0
Sunday 20 Jan 2019 13:03

شیخ حسن جوہری گلگت بلتستان میں مزاحمت کا استعارہ

شیخ حسن جوہری گلگت بلتستان میں مزاحمت کا استعارہ
رپورٹ: میثم بلتی

پاکستان میں بلتستان کو علماء کو سرزمین کہا جاتا ہے، اس سرزمین کے علماء کی بڑی تعداد اندرون ملک اور بیرون ملک تبلیغ و ترویج دین کی خدمات سرانجام دے رہی ہے۔ بلتستان کے مثالی بھائی چارے، امن و آشتی اور مہمان نوازی کے ساتھ ساتھ دینداری یہاں کے علماء کرام کے طفیل ہے۔ بلتستان کو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کا پرامن ترین خطہ کہا جاسکتا ہے تو بلا شبہ اس میں سب سے زیادہ کردار علماء کا ہی ہے۔ اس خطے میں بنیادی حقوق کے لئے جدوجہد ہو یا دیگر مسائل کے حل کے لئے علماء ہی قیادت کرتے ہیں۔ تاہم ایک عرصے سے یہاں کے علماء کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ مسلم لیگ نون کی موجودہ صوبائی حکومت میں بلتستان سے تعلق رکھنے والے فلاحی و تعلیمی سرگرمیوں میں ملک و قوم کے لئے لازوال قربانیاں دینے والے شیخ محسن علی نجفی بھی شیڈول فور کے شکنجے میں کسے جاچکے ہیں۔ ان کے علاوہ گلگت بلتستان میں عوامی حقوق کے لئے آواز بلند کرنے والے عالم دین آغا علی رضوی بھی اس وقت ریاستی جبر کا شکار اور شیڈول فور میں شامل ہیں۔

ایسا لگ رہا ہے کہ موجودہ حکومت سے نظریاتی و سیاسی اختلاف رکھنا گویا ریاست دشمنی اور دہشتگردی ہو۔ جی بی جیسے حساس خطے میں پے در پے علماء کے خلاف کارروائیاں کسی صورت علاقے کے مفاد میں نہیں۔ حکومت اور ریاستی اداروں کو ایسے اقدام سے گریز کرنا چاہیئے، جن کے بعد اداروں اور عوام میں دوریاں پیدا ہوں۔ دیکھا یہ جا رہا ہے کہ ایک عرصے سے عوام اور ریاست کے درمیان دوریاں پیدا کرنے کے لئے کچھ عناصر سرگرم ہیں۔ اس گھناونے کھیل کا انجام انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ اس گھناونے کھیل میں علماء کو انتظامیہ کی مرضی کے مطابق تقریر کرنے کا پابند بنانا، عوامی حقوق کے لئے جدوجہد کرنے سے روکنا وغیرہ شامل ہے۔ اس کے باوجود کہ گلگت بلتستان کے علماء ریاست کے وفادار اور ریاست دشمن دہشتگردوں کے مخالف ہیں، انکو ہراساں کرنے کی کوشش، انکی گرفتاریاں اور شیڈول فور میں ڈالنا عاقبت نااندیشی ہے۔ ہر معاملے کا حل افہمام و تفہیم کے ذریعے ڈھونڈا جاسکتا ہے اور طاقت کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوسکتا۔

گذشتہ تین روز سے بلتستان بھر کے عوام سراپا احتجاج ہے۔ ایک طرف سپریم کورٹ آف پاکستان کے مایوس کن فیصلے کی وجہ سے عوام میں غم و غصہ پایا جاتا تھا تو دوسری طرف بلتستان میں مزاحمت کے علمبردار شیخ حسن جوہری کی گرفتاری کے خلاف عوام سراپا احتجاج ہے۔ بلتستان کی تاریخ میں پہلی بار خواتین کا بھی سڑکوں پہ نکل آنا کسی طور نہ صرف درست نہیں بلکہ انتظامیہ کے سربراہ کے اوپر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ہوا یوں کہ گلگت بلتستان یوتھ الائنس کے بانی و چیئرمین نامور عالم دین شیخ حسن جوہری کو پولیس کی بڑی ٹیم نے یادگار چوک سے 17 جنوری کو گرفتار کرلیا۔ گرفتاری کے بعد انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر 22 جنوری تک کیلئے جیل بھیج دیا گیا۔ ان کے خلاف انتظامیہ، حکومت اور اداروں کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرنے کے الزام میں دو روز قبل سٹی تھانہ سکردو میں مقدمہ درج کر لیا گیا تھا۔ جمعرات کے روز نماز ظہرین کی ادائیگی کے بعد جب شیخ حسن جوہری یادگار چوک پر پہنچے تو سٹی تھانہ اسکردو کے ایس ایچ او غلام نبی کی سربراہی میں پولیس کی ایک بڑی ٹیم نے انہیں گرفتار کرلیا۔ انہیں گاڑی میں بٹھا کر سٹی تھانہ لے جایا گیا، جب تھانے کے سامنے لوگ جمع ہونا شروع ہوگئے تو پولیس نے ممکنہ کشیدگی سے بچنے کیلئے شیخ حسن جوہری کو عدالت میں پیش کیا، جہاں سے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔

 شیخ حسن جوہر ی کی گرفتاری کیخلاف سکردو میں سینکڑوں افراد نے یادگار چوک پر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے انتظامیہ اور پولیس کے خلاف شدید نعرہ بازی کی۔ مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے سربراہان کے مطالبے کے باوجود انہیں رہا نہیں کیا۔ دوسری طری جمعہ کے روز انجمن تاجران کے صدر غلام حسین اطہر نے شیخ حسن جوہری کی گرفتاری کیخلاف مکمل شٹرڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کرنے کا اعلان کر دیا۔ جس کے نتیجے میں تمام دکانیں، مارکیٹں بند رہیں اور بھرپور احتجاج ہوا۔ ذرائع کے مطابق ضلعی انتظامیہ سے ذمہ دار اداروں نے رابطہ کیا تو انہوں نے واضح کر دیا کہ شیخ حسن جوہری کی گرفتاری انتظامی سربراہ کی پالیسی نہیں ہے بلکہ اعلٰی حکام اور اعلٰی اداروں بالخصوص حساس اداروں کے حکم پر ایسا ہوا ہے۔ ضلعی انتظامیہ نے ذمہ داروں کے سامنے اپنے آپکو اداروں کے سامنے بے بس قرار دیتے ہوئے معذرت کرلی۔

دوسری طرف انتظامیہ نے اس سلسلے میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شیخ حسن جوہری کا معاملہ عدالے میں ہے اور عدالتی فیصلے کے مطابق عمل کیا جائے۔ اب عوام کے پاس عدالت کے مدمقابل میں آنے یا خاموش رہنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا۔ اس کے ساتھ ساتھ انتظامیہ کے سربراہ نے یہ تاثر بھی دینے کی کوشش کی کہ شیخ جوہری کی گرفتاری میں چند علماء کی رضا بھی شامل ہے۔ انہوں نے برملا طور پر کہا کہ جب علماء سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے شیخ جوہری سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ شیخ حسن جوہری کا کسی بھی جماعت یا عالم دین سے اختلاف ضرور ہوسکتا ہے لیکن صنف عالم کی گرفتاری کی پشت پناہی کوئی عالم دین نہیں کرسکتا۔ یہ حقیقت ہے کہ شیخ حسن جوہری انتظامیہ کے لئے انتہائی ناپسندیدہ شخصیت ضرور ہے۔ گندم سبسڈی تحریک ہو، ٹیکس مخالف تحریک ہو، خالصہ سرکاری کے نام پر غیر قانونی قبضے کی کوشش ہو یا شہر کے اندر ہونے والی لاقانونیت کے خلاف شیخ کی آواز ایک بھرپور اور توانا آواز رہی ہے۔ ان کا شمار بھی جی بی کے مزاحمتی علماء میں صف اول میں ہوتا ہے۔

شیخ حسن جوہری کی گرفتاری کے بعد پورے خطے میں وسیع پیمانے پر پھیلنے والی بے چینی، اداروں اور عوام کے درمیان پیدا ہونی والی دوریوں نیز انتظامیہ پر عوام کے اٹھتے اعتماد کو دیکھ کر چند اہم اداروں کے حرکت میں آنے کی بھی اطلاع ہے۔ ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ فورس کمانڈر گلگت بلتستان نے اس حساس معاملے پر نوٹس لیتے ہوئے انتظامیہ کو ایک عالم دین کی عزت ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے معاملے کو حل کرنے کا حکم دیا ہے۔ منفی سولہ کی ٹھٹھری سردی میں تین روز کے پرامن احتجاج، سڑکوں پر خواتین کے نکلنے، عوام کے عدالت سے دوریاں پیدا ہونے، موجودہ انتظامیہ سے اعتماد اٹھنے اور ایک عالم کی گرفتاری کے بعد مقامی انتظامیہ کے سربراہ اخلاقی جواز کھو چکے ہیں۔ انہیں تسلیم کرلینا چاہیئے کہ حالیہ اقدام کسی صورت عوام، ریاست اور اداروں کے حق میں نہیں اٹھا۔ عوام اور اداروں کے درمیان اس اقدام سے جو دوریاں پیدا ہوگئی ہیں، انہیں ختم کرنا آسان نہیں۔ بالخصوص وہ علماء جو ظلم و زیادتی کو بے نقاب کرتے ہیں، عوامی حقوق کے لئے آواز بلند کرتے ہیں، انہیں جیلوں میں پابند کرنے کے بعد انکے پیروکاروں میں تو اضافہ ہوسکتا ہے، لیکن انکی زبان بندی ایسے اقدام سے نہیں ہوسکتی۔
خبر کا کوڈ : 772842
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش