1
Thursday 1 Aug 2019 22:30

ابوظہبی اپنی اسٹریٹجک غلطیوں کے ازالے کیلئے کوشاں

ابوظہبی اپنی اسٹریٹجک غلطیوں کے ازالے کیلئے کوشاں
تحریر: محمد مرادی

متحدہ عرب امارات خطے کا سب سے زیادہ نازک مزاج ترین ملک سمجھا جاتا ہے کیونکہ تمام ہمسایہ ممالک کی نسبت اس ملک میں سکیورٹی کا ایشو سب سے زیادہ اثرانداز ہوتا ہے۔ متحدہ عرب امارات کی بعض ریاستیں جیسے دوبئی میں اقتصاد اور معیشت کو پہلی ترجیح حاصل ہے جبکہ ان ریاستوں کی اقتصادی ترقی میں سب سے اہم موثر اور کارفرما عامل بھی سکیورٹی اور امن و امان کی مکمل بحالی کا ہی ہے۔ اسی وجہ سے جب بھی متحدہ عرب امارات کو سکیورٹی خطرات کا سامنا ہوا ہے دوبئی کی انڈیکس باقی تمام ریاستوں سے زیادہ متزلزل اور متاثر ہوئی ہے۔ اس کے باوجود گذشتہ دس برس سے ابوظہبی نے دیگر ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے ہوئے خطے کے حالات پر اثرانداز ہونے اور اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ اس سلسلے میں متحدہ عرب امارات نے یمن کے خلاف جنگ میں شریک ہو کر، شام میں تکفیری دہشت گرد عناصر کی حمایت کر کے اور لیبیا اور سوڈان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے ذریعے خطے میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی کوشش انجام دی۔
 
ایران کے خلاف امریکہ کو فوجی حملے کیلئے اکسانے میں بھی متحدہ عرب امارات پیش پیش رہا ہے۔ اس کی ایک مثال اسلامی جمہوریہ ایران کی حدود میں داخل ہونے والا وہ ڈرون طیارہ ہے جسے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے مار گرایا تھا۔ اس امریکی ڈرون طیارے نے متحدہ عرب امارات میں موجود امریکی ہوائی اڈے سے اڑان بھری تھی لہذا اس واقعے کے بعد ایران نے متحدہ عرب امارات کے نائب سفیر کو وزارت خارجہ بلا کر احتجاج بھی کیا تھا۔ لیکن اب ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ متحدہ عرب امارات کی یہ خارجہ پالیسی اپنے اختتام کو پہنچنے والی ہے اور متحدہ عرب امارات خطے سے متعلق اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کر رہا ہے۔ اس بارے میں متحدہ عرب امارات نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ یمن میں اپنے فوجیوں کی تعداد میں کمی کرنے والا ہے۔ لبنان سے شائع ہونے والا ڈیلی الاخبار لکھتا ہے کہ ابوظہبی نے حال ہی میں ایران کو یہ پیغام بھیجا ہے کہ وہ یمن کی جنگ سے باہر نکلنے کیلئے ایران کی مدد کا محتاج ہے۔ درحقیقت متحدہ عرب امارات یمن میں 52 ماہ سے جاری جنگ میں نہ صرف مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کر سکا بلکہ اس ملک کی اپنی قومی سلامتی بھی خطرے میں پڑ گئی ہے۔
 
دوبئی کے حاکم محمد بن راشد آل مکتوم نے انصاراللہ یمن کی جانب سے حملوں کا نشانہ بننے کے خطرے کا احساس کرتے ہوئے ابوظہبی کے ولیعہد محمد بن زاید آل نہیان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ یمن کی جنگ سے باہر نکل آئیں۔ متحدہ عرب امارات کے اندر سے موصول ہونے والی رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دوبئی کے حاکم نے محمد بن زاید سے ایک اہم میٹنگ کی ہے جس میں انہوں نے بن زاید کو بتایا ہے کہ دوبئی انصاراللہ یمن کی جانب سے کسی حملے کا نشانہ بننے کی طاقت نہیں رکھتا اور ابوظہبی کی موجودہ خارجہ پالیسی جاری رہنے کی صورت میں متحدہ عرب امارات کی علاقائی سالمیت خطرے سے دوچار ہو سکتی ہے۔ لہذا ابوظہبی اپنی خارجہ پالیسی پر نظرثانی پر مجبور ہو گیا ہے اور خطے خاص طور پر یمن سے متعلق اپنی پالیسیوں کا دوبارہ جائزہ لینے کا فیصلہ کر چکا ہے۔ دوسرا مسئلہ ایران سے متعلق ہے۔ گذشتہ سالوں کے دوران متحدہ عرب امارات نے ایک طرف سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کی ایران مخالف پالیسیوں اور فیصلوں کی پیروی کی ہے جس کے نتیجے میں ایران سے اس کے تعلقات کم ترین سطح تک نیچے آ چکے ہیں، جبکہ دوسری طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباو پر مبنی پالیسی میں ان کا ساتھ دیتے ہوئے اپنی سرزمین امریکہ کے حوالے کر رکھی ہے۔
 
لیکن خلیج فارس میں تناو بڑھنے اور ایران کی جانب سے جبل الطارق میں اپنا تیل بردار جہاز روک لئے جانے کے بدلے میں برطانوی تیل بردار جہاز روک لینے کے بعد متحدہ عرب امارات اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ موجودہ حالات میں علاقے میں تناو کی شدت بڑھانے والی پالیسیوں کے نتیجے میں اپنی قومی سلامتی کا تحفظ یقینی نہیں بنا سکتا۔ لہذا متحدہ عرب امارات نے ایران سے تناو کم کرنے کی پالیسی اختیار کر لی۔ اس سلسلے میں متحدہ عرب امارات کی کوسٹل گارڈز کے سربراہ حمد علی مصباح الاحبابی کی سربراہی میں ایک حکومتی وفد منگل کے روز ایران آیا اور ایران کی رینجرز کے سربراہ جنرل قاسم رضائی سے ملاقات کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ مذاکرات 6 سال کے تعطل کے بعد انجام پائے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے اس وفد کے ایران دورے کی اہمیت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے ردعمل میں سعودی عرب نے متحدہ عرب امارات پر غداری کا الزام عائد کیا ہے۔ متحدہ عرب امارات کی بنیادی کمزوریوں نے اس ملک کے حکمرانوں کو اس نتیجے پر لا کھڑا کیا ہے کہ انہیں علاقے میں تناو بڑھانے والی پالیسیوں خاص طور پر ایران دشمنی پر مبنی پالیسیوں سے پیچھے ہٹنا پڑے گا۔
خبر کا کوڈ : 808343
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش