہوا بلکہ روز بروز اس کی طاقت میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ محض ایک دعوی نہیں بلکہ اس کا اعتراف خود معروف امریکی سیاسی ماہرین بھی کرتے نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر معروف امریکی سیاسی ماہر جارج فریڈمن کہتے ہیں:
"ایران سے ہمارا مسئلہ اس کی جوہری سرگرمیاں نہیں بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایران نے ثابت کر ڈالا ہے کہ امریکی حمایت کے بغیر اور حتی امریکہ سے ٹکر لے کر بھی خطے کی سب سے بڑی ٹیکنالوجیکل اور فوجی طاقت بنا جا سکتا ہے۔ اس عمل نے ایران کو اسلامی ممالک کیلئے رول ماڈل میں تبدیل کر دیا ہے جس کا نتیجہ عرب اسپرنگ کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔"
 
امریکی خارجی پالیسی کے دیگر یقینی اہداف میں مغربی ایشیا میں بنیادی سیاسی تبدیلیاں لانا اور اس خطے میں اپنی پٹھو حکومتوں کو مضبوط بنانا شامل تھا۔ اس پالیسی کے تحت لبنان، شام، عراق اور یمن کو امریکی سرگرمیوں کا مرکز بنایا گیا۔ آج ان ممالک کی سیاسی صورتحال کیا ہے؟ ان ممالک پر امریکی اثرورسوخ کی کیا کیفیت ہے؟ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ واضح طور پر اس حقیقت کا اعتراف کر چکے ہیں کہ امریکہ مغربی ایشیا (مشرق وسطی) پر سات کھرب ڈالر خرچ کر چکا ہے لیکن مطلوبہ سیاسی اہداف حاصل نہیں کر پایا۔ اسی طرح چند سال پہلے معروف امریکی میگزین "فارن پالیسی" نے خطے میں امریکی ناکامیوں کو بیان کرتے ہوئے یوں لکھا:
"خطے میں امریکی مداخلت نہ صرف مطلوبہ اہداف یعنی ان قوتوں کا خاتمہ جن سے واشنگٹن کو خطرہ محسوس ہو رہا تھا، حاصل نہ کر سکی بلکہ اس کے نتیجے میں عوام میں امریکہ کے خلاف شدید نفرت پیدا ہو گئی۔ جن افراد کی ہم نے حمایت کی وہ کرپٹ اور غیر موثر ہو چکے ہیں اور اقتدار کے حصول کے قابل نہیں رہے۔ ہم کروڑوں ڈالر خرچ کرنے اور بڑی تعداد میں فوجی مروانے کے بعد اسی جگہ کھڑے ہیں جہاں سے ابتدا کی تھی۔"
 
عالمی سطح پر مطلوبہ سیاسی اہداف کے حصول میں امریکہ کی ناکامی کی تیسری مثال دنیا خاص طور پر مشرق میں اپنی حریف طاقتوں کو ابھر کر سامنے سے روکنے میں ناکامی ہے۔ آج مشرقی بلاک ہر وقت سے زیادہ طاقتور اور مضبوط ہو چکا ہے۔ اس بارے میں معروف امریکی اسٹریٹجسٹ اور سابق امریکی صدر جمی کارٹر کے دور میں ان کے قومی سلامتی کے مشیر برجینسکی کے اعترافات قابل ذکر ہیں۔ انہوں نے 2010ء میں مونٹریال میں معروف تھنک ٹینک کاونسل آن فارن ریلیشنز (CFR) کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے کہا:
"اب تک دنیا کسی حد تک مغربی تسلط اور اثرورسوخ کے تحت تھی لیکن یہ صورتحال مزید باقی نہیں رہ سکتی۔ یوریشیا کا خطہ مستقبل میں جیواسٹریٹجک اعتبار سے دنیا میں طاقت کا محور بن جائے گا۔"
اسی طرح برجینسکی نے فروری 2013ء میں پولینڈ میں ایک تقریر کرتے ہوئے زیادہ واضح انداز میں امریکہ کو خبردار کرتے ہوئے کہا:
"دنیا میں سیاسی طاقت کا مرکز ثقل مغرب سے مشرق کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔"
 
مذکورہ بالا موارد کے علاوہ امریکہ کو درپیش اندرونی مشکلات اور بحرانوں کی مثال بھی دی جا سکتی ہے۔ اقتصادی، سیاسی، سماجی اور ثقافتی مشکلات جن میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور ان کی شدت بڑھتی جا رہی ہے۔ اسی طرح عالمی سطح پر رائے عامہ میں امریکہ سے نفرت بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ یہ تمام حقائق اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ امریکہ تیزی سے زوال پذیر ہو رہا ہے اور ظالم فرعونی اور طاغوتی طاقتوں کی نابودی پر مبنی الہی قانون جاری و ساری ہے۔ شاید جس وقت فرانسس فوکویاما امریکی تسلط کی بقا اور لبرل ڈیموکریٹک نظام کی ہمیشگی کی آرزو کا اظہار کر رہے تھے امریکی طاقت کے زوال پر مبنی الہی قانون کا اجراء شروع ہو چکا تھا۔ ان حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے مسلمان حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ امریکہ سے تعلقات کی بنیاد پر اپنی پالیسیاں وضع نہ کریں اور امریکہ کی طاقت سے مرعوب ہونا بھی چھوڑ دیں۔ اس وقت پوری دنیا ایک انتہائی اہم تاریخی موڑ سے گزر رہی ہے جس کے بعد نیا عالمی نظام معرض وجود میں آنے والا ہے اور وہ نظام عالمی سطح پر متعدد اتحادوں کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ اگر اسلامی ممالک آپس میں متحد ہو کر ایک بڑا اسلامی اتحاد تشکیل دیتے ہیں تو وہ مستقبل میں عالمی سطح پر موثر سیاسی کردار ادا کرنے کے قابل ہوں گے ورنہ ان کی کوئی حیثیت نہیں ہو گی۔
 
خبر کا کوڈ : 763618
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش