0
Saturday 30 Mar 2019 11:14

جمال خاشقچی بارگینک کا بہانہ

جمال خاشقچی بارگینک کا بہانہ
اداریہ

2 اکتوبر 2018ء کے دن ترکی کے شہر استنبول میں قائم سعودی قونصل خانے میں ایک معروف عرب صحافی جمال خاشقچی ایسا غائب ہوا کہ اٹھارہ دن تک اس کی کسی کو خبر تک نہ ہوئی۔ اٹھارہ دن کی عالمی کمپین کے بعد سعودی عرب کے استبدادی حکمرانوں نے بالآخر قبول کیا کہ جمال خاشقچی قونصل خانے میں داخل ہوئے تھے اور وہ قونصل خانے میں اسٹاف کے ساتھ کسی جھگڑے میں قتل ہو گئے۔ بعد میں ان کے قتل کے طریقہ کار اور وجوہات کے بارے میں بھی متعدد داستانیں اور حقائق سامنے آئے۔ موجودہ صدی میں کسی کو اپنے سفارتی مرکز میں بلا کر جس لرزہ خیز انداز میں قتل کیا گیا، وہ ہزاروں سالہ قدیمی بدو عربوں کی قبائلی تاریخ کی یاد دلاتی ہے، البتہ جاہلیت کے اس ماحول میں بھی دشمن کے مقاصد، مہمان اور لاعلمی میں قتل کرنے کو قبائلی اقدار کے خلاف سمجھا جاتا تھا۔ آج کا شاہی سعودی خاندان قبل از اسلام کے جاہلانہ قبائلی نظام کی عکاسی کر رہا ہے، جہاں پوری اسٹیٹ کو قبائلی طور پر چلایا جا رہا ہے، ایک باپ کے متعدد بیٹے گذشتہ کئی عشروں سے سرزمین حجاز پر مسلط ہیں اور ملک کے تاریخی قدیمی نام حجاز کو اپنے خاندان کے نام سے منسوب کر دیا گیا ہے۔ آل سعود خاندان ملک کے اندر جس طرح کے فاشزم کا مظاہرہ کرتا ہے، اس حوالے سے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی رپورٹیں حقائق کو عیاں کر رہی ہیں۔ تیس ہزار سے زائد قیدی بغیر کسی عدالتی سماعت اور فرد جرم کے سعودی ٹارچر سیلوں اور عقوبت خانوں میں گل سڑ رہے ہیں۔

آیت اللہ باقر النمر جیسی آوازوں کو گردنیں اڑا کر فورا خاموش کر دیا جاتا ہے۔ انسانی حقوق، آزادی بیان، جمہوریت اور اس طرح کے دیگر موضوعات سعودی ریاست سے کوسوں دور ہیں۔ سعودی خانداں کے جواں سال وزیر دفاع اور ولی عہد نے اپنے قبائلی اقدار و اطوار کو ملک سے باہر بھی نافذ کرنے کی کوشش کی اور یمن کے شہریوں کو صرف اس بات پر کہ انھوں نے آل سعود کی ڈکٹیشن کو قبول کرنے انکار کیا ہے، گذشتہ چار سالوں سے ایسی جارحیت کا نشانہ بنایا ہے کہ عرب دنیا کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں ہے۔ ایک عرب ملک کے ہاتھوں ایک غریب عرب ملک پر وحشیانہ جارحیت عرب لیگ اور خلیج فارس تعاون کونسل جیسے عرب اداروں کی پیشانی پر ایسا کلنک کا ٹیکہ ہے، جسے عرب حکمران چاہیں بھی تو نہ بھلا سکتے ہیں اور نہ چھپا سکتے ہیں۔ عالمی برادری کے دبائو پر اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل بان کی مون نے سعودی عرب کو یمن کے بچون کے قتل عام کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے بچوں کی قاتل حکومتوں کی فہرست میں شامل کیا تھا لیکن جب سعودی عرب نے اقوام متحدہ کو اپنی مالی امداد منقطع کرنے کی دھمکی دی تو بچوں کی قاتل حکومتوں سے سعودی عرب کا نکال دیا گیا۔

آج ایک بار پھر اقوام متحدہ نے جمال خاشقچی کے قتل کے الزام میں گرفتار گیارہ مشتبہ ملزمان کی خفیہ سماعت کو عالمی معیار کے برعکس قرار دیتے ہوئے اوپن ٹرائل کا مطالبہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ کی تشکیل شدہ تین رکنی کمیٹی کے سربراہ  اگیس کیلامارڈ نے پہلے مرحلے میں حراست میں لیے گئے ملزمان کے نام سامنے لانے کا مطالبہ کیا ہے۔ جمال خاشقچی کے قتل کا انصاف کے عالمی معیارات پر ٹرائل ہو گا یہ اقدام ناممکن نظر آتا ہے اور یہ بھی ثابت شدہ ہے کہ جمال خاشقچی کے اصل قاتل کا نام بھی کبھی منظرعام پر نہیں آئے گا البتہ آگاہ اور باوثوق ذرائع تو پہلے ہی تصدیق کر چکے ہیں کہ قتل کا حکم بن سلمان کی طرف سے دیا گیا تھا لیکن کیا اس گھناونے اقدام میں شریک پوری ٹیم اور ان کے اعترافات ممکن ہیں؟ اس حوالے سے اس سازش میں شریک افراد کے مشکوک قتلوں اور غائب ہونے کی خبریں تواتر سے سامنے آ رہی ہیں۔ جمال خاشقچی کا قتل امریکہ، ترکی سمیت بعض ممالک کے لیے بڑے نفع کا سودا ثابت ہوا ہے۔ اقوام متحدہ بھی اوپن ٹرائل کا مطالبہ کر کے اپنی بارگینک پاور بڑھا کر مالی امداد کا بڑا پیکج لے سکتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 785968
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش