0
Tuesday 21 Jan 2020 02:15

شہریت ترمیمی بل، کیا شاہین باغ کا شاہینِ احتجاج پورے ملک پر چھا سکے گا؟

شہریت ترمیمی بل، کیا شاہین باغ کا شاہینِ احتجاج پورے ملک پر چھا سکے گا؟
تحریر: سید نجیب الحسن زیدی

دہلی کے شاہین باغ میں این آر سی اور سی اے اے اور این آر پی کے سلسلے میں ہونے والے احتجاج کی چنگاریاں اب پورے ملک میں پھیلتی نظر آرہی ہیں۔ بنارس،  لکھنو، کانپور، الہ آباد جیسے  شہروں سے ہوتے ہوئے یہ احتجاج اب بنگال کے کلکتہ اور بہار میں پٹنہ کے سبزی باغ تک جا پہنچا ہے، جس برق رفتاری سے یہ تحریک پوری ملک میں پھیل رہی ہے اور خواتین جس بے باکی سے اس تحریک کا حصہ بن رہی ہیں، اسے دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب اپنے آپ میں امن و شانتی کی ایک مثال شاہین باغ کا یہ شاہینِ احتجاج پورے ملک میں پھیل جائے گا اور سوئی ہوئی حکومت وقت کو ایک دن جاگنا پڑے گا اور ان شاء اللہ اپنے حقوق و ملک کی بقاء کے لئے لڑنے والوں کو ضرور کامیابی ملے گی۔

خوش آئند بات:
اس احتجاج کی سب سے بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ یہ رنگ، نسل، مذہب اور قوم و قبیلہ سے ماوراء ہے اور الحمد للہ اس بات کو لیکر کہ یہ کسی ایک قوم کا نہیں بلکہ ملک کا مسئلہ ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ  دیگر مذاہب کے لوگوں میں زبردست بیداری دیکھنے کو مل رہی ہے اور بہت ہی منظم طور اور پرامن طریقے سے اپنی باتوں کو ملک کے گوشے گوشے میں حکومت وقت کے سامنے رکھا جا رہا ہے، یہ ایک بہت ہی خوش آئند بات ہے۔ اسی طرح اگر اپنے موقف پر ڈٹے رہے تو ان شاء اللہ کامیابی نصیب ہوگی۔ بس ہمیں اس بات کا دھیان رکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ معاملہ محض مسلمانوں سے مخصوص نہ ہونے پائے اور اسی بنا پر نعروں سے لیکر احتجاج کی کیفیت تک، ہر جگہ ہمیں خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ دشمن ہماری کسی بات سے غلط فائدہ نہ اٹھائے۔ ایسے عناصر پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے، جو اس احتجاج میں شامل ہو کر ممکن ہے، ایسے نعرے  لگا بیٹھیں، جن کا مظاہرین کو نقصان اٹھانا پڑے اور میڈیا پورے ملک کو سر پر اٹھا لے، جیسا کہ بعض جگہوں پر دیکھنے میں آ رہا ہے۔ جو کچھ اس احتجاج میں سرے سے ہوا ہی نہیں ہے، میڈیا اسے دکھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ لہذا احتجاج کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ دشمن کہاں سے تیر چلا رہا ہے، کہیں ہماری ہی صفوں میں شامل ہو کر ہمیں بدنام کرنے کی کوشش تو نہیں ہو رہی ہے۔؟

جذبوں کو ٹھنڈا کرنیوالوں سے ہوشیار:
ٹھٹھرنے والی سردی میں زیر آسمان بیٹھ کر دہلی کی بہادر و بے باک خواتین نے جس طرح احتجاج کیا ہے، وہ ہندوستان کی تاریخ میں ایک مثال ہے۔ ممکن ہے کچھ لوگوں کے ذہنوں میں یہ خیال پیدا ہو کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ گھر سے باہر نکل کر مسلسل دھرنا دینا اور احتجاج کرنا کہاں کی عقلمندی ہے، جیسا کہ کچھ لوگ اس طرح کی باتیں کر بھی رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کی دو قسمیں ہوسکتی ہیں، کچھ اپنے ہوسکتے ہیں، کچھ وہ ہوسکتے ہیں، جو سرے سے شہریت بل اور حکومت کے حامی ہیں۔ حکومت کے جو حامی ہیں، وہ تو یہ باتیں کریں گے ہی، لیکن اگر کچھ ایسے لوگ ہیں، جنکا تعلق اس بل کی مخالفت کرنے والوں سے ہے اور وہ میڈیا کے زہر کا شکار ہو کر جانے انجانے ایسی باتیں کر رہے ہیں کہ اس احتجاج کا فائدہ کیا ہے تو ایسے لوگوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ بات ہماری اپنی نہیں ہے، بات ملک کی سالمیت اور اس کی بقا کی ہے۔ ہمارا ملک خطرے میں ہے، ایسے میں ہم کیونکر خاموش بیٹھ سکتے ہیں۔

علاوہ از ایں ایسے لوگوں کو اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جو لوگ اتنی سردی اور ٹھنڈک میں اپنے بچوں کو لیکر پرامن احتجاج کر رہے ہیں، کوئی ان کے دل سے پوچھے کہ کس طرح اپنا گھر بار چھوڑ کر دھرنے پر بیٹھے ہیں، جبکہ انہیں معلوم ہے کہ ہر طرف انکے خلاف باتیں ہو رہی ہیں، یہاں تک کے بعض بکے ہوئے افراد ان پر الزام تراشیاں بھی کر رہے ہیں۔ ایسے میں ان کا ہی دل جانتا ہے کہ انہوں نے کیوں یہ انتہائی قدم اٹھایا ہے۔ یقیناً وہ اپنے بچوں اور گھر کو لے کر ہم اور آپ سے زیادہ فکر مند ہیں، لیکن اگر وہ باہر بیٹھے ہیں تو محض اپنے لئے نہیں بیٹھے ہیں، بلکہ ملک و قوم کے لئے بیٹھے ہیں، وہ ملک کی تباہی کو دیکھ رہے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ اگر یہ ملک اپنی صحیح ڈگر پر نہیں پلٹا تو یہاں رہنے والا کوئی بھی باشندہ خوش نہیں رہ سکے گا، ان کے بچوں کا کوئی مستقبل نہیں ہوگا، لہذا وہ مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔

ہندوستان کا نازک دور اور ہماری ذمہ داری:
 اگر ہم ہندوستان کی تاریخ پر نظر ڈالیں اور گزرے ہوئے دور کے ساتھ آج کی اپنی حالت پر غور کریں گے تو پائیں گے کہ اس وقت ہم ایک انتہائی نازک دور سے گزر رہے ہیں، ایسا دور جس کی تاریخ ِ ہندوستان میں نظیر نہیں ہے، ملک کے حالات کبھی اس قدر سنگیں نہیں تھے، جتنے اب ہیں۔ کیا کبھی ایسے حالات ہوئے ہیں کہ انسان میڈیا کے زور پر سفید کو سیاہ اور سیاہ کو سفید ماننے لگے، کیا ہندوستان میں کبھی ایسا ہوا ہے کہ گرتی ہوئی معیشت کے باوجود سارے میڈیا کی توجہ ملک کے بنیادی مسائل پر نہ ہو کر ایک خاص فکر کو مل جل کر آگے بڑھانے پر ہو؟ سارے پروگرام  اور ڈیبیٹس میں کوشش ہو کہ ایک خاص فکر کی چھاپ چھوڑی جا سکے؟ ایک خاص جماعت کا کلمہ پڑھوایا جا سکے؟ نہ صرف اتنا بلکہ ذرا سی مخالفت کرنے والے کو گرفتار کر لیا جائے اور قانون کے رکھوالے ہی قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے مظلوموں پر لاٹھی ڈنڈے برسائیں؟ ملک سے باہر نکل جانے کی بات کریں؟ اور خود ہندوستانیوں سے کہا جائے کہ جہاں سے آئے ہو، وہاں واپس چلے جاو۔

 آج ہمارے ملک میں جو لاقانونیت ہے، وہ سب کے پیش نظر ہے، جو مظالم ہو رہے ہیں، سب کے سامنے ہیں۔ آسام میں شہریت بل کی مخالفت کرنے والوں کے ساتھ کیا ہوا۔ ہمارے سامنے ہے یو پی کے دلخراش واقعات، ہمارے سامنے ہیں اور چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ حکومت کی منشاء کیا ہے۔ ایسے میں ہمیں بہت سوچ سمجھ کر منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اور یہ بات بھی ہمیں یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ جو کچھ اب ہو رہا ہے، اپنے نوعیت کے اعتبار سے وہ سب کچھ ایسا ہے، جس کی مثال تاریخ نہیں لاسکتی۔ نہ ہونے والے ظلم کی، نہ ظلم کو سہہ کر حق کے لئے ڈٹے ہوئے مظلوموں کی ہمت کی۔

یہ ظلم پہلی بار نہیں ہے:
 یقیناً ایسا نہیں ہے کہ پہلے یہ مظالم نہیں ہوتے تھے، ظلم اس سے پہلے بھی تھا، ظلم اب بھی ہے، لیکن بات شدت کی ہے کہ اتنی شدت کبھی نہیں تھی اور جو بربریت کا ننگا ناچ ہے، اب چل رہا ہے، ایسا کبھی نہیں ہوا، آپ اگر  ہندوستان کی سابقہ تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو نظر آئے گا کہ 1857ء کے واقعات اور 1919ء کی نان کوآپریشن موومنٹ کے موقع پر جو کچھ تھا، وہ ہمہ گیریت کے لحاظ سے آج کے جیسا ہی تھا۔ 1857ء میں ملک بھر میں حرکت پائی جا رہی تھی۔ 1919ء میں بھی پورے ملک میں انگریزوں کی مخالفت اور ان کے چنگل سے آزادی کی تحریک پھیلی ہوئی تھی، شک نہیں کہ 1919ء کی تحریک اس اعتبار سے زیادہ مضبوط بھی تھی کہ اس میں عدم اطاعت و نافرمانی کی بات شامل تھی۔ انگریزوں کے ظالمانہ قوانین کی پیروی نہ کرنا، اس تحریک کا حصہ تھا اور اس تحریک کی خاص بات یہ تھی کہ مسلمان اس میں آگے آگے تھے، ملکی سطح پر یہ تحریک معاشرہ کے ہر فرد کو متاثر کر رہی تھی، اس تحریک کے بعد سے لیکر اب تک کہیں ایسا دیکھنے میں نہیں آیا کہ کوئی ہمہ گیر تحریک شروع ہوئی ہو، جو ہندوستان کے ہر طبقے کی آواز بن کر ابھری ہو ۔ اس میں کسان بھی ہوں، سرکاری عہدہ داران بھی اور رٹائرڈ افسر بھی اور نہ صرف اتنا ایسے لوگ بھی شامل ہوں، جنہوں نے اس تحریک کا حصہ بننے اور شہریت کے قانون کی مخالفت کے لئے اپنے بڑے بڑے عہدوں کو چھوڑ دیا ہو۔

 ایک بہترین موقع:
 ہمیں  ایک بار پھر یہ موقع ملا ہے کہ ایک عظیم نصب العین کو لیکر ایک تحریک کا آغاز  کریں، اس تحریک کی ایک بار پھر یہ خصوصیت ہے کہ اپنے دیگر مذاہب و ادیان سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ اس میں پہلے ہی کی طرح ایک بڑا کردار مسلمانوں کا ہے۔ یہ ایک بڑی نعمت ہے۔ تقریباً سو سال کے بعد مسلمانوں کو یہ موقع فراہم ہوا ہے، جبکہ وہ ملک کے تئیں اپنی وفاداری کو ثابت کرتے ہوئے ملک کو بچانے کے لئے آگے آئیں، موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے سب کو مل کر آگے بڑھنا ہوگا۔ ہمیں یہاں پر دیکھنا ہوگا کہ دشمن کیا چاہ رہا ہے، اگر ہم دشمن کو دیکھیں گے تو اندازہ ہوگا کہ دشمن ہمیں ایک دوسرے سے لڑانا چاہتا ہے، دشمن کی نظر میں اہم یہ ہے کہ مسلمانوں کو غیر مسلموں سے جدا کیا جائے۔ سب اگر ساتھ ہوں تو ملک کی تعمیر میں ایک بڑا کردار ادا کیا جا سکتا ہے۔ آپس کا اتحاد جہاں بڑے بڑے مسائل کو حل کرنے کا سبب ہے، وہیں ملک دشمن عناصر کی گھبراہٹ کا سبب بھی ہے، چنانچہ ہم دیکھیں تو نظر آئے گا کہ آج ہمارا دشمن گھبرایا ہوا نظر آتا ہے، اسے توقع نہیں تھی کہ ایسا ہونے والا ہے، اسے توقع نہیں تھی کہ مسلمانوں میں کوئی جرات باقی ہے اور اسے اس بات کی تو ہرگز توقع نہیں تھی کہ دوسری اقوام مسلمانوں کے ساتھ کھڑی ہوں گی، آواز اٹھائِیں گی اور مقابلہ کریں گی۔

لہذا دشمن کی چال یہ ہے کہ وہ اس تحریک کو ایک مذہب سے جوڑ کر ایک خاص فکر کو ٹارگٹ کرے، یہی وجہ ہے کہ مسلسل اس تحریک کو محض مسلمانوں سے متعلق بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسے میں ہمیں اس بات کو غنیمت سمجھنا کہ ہمارے ساتھ ہر مذہب اور قوم کے لوگ ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا ہے کہ 100 سال کے بعد جو موقع ملا ہے، اسے نہ گنوائیں، ہرگز اپنی صفوں میں پھوٹ نہ پڑنے دیں اور نہ ہی ایسا کچھ کریں، جس سے محسوس ہو کہ ہم محض اپنے لئے لڑ رہے ہیں، بلکہ ہمیں کوشش کرنا چاہیئے کہ ہم دنیا کو پیغام دے سکیں کہ ہم اس ملک کے لئے لڑ رہے ہیں اور اس لڑائی میں سبھی ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔ اس وقت تک ہم لڑتے رہیں گے، جب تک ہماری بات نہیں سنی جائے گی۔ ان شاء اللہ بہت جلد ہی شاہین باغ کا یہ  شاہین ِاحتجاج پورے ملک میں چھا کر فتح و کامرانی کے نغمے سنائے گا۔
خبر کا کوڈ : 839688
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش