0
Monday 7 Oct 2019 11:11

جنگ یمن اور عراق و پاکستان کی ثالثی

جنگ یمن اور عراق و پاکستان کی ثالثی
اداریہ

یمن کے مجاہدین نے جب سے سعودی عرب میں آرامکو پر ڈرون حملہ کیا ہے، سعودی عرب کا سکون غارت ہو گیا ہے۔ سعودی عرب اس بے چینی کی کیفیت سے نکلنے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہا ہے، لیکن اس کی انا اس کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ بن گئی ہے۔ سعودی عرب کے ولی عہد بن سلمان اور عادل عبدالجیر کے بیانات میں ہم آہنگی کم ہو رہی ہے۔ عادل جیبر نے میڈیا میں آنے والی ان خبروں کے بارے میں کہا سعودی عرب، پاکستان اور عراق کو ایران کے ساتھ ثالثی کے لیے استعمال کرنا چاہ رہا ہے۔ صرف اتنا کہا ہے کہ مذاکرات میں بھی اس کو پہل کرنا چاہیے، جس نے جارحیت میں پہل کی تھی البتہ عادل الجبیرکے بیان میں مذاکرات اور بات چیت سے انکار نظر نہیں آ رہا، دوسری طرف سعودی ولی عہد بن سلمان بھی کہہ چکے ہیں کہ مسئلہ کا حل جنگ میں نہیں۔

پاکستان اور عراق کی ثالثی کی خبر کو ایران نے بھی درست قرار دیا ہے اور سعودی حلقے بھی اس کا انکار نہیں کر رہے، اختلاف صرف اس پر ہے کہ ثالثی کا آغاز کس طرف سے ہو۔ دنیا جانتی ہے کہ یمن پر جنگ و جارحیت کا آغاز سعودی عرب نے کیا، جبکہ ایران پہلے دن سے اس بات پر زور دے رہا ہے کہ یمن کے مسئلے کا حل جنگ نہیں اور فوری جنگ بندی مذاکرات کر کے مذاکرات کے سلسلے کو آگے بڑھایا جائے۔ ایران کے وزیر خارجہ اس سے پہلے بھی خطے کے ممالک کو جنگ بندی اور بیرونی جارحین کے خلاف مشترکہ دفاعی اتحاد بنانے کی تجویز دے چکے ہیں، اس موقع پر اگر پاکستان اور عراق ثالثی کا کردار نبھانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ امت مسلمہ پر احسان اور خطے کو ایک جنگ کی مزید تباہی سے بچانا ہے۔ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق سعودی عرب یمن جیسے غریب ملک سے برابری کی سطح پر مذاکرات نہیں کرنا چاہتا اور وہ اس جنگ سے باوقار انداز سے باہر آنا چاہتا ہے۔

اسی تناظر میں انصار اللہ یمن کے سیاسی دفتر کے ایک رہنما عبدالوہاب المحبشی نے المیادین ٹی وی چینل سے گفتگو میں کہا ہے کہ اگر سعودی ولی عہد یمن جنگ سے باعزت طریقے سے نکلنا چاہتے ہیں، تو سابق سعودی بادشاہ کے کسی مشیر سے رابطہ کریں کہ اس سے پوچھیں کہ 2010ء میں سعودی عرب کس طرح یمن سے نکلا تھا۔ عبدالوہاب کے بقول سعودی عرب نے 2009ء مین صعدہ پر حملہ کیا تھا اور چار مہینے بعد سعودی عرب کو اس بات کا یقین ہو گیا تھا کہ صعدہ پر قبضہ ممکن نہیں، لہذا وہ اس جنگ سے نکلنے کی فکر میں پڑے اور بالاخر مسئلہ حل ہو گیا۔ سعودی عرب کو اب بھی سوچ لینا چاہیے کہ آرامکو جیسی کاروائی دوبارہ بھی انجام پا سکتی ہے، لہذا بہتر ہے کہ عراق اور پاکستان کو واسطہ بنا کر اس جارحیت کا خاتمہ کرے۔ یہ جنگ جتنی طول پکڑے گی، سعودی عرب بالخصوص آل سعود کے زوال کا وقت اتنا قریب آنا شروع ہو جائے گا۔ سعودی عرب کو یمن کی آبادیوں پر حملے روک دینے چاہیں اور یمن کے مظلوموں کو محاصرہ ختم کر دینا چاہیے، یقینا اس کے جواب میں یمنی مجاہدین بھی مذاکرات کی میز پر آ جائیں گے اور پاکستان اور عراق بھی ایران کو ساتھ ملا کر اس جنگ کو ختم کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ 
خبر کا کوڈ : 820542
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش