0
Wednesday 6 Feb 2019 22:35
ماہ شہادت کے عنوان سے ایک تحریر

حضرت جعفر طیار ابن عم رسول(ص)

حضرت جعفر طیار ابن عم رسول(ص)
تحریر: سید اسد عباس
 
جعفر بن ابو طالب بن عبد المطلب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سگے چچا زاد ہیں، آپ علی شیر خدا و عقیل کے سگے بھائی تھے۔ مکہ میں شدید قحط کے زمانے میں رسالت ماب نے حضرت ابو طالب کی معاشی حالت کے سبب چچا عباس سے کہا کہ ہمیں حضرت ابو طالب کا بوجھ بانٹنا چاہیئے اور ان کے بیٹوں کو اپنے زیر کفالت لے لینا چاہیئے۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی جبکہ عباس نے جعفر کا انتخاب کیا۔1 جعفر اور علی اپنے قدموں پر کھڑے ہونے تک بالترتیب حضرت عباس بن عبد المطلب اور رسالت مآب کے زیر کفالت و تربیت رہے۔ حضرت جعفر ’’السابقون الاولون‘‘ میں شامل تھے۔ ایک بار حضرت ابو طالب نے نبی صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی کو نماز پڑھتے دیکھا، سیدنا علی رسالت مآب کے دائیں طرف تھے۔ حضرت ابو طالب نے جعفر سے کہا، اپنے چچا زاد کے ساتھ نماز پڑھو، اس کے بائیں طرف کھڑے ہو جاؤ۔2

رسالت ماب سے مماثلت:
جعفر طیار کے بارے میں رسالت ماب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:
’’تو جسم کی ساخت اور اخلاق و عادات میں مجھ سے ملتا جلتا ہے۔‘‘ 3
اسی طرح فرمایا:’’تو مجھ سے اور میرے شجرہ سے ہے۔‘‘4 رسالت ماب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت جعفر طیار سے بے پناہ محبت تھی، آپ انھیں ان کی خدا ترسی اور غرباء و مساکین کے بارے فکرمندی کے سبب ابو المساکین کے نام سے پکارتے تھے۔5 ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ میں بھوک کی شدت کم کرنے کے لیے پیٹ پر پتھر باندھ لیا کرتا تھا۔ اپنے پاس بیٹھے ہوئے صحابہ سے قرآن کی آیات سنتا اور ان کے بارے میں سوالات کرتا، محض اس لیے کہ وہ مجھے لے جاکر کچھ کھلا پلا دیں۔ مسکینوں کے لیے سب سے بھلے جعفر بن ابو طالب تھے۔ ہمیں ساتھ لے جاتے اور گھر میں موجود کھانا کھلاتے۔ یہ بھی ہوا کہ وہ گھی کا خالی مشکیزہ اٹھا لائے اور ہم نے اسے پھاڑ کر اس میں چپکا ہوا گھی چاٹ لیا۔6 ابو ہریرہ ہی کا کہنا ہے: کوئی جوتی پہننے والا، سواری پر سوار ہونے والا اور اونٹ کے کجاوے میں بیٹھنے والا شخص ایسا نہیں، جو رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے بعد جعفر سے افضل ہو۔7

ہجرت حبشہ اور نمائندگی اسلام
حضرت جعفر بن ابو طالب کو حبشہ و مدینہ دونوں ہجرتوں کا شرف حاصل ہوا۔ رجب 5 نبوی(۶۱۵ء) میں رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ظاہراً قریش کی ایذا رسانیوں کو دیکھ کر صحابہ کو مشورہ دیا کہ وہ حبشہ (Abyssinia, Ethiopia) کو ہجرت کر جائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ کو بتایا کہ وہاں ایسا بادشاہ (King of Axum) حکمران ہے، جس کی سلطنت میں ظلم نہیں کیا جاتا۔ بعض مفکرین کے نزدیک اس ہجرت کے اور بھی کئی ایک عوامل ہیں، جن پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔ اگر فقط ایذا رسانیوں کا ہی مسئلہ ہوتا تو حضرت عمار اور حضرت بلال کو بھی ہجرت کرنی چاہیئے تھی۔ اس سلسلے میں خود حبشہ کا انتخاب بھی اہمیت کا حامل ہے، ورنہ مسلمان یمن یا کسی اور جانب بھی جا سکتے تھے۔ حبشہ کے انتخاب کی ایک وجہ تو سطور بالا میں بیان ہوئی کہ وہاں کا بادشاہ ظالم نہیں ہے، اس کے علاوہ اس بادشاہ کا خاندان قریش کی حیثیت سے آگاہ ہونا نیز عیسائی مذہب سے ہونا بھی حبشہ کے انتخاب کی وجہ ہے۔ مہاجرین کا دوسرا گروہ حضرت جعفر بن ابو طالب کی قیادت میں نکلا۔ کچھ لوگ اسے ہجرت ثانیہ کہتے ہیں، لیکن اصل میں یہ پہلی ہجرت ہی کا دوسرا مرحلہ تھا۔ حبشہ کی جانب ہجرت کرنے والے اصحاب اور ان کے اہل خانہ کی کل تعداد تراسی تھی۔ جن میں حضرت ابو بکر، حضرت عثمان بن عفان، حضرت ابو حذیفہ بن عتبہ، حضرت زبیر بن عوام، حضرت عبدالرحمان بن عوف، حضرت مصعب بن عمیر، حضرت عثمان بن مظعون، حضرت عامر بن ربیعہ، حضرت ابوسبرہ، حضرت سہیل بن بیضا اور ابو سلمہ جیسے جلیل و قدر صحابی بھی تھے۔

مشرکین مکہ کی حبشہ آمد
مشرکین مکہ کو جب علم ہوا کہ مہاجرین حبشہ میں اطمینان و سکون کی زندگی گزار رہے ہیں تو انھوں نے باہمی مشورہ سے عبدا بن ابو ربیعہ(یا عمارہ بن ولید) اور عمرو بن عاص کو بھیجا۔ نجاشی اور حبشہ کے تمام جرنیلوں اور مذہبی پیشواؤں کے لئے الگ الگ تحائف لے کر دونوں مکہ سے روانہ ہوئے۔ تب مکہ کا چمڑا بہت قیمتی سمجھا جاتا تھا، انھوں نے بہت سا چمڑا اکٹھا کیا۔ ہر وزیر اور پیشوا کو تحفہ نذر کیا اور کہا کہ ہمارے کچھ نادان نوجوانوں نے تمھارے ملک میں پناہ لے لی ہے۔ اپنی قوم کا دین چھوڑ دیا ہے اور تمھارے دین کو بھی اختیار نہیں کیا۔ سرداران قوم نے انھیں واپس لے جانے کے لیے ہمیں ذمہ داری دی ہے، ہم شاہ حبشہ سے یہ درخواست کریں گے تو ہماری تائید کرنا۔ آخر میں وہ نجاشی کے پاس پہنچے، اسے سجدہ کیا، عمرو اس کے دائیں اور عمارہ بائیں طرف بیٹھ گیا اور اپنی بات دہرائی۔ درباریوں نے ان کا مطالبہ مان لینے کا مشورہ دیا تو نجاشی غصے میں آگیا اور کہا کہ چند افراد نے تمام ہمسایہ قوتوں کو نظرانداز کرکے میرے پاس پناہ لی ہے۔ میں ان کو بات کرنے کا موقع دیئے بغیر کسی کے حوالے نہ کروں گا۔ چنانچہ مہاجرین کو دربار میں بلایا۔

جعفر طیار کی ترجمانی اسلام اور نجاشی سے مکالمہ
حضرت جعفر بن ابو طالب جو مہاجرین کے قائد تھے، نے بادشاہ کو سلام کرنے پر اکتفا کیا۔ اہل دربار نے درباری آداب اور تعظیم نہ بجا لانے پر اعتراض کیا تو حضرت جعفر نے کہا کہ ہم صرف ﷲ ہی کو سجدہ کرتے ہیں، پھر یوں گفتگو کی: ’’اے بادشاہ! ہم جاہلیت کی زندگی گزار رہے تھے، بتوں کی پوجا کرتے، مردار کھاتے، بے حیائی کے کام کرتے، رشتے ناتے توڑتے، پڑوسیوں سے برا سلوک کرتے اور ہمارا طاقتور کمزور کو کھا جاتا تھا۔ ان حالات میں ﷲ نے ہمارے اندر ہی سے ایک رسول مبعوث کیا، جس کی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے بشارت دی تھی اور ان کا نام احمد بتایا تھا۔ ہم ان کے حسب و نسب، سچائی، امانتداری اور پاک دامنی سے خوب واقف تھے۔ انھوں نے ہمیں دعوت دی کہ ﷲ کو ایک جانیں، اسی کی عبادت کریں اور ان بتوں سے بیزاری کا اظہار کر دیں، جن کی ہم اور ہمارے باپ دادا پوجا کرتے آئے تھے۔ صدق و امانت، صلۂ رحمی، پڑوسیوں سے حسن سلوک، حرام کاموں، قتل و خون ریزی، فحش باتوں، جھوٹ بولنے، یتیم کا مال کھانے اور پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے سے منع کیا۔ اس رسول اللہ نے ہمیں خدائے واحد کی بندگی کرنے اور اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ کرنے کا حکم دیا۔ انھوں نے ہمیں نماز پڑھنے، زکوٰۃ ادا کرنے اور روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ ہم نے ان کی تصدیق کی، ایمان لائے اور ان کے احکام کی پیروی کی تو قوم نے ہم پر زیادتیاں کرنا شروع کر دیں۔ ہمیں طرح طرح کی ایذائیں پہنچا کر بتوں کی پوجا کی طرف واپس لوٹانا چاہا۔ تب ہم نے آپ کے ملک میں پناہ لی۔ دوسروں کے بجائے آپ کو ترجیح دی، اس امید میں کہ آپ کے ہاں ہم پر ظلم نہ ہوگا۔"

نجاشی نے پوچھا، کیا تمھیں اس رسول اللہ کے لائے ہوئے کلام الٰہی میں سے کچھ یاد ہے؟ حضرت جعفر نے کہا ہاں۔ اس نے تلاوت کرنے کو کہا تو سیدنا جعفر نے سورۂ مریم کی ابتدائی آیات سنائیں:
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ
کھیٰعٓصٓ ذِکْرُ رَحْمَتِ رَبِّکَ عَبْدَہ زَکَرِیَّا اِذْ نَادٰی رَبَّہ نِدَآءً خَفِیًّا.(۱۔۳)
’’ﷲ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان، ہمیشہ رحم کرنے والا ہے۔
کھٰیٰعص۔ یہ تمھارے رب کی اپنے بندے زکریا پر مہربانی کا بیان ہے۔ جب انھوں نے اپنے پروردگار کو دھیمی آواز میں پکارا۔
‘‘ نجاشی کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے حتیٰ کہ داڑھی تر ہوگئی، دربار میں موجود پادریوں کے گریہ سے ان کے مصحف بھیگ گئے۔ نجاشی بولا: یہ کلام اور موسیٰ علیہ السلام کا لایا ہوا کلام ایک ہی چراغ سے نکلی ہوئی روشنی ہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ﷲ کے وہی رسول ہیں، جن کا ذکر ہم انجیل میں پاتے ہیں اور جن کی بشارت عیسیٰ علیہ السلام نے دی۔ اگر میں بادشاہت کا اسیر نہ ہوتا تو ان کی جوتیاں اٹھاتا۔ پھر قریش کے ایلچیوں سے پوچھا، کیا یہ تمھارے غلام ہیں؟ جواب ملا، نہیں۔ کیا تمھارا کوئی قرض ان کے ذمہ ہے؟ جواب آیا، نہیں۔ نجاشی نے کہا، چلے جاؤ! میں انھیں کبھی تمھارے حوالے نہ کروں گا۔

نجاشی سے صریح انکار سننے کے باوجود عمرو بن عاص نہ ٹلا۔ اس نے کہا کہ کل میں بادشاہ سے ایسی بات کروں گا کہ مسلمانوں کی خوشیوں پر پانی پھر جائے گا۔ وہ پھر دربار میں پہنچ گیا اور کہا کہ یہ لوگ عیسیٰ بن مریم کے بارے میں بڑی غلط باتیں کرتے ہیں۔ نجاشی نے سیدنا جعفر کو بلا کر اس باب میں اسلام کا نقطۂ نظر دریافت کیا تو انھوں نے جواب دیا، عیسیٰ ﷲ کا کلمہ اور اس کی روح ہیں، ﷲ نے کنواری مریم کی طرف اسے القا کیا، اس عفیفہ کو کسی بشر نے چھوا تھا، نہ پہلے اس کا کوئی بچہ ہوا تھا۔ نجاشی نے ایک تنکا اٹھایا اور کہا، جو تم نے عیسیٰ علیہ السلام کی حقیقت بتائی، اس میں اس تنکے جتنا اضافہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس پر پادریوں نے ناک بھوں چڑھائی۔ نجاشی حضرت جعفر طیار اور ان کے ساتھیوں سے مخاطب ہوا اور کہا، جاؤ! میرے ملک میں اطمینان و سکون سے رہو۔ جو تمھیں برا بھلا کہے گا، سزا جھیلے گا۔ اس نے قریش کے دیئے ہوئے تحائف واپس کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ ہمیں ان کی چنداں حاجت نہیں۔8

جعفر طیار کی آمد اور رسالت مآب کا استقبال
مدینہ میں غلبہ اسلام کے بعد رسالت مآب صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے نجاشی کے نام خط لکھا، جس میں اسے اور اس کی قوم کو اسلام کی جانب دعوت دی اور مہاجرین کو واپس بھیجنے کا کہا۔ جواب میں نجاشی نے حضرت جعفر طیار کے ہاتھوں پر دین اسلام قبول کیا اور رسالت مآب کی بیعت کی۔ نجاشی نے مہاجرین کے ہمراہ اپنے بیٹے ارہا کو بھیجا اور ارہا کی کشتی سمندر میں ڈوپ گئی، جبکہ مہاجرین کی کشتیاں حجاز کے ساحل تک پہنچ گئیں۔ رسالت مآب فتح خیبر کے بعد مدینہ کو لوٹنے کا ارادہ رکھتے تھے کہ حضرت جعفر طیار کی آمد ہوئی۔ رسالت مآب نے انھیں اپنے ساتھ چمٹا لیا، معانقہ کیا، آنکھوں کے درمیان پیشانی پر بوسہ لیا اور فرمایا، میں بہت خوش ہوں، معلوم نہیں، جعفر کے آنے سے یا خیبر فتح ہونے پر۔9 آپ نے انھیں خیبر کی غنیمت سے حصہ دیا اور مسجد نبوی کے پہلو میں گھر بنانے کے لیے جگہ عنایت فرمائی۔ سیدنا جعفر نے وہ تحائف آپ کو پیش کئے جو نجاشی اور اس کے بھتیجے ذومخمر نے بھیجے تھے۔

جنگ موتہ اور جعفر طیار کی شھادت
خاتم النبیین صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے دعوت اسلام کی غرض سے ایک وفد حارث بن عمیر کی سربراہی شاہ بصری کی جانب بھیجا۔ یہ وفد شام کے سرحدی علاقے بلقا کے مقام موتہ سے گزر رہا تھا کہ وہاں کے حاکم شرحبیل بن عمرو غسانی نے حارث کا گلا گھونٹا اور باقی ارکان کو شہید کر دیا۔ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے کسی ایلچی کی جان لینے کا یہ ایک ہی واقعہ ہوا۔ آپ نے شہداء کا بدلہ لینا اور شرحبیل کی تادیب کرنا ضروری سمجھا۔ عمرۂ قضا ادا کرکے آپ ذی الحجہ 7 ھ میں مدینہ پہنچے اور دو ماہ کے توقف سے جمادی الاولیٰ 8 ھ (۶۲۹ء) میں تین ہزار کا لشکر تیار کرکے زید بن حارثہ کو اس کا امیر مقرر کیا۔ خود جرف کے معسکر تشریف لے گئے اور لشکر کو روانہ فرمایا، زید کو سفید علم عطا کیا اور دعائے خیر و برکت کرکے فرمایا: ’’اگر زید شہید ہوئے تو جعفر بن ابو طالب امیر ہوں گے، اگر جعفر شہادت پا گئے تو عبدﷲ بن رواحہ ان کی جگہ لیں گے۔ وہ بھی شہادت سے سرفراز ہوئے تو مسلمان باہمی رضامندی سے اپنا امیر چن لیں۔‘‘10

شرحبیل کو جیش اسلامی کی روانگی کی خبر ملی تو اس نے مقابلے کے لیے دو لاکھ سپاہیوں (دوسری روایت: ایک لاکھ) پر مشتمل بڑی فوج تیار کی۔ بحیرۂ مردار کے ساحل پر، دریائے اردن کے مغربی کنارے سرزمین بلقا(موجودہ کرک) میں مشارف کے مقام پر دونوں لشکروں کا سامنا ہوا۔ زید نے چھ دن تک ضرب و فرار (hit and run) کی اسٹریٹیجی سے کام لیا۔ کبھی ایک مقام پر، کبھی دوسری جگہ سے، کبھی سامنے سے، کبھی پہلو سے آتے، دشمن کو جوابی کارروائی کرنے کا موقع نہ دیتے اور صحرا میں غائب ہو جاتے۔ ساتویں دن وہ سامنے (front) سے نمودار ہوئے، جونہی رومی فوج کے پرے بڑھنے لگے، انھوں نے پسپائی اختیار کر لی۔ رومی فوج نے ان کا پیچھا کیا، لیکن دو لاکھ کی فوج عجلت میں اپنی ترتیب قائم نہ رکھ سکی۔ موتہ کے مقام پر زید نے پلٹ کر بھرپور حملہ کرنے کا حکم دیا۔ سو صفوں پر مشتمل ایک چھوٹا سا حصہ ان کا ہدف بنا، جو حملے کی تاب نہ لا سکا۔ رومیوں نے راہ فرار پکڑی اور اپنے لشکر ہی کو روندتے ہوئے کھلے میدان کی طرف بھاگے۔ مسلمان سپاہی ان کے پیچھے پیچھے تھے۔ اسی اثناء میں زید بن حارثہ پر چاروں طرف سے وار ہو رہے تھے، زیادہ خون بہہ جانے سے گھوڑے سے گر پڑے اور جام شہادت نوش کیا۔

فرمان نبوی کے مطابق جعفر بن ابو طالب فوراً آگے بڑھے، اپنے سرخ گھوڑے سے اترے، اسے ذبح کیا، اسلحہ ہلکا کیا اور علم تھام کر پیادہ ہی لڑنا شروع کر دیا۔ اسلامی تاریخ میں اپنے گھوڑے کو ذبح کرکے جنگ میں کود جانے کی یہ اولین مثال تھی۔ ابن کثیر کہتے ہیں، ایسا انھوں نے اس لیے کیا کہ گھوڑا دشمن کے ہاتھ نہ لگ جائے۔ انھوں نے نوے (بخاری، رقم ۴۲۶۰: پچاس) سے زائد زخم کھائے، پہلے ان کا دایاں بازو کٹا، انھوں نے علم بائیں ہاتھ میں تھام لیا، پھر بایاں بازو کٹا، انھوں نے کٹے ہوئے بازووں سے اسے سہار لیا اور آخری دم تک جان فشانی سے لڑتے رہے۔ عباد اپنے رضاعی باپ سے روایت کرتے ہیں، جو جنگ موتہ میں شریک تھے، میں نے جعفر کو شہادت سے پہلے یہ شعر پڑھتے ہوئے سنا:
یاحبذا الجنۃ واقترابہا   طیبۃ و باردا شرابہا
والروم روم قد دنا عذابہا  کافرۃ بعیدۃ انسابہا
علیّ ان لاقیتہا ضرابہا

(کیا ہی خوش گوار ہے جنت اور اس کا قریب آنا، جس کا حال یہ ہے کہ وہ پاک ہے اور اس کی شراب ٹھنڈی ہے۔ رومی، رومیوں کا انجام قریب آگیا ہے، کافر اور دور کا نسب رکھنے والے ہیں۔ مجھ پر لازم ہے، ان کا سامنا ہو تو خوب تلوار زنی کروں۔) عبداﷲ بن عباس کہتے ہیں، رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما تھے، اسما بنت عمیس قریب بیٹھی ہوئی تھیں کہ آپ نے ہاتھ کے اشارے سے سلام کا جواب دیا۔ پھر فرمایا،’’جعفر بن ابو طالب جبرئیل اور میکائیل علیہما السلام کی معیت میں گزرے ہیں اور مجھے سلام کیا ہے۔ اسماء! تو بھی انھیں سلام کا جواب دے۔"11

شہادت جعفر طیار کے بعد اہل خانہ سے حضور اکرم کا طرز عمل
ابن سعد کی روایت ہے کہ آنحضرت صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے جعفر بن ابو طالب کے گھر جانے میں تین دن کا توقف کیا۔ ان کے گھر پہنچے تو فرمایا، آج کے بعد میرے بھائی پر مت رونا۔ پھر فرمایا، میرے بھتیجوں کو لے آؤ۔ وہ ابھی چھوٹے چھوٹے تھے۔ آپ نے انہیں پیار کیا، ساتھ چمٹایا اور نائی کو بلا کر ان کے سر منڈائے، پھر فرمایا، محمد بن جعفر ہمارے چچا ابو طالب سے مشابہت رکھتا ہے۔ عبد ﷲ بن جعفر کی جسمانی ساخت اور اس کے اخلاق مجھ سے ملتے جلتے ہیں۔ آپ نے عبد ﷲ کا ہاتھ پکڑا، اسے بلند کیا اور تین بار دعا فرمائی، اے ﷲ! تو جعفر کے اہل خانہ میں اس کا قائم مقام ہوجا، بہترین طریقے سے جس طرح تو اپنے نیک بندوں میں سے کسی کی جگہ پر کر دیتا ہے۔ عبدﷲکے ہاتھوں میں برکت ڈال دے۔ آپ نے اسماء سے کہا، تو تنگ دستی سے ڈرتی ہے، میں دنیا و آخرت میں ان بچوں کا ولی ہوں، ان کے باپ کی جگہ ہوں۔12

جعفر طیار کے پوتے اور میدان کربلا
عون‘‘، ’’محمد‘‘ اور ’’عبیداللہ‘‘ حضرت زینب اور عبداللہ بن جعفر کے بیٹے تھے، جو اپنی والدہ کے ہمراہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی نصرت کے لئے کربلا آئے تھے۔ انھوں نے جب اپنے ماموں اور اپنے زمانے کے امام کی تنہائی دیکھی تو ایک ایک کرکے میدان کارزار میں اترے اور اپنی جانیں اسلام عزیز پر قربان کر دیں۔ ’’عون‘‘ اپنی والدہ زینب سلام اللہ علیہا کی فکرمند آنکھوں کے سامنے میدان کی جانب گئے جبکہ یہ رجز پڑھ رہے تھے:
ان تنکرونی فانابن جعفر
شہید صدق فی الجنان ازھر
یطیر فیھا بجناح اخضر
کفی بھذا شرفا فی المحشر

ترجمہ: اگر تم مجھے نہیں جانتے تو جان لو، میں جعفر کا بیٹا ہوں، وہی جو صدق و حقیقت کی راہ میں شہید ہوکر فردوس بریں میں چمک رہے ہیں، وہی جو جنت کے اوپر سبز پروں کے ذریعے پرواز کر رہے ہیں اور یہی نسب و شرف روز محشر کے لئے کافی ہے۔ ان تینوں بھائیوں نے اپنے دادا کی راہ پر چلتے ہوئے کربلا کے میدان میں اپنی جانیں اسلام کے لیے نچھاور کیں۔ حضرت جعفر طیار کی بہو جناب زینب سلام اللہ علیہا کا آبیاری اسلام میں کردار کسی سے پنہاں نہیں ہے، بقول علامہ محمد اقبال
حدیث عشق دو باب است کربلا و دمشق
یکے حسین کرد دیگرے زینب


حضرت جعفر طیار اہل بیت کی فضیلت
واقعہ کربلا کے بعد جب امام زین العابدین اسراء کے ہمراہ شام پہنچے اور دربار یزید میں انہیں بلوایا گیا تو انھوں نے جو خطبہ ارشاد فرمایا، اس میں اپنا تعارف یوں کروایا۔ اللہ کے نام سے جو بہت رحم والا نہایت مہربان ہے۔ لوگو! خدا نے ہمیں چھ امتیازات اور سات فضیلتوں سے نوازا ہے؛ ہمارے چھ امتیازات علم، حلم، بخشش و سخاوت، فصاحت، شجاعت، اور مؤمنین کے دل میں ودیعت کردہ محبت سے عبارت ہیں۔ ہماری ساتھ فضیلتیں یہ ہیں: خدا کے برگزیدہ پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہم سے ہیں۔ صدیق امیر المؤمنین علی بن ابی طالب ہم سے ہیں۔ جعفر طیار ہم سے ہیں۔ شیر خدا اور شیر رسول خدا حمزہ بن عبد المطلب سید الشہداء ہم سے ہیں۔ اس امت کے دو سبط حسن و حسین علیہ السلام ہم سے ہیں۔ زہرائے بتول سلام اللہ ہم سے ہیں اور مہدی امت ہم سے ہیں۔

مدفن
جعفر بن ابو طالب کا مقبرہ اردن کے ضلع کرک(Kerak) کی بستی مزار جنوبی میں ہے، جو موجودہ دارالخلافہ عمان سے 140 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ جعفر کے مزار کو داؤدی فرقہ کے 52ویں امام محمد برہان الدین نے سونے اور چاندی سے مزین کرایا۔
اولاد
عبداﷲ بن جعفر کی شادی زینب بنت علی سے ہوئی۔ عون بن جعفر کا بیاہ ام کلثوم بنت علی سے ہوا۔ عبداللہ کے بیٹے عبید ﷲ، عون اور محمد کربلا میں شہید ہوئے، محمد بن جعفر اور عون بن جعفر کی کوئی اولاد نہ ہوئی۔
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
1۔ ابن هشام،‌سیره النبویه، مصطفی سقا و ابراهیم آبیاری، قاهره، 1355، ج 1، ص 263
2۔ ابن عساکر، تاریخ مدینه، ‌دمشق، بیروت، چاپ علی شیری، ج 72، ص 127و 126
3۔ (بخاری، رقم ۴۲۵۱، مسند احمد، رقم ۸۵۷)
4۔ (مسند احمد، رقم ۲۱۷۷۷)
5۔ (ترمذی، رقم ۳۷۶۶)
6۔ (بخاری، رقم ۳۷۰۸)
7۔ (ترمذی، رقم ۳۷۶۴، مسند احمد، رقم ۹۳۵۳)
8۔ (مسند احمد: ۴۴۰۰،۲۲۴۹۸)
9۔ (مستدرک حاکم، رقم ۴۹۴۱)
10۔ (بخاری، رقم ۴۲۶۱)
11۔ (مستدرک حاکم، رقم ۴۹۴۵)
12۔ (ابودؤد، رقم ۴۱۹۲، مسند احمد، رقم ۱۷۵۰)
خبر کا کوڈ : 776731
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش