0
Wednesday 23 Jan 2019 18:18

ریاستی و غیر ریاستی بربریت، اسباب اور تدارک

ریاستی و غیر ریاستی بربریت، اسباب اور تدارک
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

ساہیوال کے نزدیک ہونیوالی بربریت کے متعلق رضا ربانی نے کہا ہے کہ ریاست ڈائن بن چکی ہے۔ ڈائن یعنی ایسی مخلوق جو انسانی خون کی پیاسی ہوتی ہے، الٹے پاؤں اور خوفناک دانت اسکی نشانی ہیں، یہ ایک افسانوی علامت ہے۔ سوال یہ ہے کہ حکومت اور ریاست کا جب اصرار ہے کہ پاکستان کو دہشت گردوں سے نجات دلانے والوں کو ظالم اور درندہ نہ کہا جائے بلکہ انکے ہاتھوں دن دہاڑے قتل ہونیوالوں کو اسامہ بن لادن، بیت اللہ محسود، کلبھوشن اور ملک اسحاق جیسے دہشت گردوں کی فہرست میں شامل سمجھا جائے۔ سیاسی اور سول حکومت جب آئی ہی کسی کے رحم و کرم کی بنیاد پر ہے تو ان سے کیا توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ سچ بول پائیں گے، رہی سہی کسر سیکورٹی کی صورتحال کے نام پہ دی جانیوالی بریفنگز نکال دیتی ہیں۔ ساہیوال کے جعلی پولیس مقابلے کو درست آپریشن قرار دیا جا رہا ہے اور جس طرح گاڑی میں سوار مرد و خواتین کو دہشت قرار دیا گیا، پھر رضا ربانی سچ کہتے ہیں۔ جدید ریاست کا تصور، جمہوریت جیسے پر فریب نعرے سے منسلک کیا جاتا ہے، اس سے قبل سلطنت شہشاہ چلاتے تھے۔

 بادشاہوں کی زبان ملک کا قانون کہلاتا تھا، ہر شاہ کی خاص فوج اور دستے ہوتے تھے، جنہیں ایلیٹ فورس کہا جاتا۔ موجودہ دور میں بادشاہت کی جگہ ریاست نامی طاقت نے لے لی ہے، جو شہریوں کے حقوق کا بہتر تحفظ یقینی بنانے اور عدل و انصاف کی ایک عام قانون کے تحت فراہمی کی داعویدار ہے۔ رضا ربانی ہمارے دور ان گنے چنے لوگوں میں سے ہیں، جو ریاستی اور سرکاری بے ضابطگیوں کیخلاف آواز اٹھاتے ہیں، انہوں اعتزاز احسن کی نظم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ریاست تو ماں جیسی ہونی چاہیے، لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ لاکھوں جانون کی قربانیوں سے حاصل ہونیوالا ملک فلاحی ریاست کی بجائے ایک ڈائن کی صورت میں متضاد مقاصد کی حامل ڈائن کی شکل اختیار کر چکا ہے، جو اپنے ہی شہریوں کو نگل رہی ہے۔ ساہیوال واقعے کو ایک طرف بھی رکھ دیں تو غربت، بیماریوں اور جہالت کی وجہ سے لاکھوں شہری بھوک، ننگ، افلاس اور موت کا شکار ہو رہے ہیں، یہ بھی اسی صورتحال کا شکار ہو رہے ہیں، اسکی وجوہات بھی وہی ہیں جو سانحہ ساہیوال کی ہیں۔ جب حکمران اشرافیہ کروڑوں شہریوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتی ہے تو ریاستی اداروں کے نام سے موجود طاقتور ہتھیار ہی انہیں لوٹ مار کی اور طاقت فراہم کرتا ہے۔

اس کا نتیجہ یہ ہے کہ عام آدمی کیلئیے وہی پرانا دور اور انسان کی بے توقیری کا زمانہ محسوس ہونے لگتا ہے۔ پاکستان کے کرم فرماؤں نے سارا کھیل اپنے ہاتھ رکھا ہوا ہے، قانون ایک آلہ ہے، جسے استعمال کرنیکا اختیار مقتدر طبقے کو ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ ادارے اور حکمران اشرافیہ شہریوں کی زندگی محفوظ بنانے کیلئے یہ حق استعمال کرتے ہیں۔ پاکستانی آبادی کو لاحق تازہ ترین خطرہ دہشت گردی ہے، جو خود بخود پیدا نہیں ہوا، بلکہ اس میں ریاست براہ راست ملوث رہی ہے، جب یہ عفریت ابھی پنپ رہا تھا، تب رضا ربانی جیسے لوگوں نے ان پالیسیوں پر تنقید کی انہیں غدار قرار دیا گیا، دہشت گردی اور دہشت گردی کیخلاف دنیا میں چلنے والی جنگ، دونوں کے جسم و جاں ایک ہی ہیں، قالب کوئی بھی ہو، کارفرما روح وہی ہے، امریکہ کے نعرے اور مظالم میں جو تضاد واضح ہے، وہ امریکہ کی طفیلی ریاستوں کے خمیر میں شامل ہو چکا ہے، فرعونی نفسیات، طاقت کا نشہ اور وسائل کا چند ہاتھوں میں ارتکاز، سب ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ ایک اقلیت ہے جو عام انسانوں کی زندگیوں کو کنٹرول کر رہی ہے، بس انہیں مختلف نعروں کی لوریاں دیکر محو خواب رکھا جاتا ہے، ساہیوال جیسا کوئی واقعہ جب ہمیں اس خواب سے بیدار کرتا ہے تو ہمیں دوبارہ کسی فرعونی نظام کا سامنا ہوتا ہے۔

بظاہر کہا جاتا ہے کہ میڈیا انصاف کی فراہمی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے، دراصل یہ میڈیا ہی شہریوں کے اذہان اور قلوب کو خوابیدہ بنا رہا ہے، غیر ریاستی اور ریاستی عناصر کو جس طرح عام آدمی کو قابو میں رکھنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے، اسی طرح خاص غلامانہ نفسیات بنانے اور افکار پر پردے ڈالنے کیلئے میڈیا سب سے موثر ہتھیار ہے۔ متحدہ ہندوستان میں جب انگریز کا راج تھا سی آئی ڈی انکا سب سے اہم ادارہ تھا، جو ہر ظلم میں انہوں نے استعمال کیا، سارے اہلکار ہندوستانی تھے، پولیس سمیت تمام ادارے نو آبادیاتی وراثت ہیں۔ سی ٹی ڈی، سی آئی ڈی کا نعم البدل ہے۔ یہ اصل میں پولیس ہی کا حصہ ہے، لیکن دہشت گردی کے خلاف زیادہ موثر بنانے کے لئے اس کا تنظیمی ڈھانچہ الگ کر کے اسے براہ راست وزیراعلیٰ کو جوابدہ بنایا گیا، آئی جی پولیس کو بھی جواب دہ ہے۔ سی ٹی ڈی اہلکاروں کی خصوصی تربیت کے لئے مسلح افواج کے علاوہ غیر ملکی ٹرینرز کی خدمات بھی حاصل کی گئیں۔ اسے جدید ترین اسلحہ اور بھرپور وسائل فراہم کئے گئے۔ بجٹ بھی الگ کر دیا گیا۔ 2017-18 میں اس کے لئے صوبائی بجٹ میں پونے پانچ ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی۔ اس جدید فورس نے دہشت گردی کے کئی نیٹ ورک پکڑے اور کئی وارداتیں ناکام بنائیں، لیکن اس پر بے گناہ لوگوں کو غائب کرنے اور دوسری بے قاعدگیوں کے الزام بھی لگتے رہے۔

ساہیوال کے واقعے نے اس کی ساکھ مزید بگاڑ دی ہے۔ اس واقعہ کے متعلق پولیس نے جو پہلی ایف آئی آر درج کی اس میں مقتول خواتین اور مردوں کو داعش کے خطرناک دہشت گرد قرار دیا گیا۔ واقعے کی ویڈیو کلپس سامنے آنے کے بعد یوٹرن لیتے ہوئے ایک اور ایف آئی آر درج کرائی گئی ،جس میں سی ٹی ڈی کے 6 اہلکاروں پر یہی الزام لگا کر انہیں قاتل کے طور پر پیش کیا گیا۔ دونوں ایف آئی آرز ایک دوسرے کی ضد ہیں، جو پیشہ ورانہ بددیانتی کو ظاہر کرتی ہیں۔ پھر یہ اقدام سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کی خلاف ورزی بھی ہے، جس کے تحت ایک ہی واقعے کے بارے میں پہلی ایف آئی آر درج کرنے کے بعد کسی بھی قسم کی دوسری ایف آئی آر درج نہیں کی جا سکتی۔ اس کے علاوہ بھی واقعے کے متعلق سی ٹی ڈی کے بیانات میں واضح تضادات سامنے آئے۔ سانحہ ساہیوال پر پوری قوم سوگوار ہے اور پولیس اور کائونٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کی پیشہ ورانہ تربیت، اہلیت اور کارکردگی کے حوالے سے ایسے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں جن کا فی الوقت حکومت کے پاس کوئی تسلی بخش جواب نہیں ہے۔

اپنی تقریروں میں نو آبادیاتی مظالم کی مثالیں دینے والے عمران خان اقتدار میں آنے سے پہلے بھی پولیس میں اصلاحات لانے پر زور دیتے رہے ہیں اور اب بھی انہوں نے کہا تھا کہ قطر سے واپسی پر وہ پنجاب پولیس کے پورے ڈھانچے کا جائزہ لینے کے بعد اس میں اصلاحات کا عمل شروع کریں گے۔ پولیس اصلاحات وقت کی ضرورت ہے۔ یہ ضرورت ہر جعلی پولیس مقابلے اور ہر ایسے واقعے کے بعد شدت سے محسوس کی جاتی ہے، جس میں پولیس کے جانبدارانہ رویے اور متشددانہ کارروائی کا عنصر نمایاں نظر آتا ہو۔ ساہیوال کے سانحے سے پہلے بھی ایسے افسوسناک واقعات بار بار پیش آتے رہے ہیں۔ واقعہ ساہیوال پر سینیٹ اور قومی اسمبلی میں ساہیوال کے سانحے پر شدید احتجاج کیا گیا اور جوڈیشنل انکوائری کے علاوہ تحقیقات کیلئے پارلیمانی کمیٹی قائم کرنے کے مطالبات کئے گئے۔ یہ تمام باتیں اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ سانحہ ساہیوال سے سبق سیکھا جائے اور پولیس میں ایسی اصلاحات لائی جائیں کہ آئندہ ایسے روح فرسا واقعات کا اعادہ نہ ہو۔ ایک بات واضح ہے کہ یہ طفل تسلیاں کسی کام نہ آئیں گئی، یہ واقعات قدرتی آفات کی طرح انسان کو بیدار کرنے کا ذریعہ ثابت ہونے چاہیں، حقیقی امن صرف اسوقت قائم ہو گا جب پوری دنیا پر مہدیؑ بر حق کی حکومت قائم ہو گی، ہماری ذمہ داری ہے کہ آپؑ کے ظہور کیلئے ہونی والی کوششوں کا حصہ بنیں تاکہ یہ جہاں عدالت ِ حقیقی سے مزین ہو سکے۔
خبر کا کوڈ : 773708
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش