5
Thursday 21 Mar 2019 17:48

امریکی سامراج کیخلاف ونیزویلا کی استقامت

امریکی سامراج کیخلاف ونیزویلا کی استقامت
تحریر: عرفان علی

اپنی آزادی و خود مختاری پر ڈٹے ہوئے بعض ممالک ایک طویل عرصے سے امریکی اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا کانٹا بنے ہوئے ہیں۔ شمالی و جنوبی امریکا دو براعظم ہیں اور دونوں میں امریکا کی سامراجی مداخلت کی ایک طویل تاریخ ہے۔ آج کل یونائٹڈ اسٹیٹس آف امریکا کی ٹرمپ حکومت براعظم جنوبی امریکا کے لاطینی ملک ونیزویلا کے اندرونی معاملات میں اعلانیہ مداخلت کر رہی ہے۔ تمام قانونی و اخلاقی حدود کو پاؤں تلے روندتے ہوئے امریکا اور اسکے اتحادی مغربی ممالک خاص طور پر فرانس، جرمنی اور برطانیہ نے صدر نکولس مادورو کے عہدے پر ہوتے ہوئے انکے مخالف وین گواڈو کو عبوری صدر تسلیم کر لیا ہے اور تازہ ترین اطلاعات یہ ہیں کہ امریکا نے چینی حکومت کو دھمکی دی ہے کہ اگر بیجنگ میں اگلے ہفتے منعقد ہونے والے انٹر امریکن ڈیوپلمنٹ بینک کے سالانہ اجلاس میں وین گواڈو کے حمایت یافتہ ریکارڈو ہازمن کو وینزویلا کے نمائندے کی حیثیت سے شرکت کی اجازت نہیں دی تو امریکا اس اجلاس کا بائیکاٹ کرے گا۔ اسکے علاوہ تازہ ترین اقدامات میں امریکی ملٹی نیشنل سٹی گروپ نے ونیزویلا کے اس کئی ٹن سونے کو فروخت کرنے کا منصوبہ تیار کر لیا ہے، جو ونیزویلا کی حکومت نے 1.6 بلین ڈالر قرض کے بدلے گروی رکھوایا گیا تھا اور اس کو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے جو آخری تاریخ مقرر کی گئی تھی وہ گذر چکی ہے۔ گیارہ مارچ تک صدر مادورو کی حکومت نے سٹی گروپ کے سٹی بینک کو 1.1 بلین ڈالر کی ادائیگی کرنا تھی۔

موجودہ بحران امریکا، ونیزویلا کشیدہ تعلقات کا تسلسل ہے اور یہ کشیدگی ہیوگو شاویز کی صدارت کے دور میں اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی۔ بولیویرین ری پبلک ونیزویلا تین کروڑ سولہ لاکھ سے زائد نفوس پر مشتمل ایسا ملک ہے، جس کی 96 فیصد آبادی کیتھولک مسیحی ہے جبکہ پروٹسٹنٹ مسیحی آبادی کل کا 2 فیصد ہے۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ امریکی جاسوس ادارہ سی آئی اے وینزویلا کی غالب اکثریتی آبادی کو برائے نام کیتھولک مسیحی قرار دیتا ہے۔ ہیوگو شاویز بھی مسیحی تھے، البتہ ونیزویلا کے وفاقی صدارتی نظام میں انکا سیاسی نظریہ سوشلزم تھا اور انہوں نے اپنے دور حکومت میں ایسی اصلاحات متعارف کروائیں کہ انکے دشمن ادارے سی آئی اے نے اس حد تک ضرور تسلیم کیا کہ 1999ء میں ونیزویلا میں غربت کی جو شرح 50 فیصد تھی، شاویز کے دور حکومت میں 2011ء میں اسکی شرح 27 فیصد ہوگئی تھی۔ یاد رہے کہ شاویز نے امریکی سامراجیت کی مخالفت کرکے اپنے ملک سے غربت کم کی تھی، اسی لئے انکے ساتھ امریکی حکومت کا رویہ معاندانہ تھا۔ سامراج مخالفت میں شاویز تنہا نہیں تھے بلکہ بولیویا سمیت دیگر ممالک بھی انکے شانہ بشانہ کھڑے تھے۔

اس دور میں امریکی حکومت کے اہم عہدیداروں کے خوف کا یہ عالم تھا کہ براعظمی سطح کے اجلاسوں میں بھی شرکت سے گریزاں رہا کرتے تھے۔ ایک مثال رابرٹ گیٹس کی ہے، جو سال 2006ء تا 2011ء امریکا کے وزیر دفاع رہے۔ انہوں نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتاب ڈیوٹی کے گیارہویں باب میں ایک ایسے ہی اجلاس کا تذکرہ کیا ہے۔ براعظم امریکا کے ممالک کے وزرائے دفاع کی کانفرنس نومبر 2010ء میں بولیویا میں ہو رہی تھی۔ وہاں انکی موجودگی میں امریکی حکومت کی دیگر ممالک میں مداخلت پر شدید تنقید کی گئی۔ وہاں انہیں ایک ایسے ہوٹل میں ٹھہرایا گیا، جہاں صرف پنکھا میسر تھا، کوئی ایئر کنڈیشنر نہ تھا۔ وہ اس کانفرنس میں شرکت نہیں کرنا چاہتے تھے اور اسکی وجہ انہوں نے خود یہ بیان کی: 
ٍٍٰIn a conference hosted by the government of virulently anti-American leftist Bolivian leader Evo Morales, I foresaw a full day of getting pounded by my Bolivian hosts and their buddies from Hugo Chavez's Venezuela.

یعنی انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ میزبان بولیویا سمیت شاویز کے دوست انہیں آڑے ہاتھوں لیں گے، اس کے باوجود انہوں نے شرکت اس لئے کی کہ برازیل اور کینیڈا کے وزرائے دفاع نے انہیں شرکت پر راضی کیا۔ ان دو ملکوں نے میزبان بولیویا حکومت سے درخواست کی کہ وہ ریاستہائے متحدہ امریکا کے حوالے سے کانفرنس میں ادب، آداب کو ملحوظ خاطر رکھے۔ باوجود این درخواست، وہاں امریکی سفیروں کی دیگر ممالک میں مداخلت کا تذکرہ کرکے انہیں شرمندہ کیا گیا اور وہ جلد سے جلد اس اجلاس کو ختم ہونے کا انتظار کرتے رہے اور جونہی اجلاس ختم ہوا، فوری طور بولیویا سے بذریعہ طیارہ ٹیک آف کرگئے۔ بعض لاطینی امریکی وزرائے خارجہ نے انکے پاس جاکر معذرت کا اظہار بھی کیا تھا کہ لاطینی امریکا کی میزبانی کے آداب اس کی اجازت نہیں دیتے اور یہ ان کے شایان شان نہیں تھا کہ اس طرح کیا جاتا۔ یہ ایک مثال تھی جبکہ دوسری مثال لیون پنیٹا کی ہے جو 2009ء تا 2011ء امریکی جاسوس ادارے سی آئی اے کے سربراہ رہے۔ یعنی جب گیٹس وزیر دفاع کی حیثیت سے بولیویا گئے، تب پنیٹا سی آئی اے کے ڈائریکٹر تھے۔ پنیٹا نے اس خطے میں امریکی مداخلت کا اعتراف کیا۔
We were keeping tabs on Venzuela's brusque and bative leader, Hugo Chavez, and those in Nicragua and Ecuador who were following Chavez's lead.

رابرٹ گیٹس کے بعد پنیٹا امریکا کے وزیر دفاع بنے۔ وہ نہ صرف شاویز بلکہ نکاراگوا اور ایکواڈور کے حکمرانوں کے بھی خلاف تھے کہ یہ لوگ امریکی سامراج کے لئے اکھڑ مزاج رہنما ہوا کرتے تھے۔ یہ دو مثال بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جارج بش جونیئر کی صدارت اور اوبامہ دور حکومت میں بھی امریکی حکومت ونیزویلا کے نہ صرف خلاف تھی بلکہ اسکے خلاف اقدامات میں بھی مصروف تھی۔ امریکی حکومت کی نظر میں جہاں شاویز کی دیگر سامراج دشمن پالیسیاں اسکا جرم ہوں گی، وہیں یہ حقیقت بھی کہ جب امریکا اور یورپی یونین سمیت بہت سے دیگر ممالک نے اقوام متحدہ کے ماتحت بین الاقوامی ادارہ برائے ایٹمی توانائی کے بورڈ اجلاس میں ایران کے خلاف ستائیس ووٹوں کی بنیاد پر قرارداد منظور کی تھی، اس وقت کیوبا اور شام کے علاوہ ونیزویلا تیسرا ملک تھا، جس نے امریکی بلاک کی پیش کردہ قرارداد کی مخالفت میں ووٹ ڈالا تھا۔

پھر یہ ہوا کہ مائیکل پومپیو امریکی سی آئی اے کے سربراہ بنے تو انہوں نے بھی ونیزویلا کے خلاف اقدامات پر کام کیا۔ ایسپن انسٹی ٹیوٹ کے تحت کولوراڈو میں 20 جولائی 2017ء کو انہوں نے ایسپن سکیورٹی فورم میں سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی کا نقطہ نظر پیش کیا۔ وہاں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے جو بات کہی تو درمیان ایک قہقہ بھی بلند ہوا۔ انکا کہنا تھا کہ جب بھی وہ جنوبی امریکا یا وسطی امریکا اور سی آئی اے (کے حوالے سے) کی بات کرتے ہیں تو بہت محتاط ہوتے ہیں، کیونکہ اس حوالے سے بہت سی داستانیں ہیں! اس بات پر قہقہ بلند ہوا کیونکہ اس خطے کی ایسی کی تیسی میں امریکی سی آئی اے نے ماضی میں جو مداخلت آمیز کردار ادا کیا، اسکی تفصیلات ڈی کلاسیفائیڈ کی جاچکی ہیں، اس لئے وہاں شرکاء اچھی طرح جانتے تھے کہ پومپیو کے کہنے کا مقصد کیا تھا۔ اسی خطاب کی بنیاد پر ونیزویلا میں شاویز کے جانشین موجودہ صدر نکولس مادورو نے امریکی سی آئی اے، کولمبیا اور میکسیکو کی حکومتوں پر مشتمل مثلث پر ونیزویلا کی حکومت گرانے کی سازش کا الزام لگایا تھا۔

واشنگٹن میں ونیزویلا کے سفارتکاروں نے صحافیوں کو بریفنگ بھی دی تھی۔ حتیٰ کہ برطانیہ کے روزنامہ انڈی پینڈنٹ نے بھی 25 جولائی 2017ء کو پومپیو کے اس خطاب کی جو خبر شایع کی تھی اس کا عنوان یہی تھا: 
CIA chief hints agency is working to change Venezuelan government یعنی سی آئی اے کے سربراہ کا اشارہ کہ انکا ادارہ ونیزویلا کی حکومت کی تبدیلی کے لئے کام کر رہا ہے، کیونکہ پومپیو نے کہا تھا کہ
The Colombians, I was just down in Mexico City and in Bogota a week before last talking about his very issue trying to help them understand the things they might do so that they can get a better outcome for their part of the world and our part of the world.

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر برائے امور قومی سلامتی جون بولٹن نے یکم نومبر 2018ء کو میامی ڈیڈ کالج کے فریڈم ٹاور میں آدھے گھنٹے جو خطاب کیا، اس میں بھی ونیزویلا کے خلاف اقدامات کا اشارہ دیا۔ انکے مطابق اب امریکا اس خطے میں کیوبا، نکاراگوا اور ونیزویلا کے خلاف سخت لائن لے گا، ان پر پابندیاں لگائے گا، ان سے سفارتی تعلقات منقطع کر دے گا، تاوقتیکہ وہ امریکی مطالبات مان لیں۔ اسی طرح پومپیو وزیر خارجہ بننے کے بعد بھی براعظم امریکا میں مصروف رہے۔ خاص طور پر 31 دسمبر تا 2 جنوری انکا دورہ کولمبیا و برازیل اور وہاں ونیزویلا کے خلاف ماحول سازی، اور ساتھ ہی یکم جنوری کو برازیل میں اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتنیاہو سے ملاقات اور وہاں ایران، شام اور حزب اللہ کے خلاف بیان بھی دیا۔ صہیونی جیوش لابی نے براعظم امریکا اور خاص طور پر لاطینی امریکا کے سامراج دشمن ممالک پر ایک الزام یہ بھی لگا رکھا ہے کہ وہاں حزب اللہ لبنان کے افراد کا نیٹ ورک موجود ہے اور امریکی صحافی بوب وڈورڈ نے بھی ٹرمپ حکومت پر لکھی گئی اپنی کتاب ’’خوف‘‘ میں امریکی حکومت کے حوالے سے یہ نکتہ بیان کیا ہے۔

اس طرح امریکی بلاک بیک وقت ایک تیر سے کئی شکار کرنے کا ایجنڈا رکھتا ہے۔ یعنی ونیزویلا کی حکومت کو مشرق وسطیٰ کے ان اسرائیلی مخالفین سے جوڑا جا رہا ہے، جس کا دور دور تک کوئی باہمی ربط پایا نہیں جاتا۔ لیکن اس طرح ٹرمپ حکومت امریکا کی جیوش، اسرائیلی لابی کی اندھی حمایت حاصل کرنا چاہتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ بدنام زمانہ نیو کنزرویٹو (نیوکونز) گروپ کے انتہا پسند ایلیٹ ابرامز کو وزیر خارجہ پومپیو نے وینزویلا کے لئے خصوصی نمائندہ مقرر کیا ہے۔ ریگن دور میں امریکا کے تخلیق کردہ اور تربیت کردہ ایل سلواڈور کے فوجی یونٹ نے اس ملک کے گاؤں میں ایل موزوٹ گاؤں میں ایسی بدترین کارروائی کی کہ جو انسان نظر آیا، اسے مار دیا۔ 11 دسمبر 1981ء کو یہ سانحہ ہوا تو اگلے دن ایلیٹ ابرامز کو معاون وزیر خارجہ برائے انسانی حقوق مقرر کر دیا گیا، تاکہ وہ اس انسانیت دشمن کارروائی اور قتل عام کی پردہ پوشی کرسکے۔ ابرامز نے امریکیوں کو یہ کہہ کر گمراہ کیا کہ وہ قتل عام تو حکومت مخالف کمیونسٹ گوریلا تحریک کا جھوٹا پروپیگنڈا ہے۔ اسی طرح نکاراگوا میں انکے غیر قانونی کردار و مداخلت کے ایشو پر ابرامز نے دو مرتبہ امریکی کانگریس کے سامنے بھی جھوٹ بولا اور اس پر انہیں سزا بھی سنائی گئی تھی۔ بش جونیئر کی صدارت میں ابرامز انکے مشیر برائے مشرق وسطیٰ تھے، تب عراق جنگ کی حمایت کی تھی۔ 1980ء کے عشرے میں وسطی امریکا کے ممالک کے ڈیتھ اسکواڈ سے انکا تعلق تھا اور بش جونیئر کے دور حکومت میں شاویز حکومت کے خلاف ایک بغاوت میں بھی انہی کا ہاتھ تھا، البتہ وہ بغاوت ناکام ہوگئی تھی۔ یہ شخص کٹر صہیونی ہے۔

ونیزویلا کے منتخب صدر نکولس مادورو کے خلاف وین گواڈو کی پشت پناہی کرکے اسکو ونیزویلا کا عبوری صدر مان لینا، امریکی حکومت کی اس ملک کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت کا ناقابل تردید ثبوت ہے اور جو پس منظر ہم نے یہاں بیان کیا ہے، اس کو مدنظر رکھیں تو یہ ماضی کی امریکی حکومتوں کی بھی خواہش رہی ہے، جس پر وقتاً فوقتاً کام ہوتا رہا ہے۔ شاویز کے جانشین کا مخالف ونیزویلا میں کوئی بہت زیادہ معروف یا مشہور یا عوامی سطح پر مقبول رہنما نہیں سمجھا جاتا تھا۔ وہ قانون ساز اسمبلی کا رکن تھا اور بعد میں اسکا اسپیکر بنا۔ ونیزویلا پر امریکا کی سامراجی نگاہ کی ایک اور وجہ یہ حقیقت بھی ہے کہ دنیا میں خام تیل کے سب سے زیادہ معلوم ذخائر ونیزویلا میں ہیں۔ پٹرولیم برآمد کرنے والے ممالک کی عالمی تنظیم اوپیک کے پانچ بانی اراکین میں سے ایک ونیزویلا بھی ہے۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ اور کارپوریٹو کریسی ونیزویلا کے تیل کی وجہ سے اس پر للچائی ہوئی نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ بولٹن، پومپیو ہی نہیں بلکہ خود امریکی صدر ٹرمپ نے بھی ونیزویلا اور کیوبا کے خلاف اقدامات سے متعلق بیانات جاری کئے تھے۔

ونیزویلا میں بھی مسائل ہوسکتے ہیں، لیکن جو مسائل ونیز ویلا میں ہیں، وہ کس ملک میں نہیں ہیں؟ امریکا جو الزامات ونیزویلا پر لگا رہا ہے، ذرا اپنے ان معیارات کے تحت ایک نظر اپنے اتحادی ممالک پر بھی ڈال لے، ایک طرف منتخب صدر مادورو بھی قبول نہیں تو دوسری طرف موروثی شیوخ و شاہ و ڈکٹیٹر حتیٰ کہ جمال خاشقچی کے قاتلوں سے بھی امریکا کو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ونیزویلا میں کس طرح کی حکومت ہو، کون حکمران ہو، یہ فیصلہ وہاں کے عوام نے آزادانہ اور اپنے ملکی قوانین کے تحت ہی طے کرنا ہے، جس طرح امریکی حکومت ونیزویلا کے قوانین یا انکے نظریئے کے تحت اپنے ملک کا صدر منتخب کرنا پسند نہیں کرے گی، بالکل اسی طرح ونیزویلا کے عوام بھی اپنے ملک میں ٹرمپ، پومپیو، بولٹن یا ان جیسوں کی مرضی کا حکمران لانا پسند نہیں کرتے۔ البتہ پابندیاں لگا کر، پراکسیز کی سرپرستی کرکے مصنوعی بحران ایجاد کرنا اور اسے جمہوری تحریک قرار دینا، امریکا کا پرانا حربہ ہے۔ براعظم امریکا کے بیشتر ممالک کو امریکا کی سامراجی مداخلت کا تلخ تجربہ بھی ہے، اس لئے لگتا نہیں کہ ونیزویلا میں امریکا کی دال گلے گی۔ ونیزویلا کی فوج نے مادورو حکومت کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔

کیوبا سے اوبامہ نے تعلقات بحال کئے، لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ کیوبا امریکی اسٹیبلشمنٹ کی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہا ہے، اس لئے اس پر بھی امریکا دوبارہ ناراض ہوچکا ہے۔ نکاراگوا تو وہ بدقسمت ملک ہے کہ اسکے عوام تو ببانگ دہل بولٹن کو جواب دے سکتے ہیں کہ میاں جون بولٹن تاریخ پڑھو تو معلوم ہوگا کہ نکاراگوا کے عوام کی نظر میں استبدادیت کی مثلث امریکا، اسرائیل اور سعودی عرب ہے، نہ کہ کیوبا، ونیزویلا اور نکاراگوا۔ بولٹن کو معلوم نہ ہو تو ایلیٹ ابرامز سے پوچھ لیں، ورنہ ڈی کلاسیفائیڈ دستاویزات پڑھ لیں۔ ایک طرف صورتحال کی نزاکت یہ ہے کہ امریکا نے ونیزویلا کی فوج کو بھی دھمکی دے رکھی ہے۔ روس کا کہنا ہے کہ امریکا نے براہ راست فوجی یلغار کے آپشن پر بھی سوچ رکھا ہے۔ دوسری طرف روس، چین، ایران، ترکی اور کیوبا سمیت بہت سے ملک ونیزویلا کے صدر مادورو کی حکومت کی حمایت اور امریکی مداخلت کی مخالفت کر رہے ہیں۔

مادورو پرعزم دکھائی دیتے ہیں۔ حکومت نے وین گواڈو کے چیف آف اسٹاف رابرٹو ماریرو کو حراست میں لے لیا ہے اور ان سے اور انکے باڈی گارڈ کے قبضے سے اسلحہ بھی برآمد کیا گیا ہے۔ وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ ماریرو کی گرفتاری دہشت گردی کے سیل کے خلاف کارروائی کی ایک کڑی ہے۔ صدر نکولس مادورو کو قتل کرنے کی سازش کے سلسلے میں ان سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔ ایلیٹ ابرامز نے کہا ہے کہ امریکا نے تمام آپشن کھلے رکھے ہیں، البتہ فوجی آپشن اس وقت زیر غور نہیں ہے۔ ونیزویلا غیر یقینی صورتحال کے نرغے میں ہے اور صدر مادورو اور ونیزویلا کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ فوج اور عوام کی مقاومت پر منحصر ہے اور تاحال یہ دونوں صدر مادورو کے ساتھ ہیں۔ اسی طرح روس اور چین کا کردار بھی بہت اہمیت کا حامل ہے کہ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی سفارتکاری میں ونیزویلا کے صدر مادورو ان دونوں کی حمایت کے بغیر امریکا کو خارجہ محاذ پر شکست دینا ممکن نہیں ہوگا!
خبر کا کوڈ : 784540
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش