0
Monday 27 Jan 2020 09:41

بن سلمان سے بن زائد تک

بن سلمان سے بن زائد تک
اداریہ
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ڈکٹیٹر ایران کے اسلامی انقلاب کے شروع ہی سے مخالف اور دشمن تھے۔ لیکن شاہ عبداللہ ہو یا یو اے ای کے سابق ڈکٹیٹر، سفارتی اور ظاہری طور پر بڑے سنجیدہ اور گہرے لوگ تھے۔ وہ ایران کی دشمنی اور اسرائیل کی حمایت میں اس طرح کھل کر نہیں آتے تھے، جیسے آج کل کے عرب حکمران بالخصوص بن سلمان اور بن زائد نے رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ ان عرب ممالک کی ایران سے سرد جنگ گذشتہ چالیس برسوں سے جاری ہے اور ان چالیس برسوں میں امریکہ نے عرب ممالک کو کبھی ایرانو فوبیا، کبھی شیعہ ہلال اور کبھی حزب اللہ جیسی تنظیموں کا ڈراوا دیکر اپنا مطیع و فرمانبردار بھی رکھا اور جدید اور مہنگے ہتھیار بیچ کر اپنی زوال پذیر ہتھیاروں کی صنعت کو بھی رونق بخشی۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ماضی کے حکمران اپنی چادر سے زیادہ پاؤں نہیں پھیلاتے تھے اور ایک مخصوص دائرے کے اندر رہ کر دوستیاں اور دشمنیاں نبھاتے تھے۔

جبکہ جب سے اقتدار بن سلمان اور بن زائد جیسے بلند پرواز ولی عہدوں کے پاس آیا ہے، انہوں نے اپنے پر و بال کو اپنی حدود اور اپنے قد کاٹھ سے زیادہ بڑھانا شروع کر دیا ہے، البتہ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ان کی ان حرکتوں میں ڈونالڈ ٹرامپ کے داماد کوشنر کا بڑا عمل دخل ہے، لیکن یہ دونوں شہزادے جس سرعت سے خطے کے مسائل کو کشیدگی کی طرف لے جا رہے ہیں، اس کا سب سے زیادہ نقصان شیشے میں رہنے والے ریاض اور دبئی کے باشندوں کو بہت جلد اٹھانا پڑیگا۔ تازہ ترین خبریں سوڈان سے مل رہی ہیں، جہاں متعدد خاندانوں نے متحدہ عرب امارات کی ایمبیسی کے سامنے مظاہرہ کیا ہے کہ ان کے بچوں کو دبئی وغیرہ میں نوکری دلانے کے بہانے متحدہ عرب امارات لے جایا گیا ہے اور اب ان سوڈانی بے روزگاروں کو فوجی ٹریننگ کیمپوں میں لے جا کر لیبیا اور یمن کی جنگ میں جھونکنے کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔

ان سوڈانی خاندانوں نے میڈیا کو وہ معاہدے بھی دکھائے، جن میں نوجوانوں کو روزگار کا جھانسہ دیکر یو اے ای لے جایا گیا۔ سوڈان میں یہ مظاہرے آج خرطوم وغیرہ تک محدود ہیں اور اگر مستقبل قریب میں فوجی تربیت سے فراغت کے بعد یہ سوڈانی نوجوان یمن اور لیبیا کی آگ کا ایندھن بننے کی بجائے دوبئی، شارجہ اور متحدہ عرب امارات کے مختلف تجارتی اداروں اور مارکیٹوں میں اپنے جائز مطالبات کے لیے میدان میں آگئے تو یو اے ای کا شیشے کا بنا سارا تجارتی سلسلہ ساحل سمندر پر بنائے گئے ریت کے گھروندوں کی طرح ایک جھٹکے سے زمین بوس ہو جائیگا۔ کہاوت مشہور ہے کہ جو ہاتھی پالتے ہیں، انہیں دروازے بھی اونچے رکھنے پڑتے ہیں۔ بن زائد اور بن سلمان جن ہاتھیوں کو پالنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس کے لیے جن دروازوں کی ضرورت ہے، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں وہ ناپید ہیں۔ ان شہزادوں کے بارے میں بس یہی کہا جا سکتا ہے؎ "اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی"
خبر کا کوڈ : 840926
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش