0
Wednesday 25 Dec 2019 09:22

عرب دنیا میں نئی صف بندیاں

عرب دنیا میں نئی صف بندیاں
اداریہ
خلیج فارس کے عرب ممالک میں تیل اور گیس کی دریافت نے ان ممالک کی اسٹریٹیجک اور اقتصادی پوزیشن کو اس طرح بدل دیا کہ مشرق و مغرب کے سامراج نے ان قدرتی ذخائر کو لوٹنے کے لیے ان ممالک پر نظریں گاڑھ دیں۔ برطانیہ کے بعد امریکہ نے مختلف حیلے بہانوں سے ان ممالک کا جو استحصال کیا، اُس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ خلافت عثمانیہ کا شیرازہ بکھرنے سے لیکر ایرانو فوبیا سب اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ خلیج فارس کے قدرتی ذخائر پر بالواسطہ قبضے کیلئے عالمی سامراج نے دو بڑے کام کیے، ایک اس علاقے میں اسرائیل جیسی ریڈیکل صہیونی نظریات کی حامل ریاست کا غیر قانونی قیام عمل میں لایا، دوسرا ان ممالک پر مختلف خاندانوں من جملہ آلِ سعود، آلِ نہیان، آلِ صباح اور اسی طرح کی دیگر "آلوں" کی ڈکٹیٹر شپ کو مسلط کر دیا۔ شاہی خاندانوں کے خلیج فارس کے مختلف ممالک پر آمرانہ تسلط اور سامراجی حمایت نے یہ مواقع فراہم کر دیئے کہ ان خاندانوں نے اس خطے کے قدرتی ذخائر کی اپنی مرضی اور منشاء سے لوٹ مار کی۔

ان خاندانوں نے قومی دولت کی لوٹ مار کے جو ریکارڈ قائم کیے، وہ ان خاندانوں کے شہزادوں کی شاہ خرچیوں سے باآسانی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ آج کی عرب دنیا مختلف بلاکوں میں تقسیم نظر آتی ہے۔ اگرچہ ان ممالک کو عرب لیگ اور خلیج فارس تعاون جیسے علاقائی اتحادوں میں منظم کرنے کی کوشش کی گئی ہے، لیکن اس کے باوجود یہ ممالک اپنی اپنی وابستگیوں کے حوالے سے مختلف جزیروں میں جڑے نظر آتے ہیں۔ سعودی عرب نے ہمیشہ ان ممالک پر غلبہ حاصل کرنے کی کوششیں کی ہیں، لیکن تمام عرب ممالک سعودی عرب کی سپرمیسی یا غلبہ کو تسلیم نہیں کرتے۔ امریکہ دوستی اور ایران دشمنی کے حوالے سے بھی عرب ممالک کے حکمرانوں میں واضح خلیج نظرآتی ہے۔ اس وقت سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات اور مصر، سعودی لابی میں ہیں، جبکہ قطر ان کے مقابلے میں مختلف علاقائی اور عالمی فورموں پر آواز اٹھاتا رہتا ہے۔ عمان اور کویت وکٹ کے دونوں طرف کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں۔

جبکہ شمالی افریقہ میں موجود لیبیا بھی قطر اور سعودی عرب کے درمیان کشمکش کا ایک بڑا میدان ہے۔ ایران اور قطر کے درمیان قربتیں بھی سعودی عرب کو زہر لگتی ہیں۔ سعودی عرب بظاہر او آئی سی، عرب لیگ اور خلیج تعاون کونسل میں غالب ہے، لیکن قطر نے ملائیشیاء میں ترکی، ملائیشیاء، انڈونیشیا اور ایران سے مل کر ایک نئے اتحاد کا عندیہ دیکر آلِ سعود و آل خلیفہ کے شاہی درباروں میں صف ماتم بچھوا دی ہے۔ مصر کی فوجی حکومت چونکہ امریکی امداد سے چلتی ہے، لہٰذا وہ امریکی احکامات، اخوان المسلمین کا تعصب اور ان کی دشمنی میں آل سعود کا ساتھ دیتی ہے۔ البتہ ان دونوں میں اسرائیل دوستی مشترکات میں شامل ہے۔ تازہ ترین رپورٹوں کے مطابق سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان بن عبداللہ اور خلیج فارس تعاون کونسل کے سیکرٹری عبداللطیف الزیانی نے سکیورٹی، دفاع اور سیاسی استحکام کے تحفظ کے لیے ایک مشترکہ کمانڈ سنٹر تشکیل دینے کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔

موجودہ حالات میں عرب ممالک کے باہمی اختلافات اور مختلف مواقع پر مختلف طرح کے اتحاد تشکیل دینا عام بات نہیں بلکہ اس کے پیچھے امریکی سامراج کے مفادات پوشیدہ ہیں۔ ان مفادات کا نچوڑ اسرائیل کا تحفظ اور ایران کے اثر و رسوخ کو روکنا ہے۔ امریکہ ان اہداف کے حصول کے لیے کبھی امریکہ عرب و عجم کے اختلافات کو ابھارتا ہے اور کبھی سنی شیعہ کا مسئلہ اٹھا کر ایرانو فوبیا کا ماحول بناتا ہے۔ عرب ممالک کے درمیان اختلافات اور ایران سے کشیدگی کے خاتمے کا ایک ہی راہِ حل ہے کہ خطے کے تمام ممالک مل کر کسی ایک مشترکہ نقطہ پر پہنچ کر داخلی سلامتی اور بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لیے مشترکہ اتحاد تشکیل دیں اور بیرونی طاقتوں کے مفادات کے تحفظ کی بجائے خطے کے عوام کی فلاح و بہبود اور امت مسلمہ کی ترقی و پیشرفت کے لیے عملی اقدامات انجام دیں۔
خبر کا کوڈ : 834700
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش