0
Wednesday 12 Feb 2020 20:17

مہنگائی کی شرح میں خطرناک اضافہ، عام آدمی پر کیا گزر رہی ہے؟

مہنگائی کی شرح میں خطرناک اضافہ، عام آدمی پر کیا گزر رہی ہے؟
رپورٹ: ایس ایم عابدی

موجودہ حکومت اپنے نئے کپتان اور پرانے کھلاڑیوں کے ساتھ میدان میں اتری تو ظاہر ایسا کیا جا رہا تھا کہ اب سب کچھ تبدیل ہو جائے گا اور ایک نیا و خوشحال پاکستان شہریوں کا مقدر ہوگا۔ شہری بھی اس سراب کے پیچھے بھاگ رہے تھے، مگر جب حقیقت سامنے آئی تو اندازہ ہوا کہ کپتان اور ان کی کابینہ کی کارکردگی پرانے پاکستان سے بھی بدتر ہے۔ بے روزگاری، بدامنی، ملکی معیشت کی تباہی، قرضوں میں اضافہ، غرض یہ کہ کسی ریاست کی مضبوطی و خوشحالی کے تمام اشارے مسلسل گرے اور گرتے ہی جا رہے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں اگر ہم متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ایک عام آدمی کی زندگی پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیں تو انتہائی تلخ حقائق سامنے آتے ہیں۔ موجودہ حکومت کے نئے پاکستان میں عوام کو جس چیز نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا وہ مہنگائی کا سونامی تھا۔ اس سونامی نے سب سے پہلے عام آدمی کی قوت خرید کو متاثر کیا۔

حکومت کی جانب سے پیش کیا جانے والا بجٹ تو اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ ہوتا ہے، جسے سمجھے کے لئے طویل جمع تفریق کرنی پڑتی ہے، مگر متوسط طبقے کا گھریلو ماہانہ بجٹ انتہائی سادہ ہوتا ہے، جس کے لئے کسی اسٹیٹ بینک یا وزیر خزانہ کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ ہی لمبی چوڑی جمع تفریق درکار ہوتی ہے۔ ایک عام آدمی کی بھاگ دوڑ تین وقت کے کھانے، بچوں کی پرورش اور ان کے بجلی و گیس کے بل، اخراجات، گھر کے کرائے اور ایسے ہی چھوٹے چھوٹے اخراجات پورے کرنے کے لئے ہوتی ہے، جس سے اس کی سفید پوشی کا بھرم قائم رہتا ہے۔ موجودہ صورتحال میں سفید پوشی کا یہ بھرم کس حد تک قائم ہے۔ آیئے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔

عام آدمی کی آمدن
مزدور کی کم از کم اجرت 121 ڈالر سے 113 ڈالر ہوگئی۔ عالمی معیارات کے طے شدہ فارمولے کے مطابق پاکستان میں کم از کم اجرت 35000 روپے ہونی چاہیئے، جس میں روپے کی قدر میں گراوٹ اور شرح مہنگائی میں اضافے کا اثر شامل نہیں ہے، مگر پاکستان میں کم از کم مقرر کردہ اجرت اس سے آدھی ہے۔ مالی بجٹ 2018-2019ء میں کم از کم اجرت 15000 رکھی گئی تھی، جبکہ رواں مالی سال میں صرف 2500 روپوں کا اضافہ کیا گیا ہے۔ حکومت کی جانب سے مقرر کردہ کم از کم اجرت کے حساب سے مزدوروں کی ایک دن کی کمائی 584 روپے بنتی ہے، یعنی 17500 روپے آمدنی سے گھر کا پورے مہینے کا بجٹ چلانا ہوتا ہے۔ اس بجٹ کے حوالے سے ہم آگے بات کریں گے، مگر یہاں کم از کم اجرت کے ساتھ ساتھ سالانہ اضافے کا بھی جائزہ لے لیتے ہیں۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں بھی ہر سال دس فیصد اضافہ کیا جاتا ہے۔

مالی سال 2019-2020ء میں بنیادی تنخواہ میں دس فیصد اضافے سے گریڈ ایک سے چار تک کے سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں 900 سے 1000 روپے تک کا اضافہ ہوا ہے، جبکہ گریڈ پانچ سے اٹھارہ تک کے ملازمین کی تنخواہ میں 1000 سے 2000 روپے تک کا اضافہ ہوا ہے۔ 17000 روپے وصول کرنے والے گریڈ 1 کے ملازمین 913 روپے کے اضافے کے بعد 17913 روپے وصول کرنے لگے۔ اب حکومت کی جانب سے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کا فریضہ ادا کرچکی اور یہ اضافہ بھی صرف سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں جبکہ نجی اداروں میں کام کرنے والے ملازمین اس دائرے میں نہیں آتے۔ اس دوران ڈالر کی قیمت اور مہنگائی کی شرح میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔ اگر ایک سال قبل کی تنخواہ کو ڈالر کے ایک سال قبل کے نرخ کے حساب سے دیکھا جائے تو عام مزدور کی آمدن مالی سال 2018-2019ء کے مطابق 15000 روپے یعنی اس وقت کے ڈالر کے نرخ کے مطابق 121 ڈالر بنتی تھی جبکہ رواں مالی سال میں ڈھائی ہزار کے اوسط اضافے کے بعد 17500 روپے ہونے کے باوجود 113 ڈالر بنتی ہے۔

اعداد و شمار کے اس کھیل کی حقیقت یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے اضافے کے باوجود اگست 2018ء کی نسبت جنوری 2020ء میں مزدور کی کم از کم اجرت میں 8 ڈالر یعنی 1240 روپے کی کمی ہوئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک عام مزدور حکومت کی جانب سے مقرر کردہ کم از کم اجرت میں گھر کے اخراجات پورے کرنے میں ناکام ہونے کی وجہ سے گھر کی خواتین اور بچوں کو بھی مزدوری کے لئے بھیجنے پر پرانے پاکستان میں بھی مجبور ہوتا تھا اور اس نئے پاکستان میں تو پورا کنبہ مزدوری کرنے کے باوجود اخراجات پورے کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ اب اگر بات کی جائے عام آدمی کے گھر پکنے والے کھانے پر آنے والے اخراجات کی تو چار سے پانچ افراد پر مشتمل کنبہ کے گھر میں بننے والے سادہ سے کھانے پر سال 2018ء اور سال 2020ءکے درمیان واضح فرق نظر آتا ہے۔

ایک وقت کے کھانے پر اخراجات کا تقابل
چار سے پانچ افراد پر مشتمل کسی بھی اوسط گھرانے میں ایک وقت کی ہانڈی پر ہونے والے خرچے کے حساب سے اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ایک عام آدمی کس حد تک متاثر ہوا ہے۔ کسی بھی ہانڈی کو تیار کرنے کے لئے جن بنیادی اجزاء کی ضرورت ہوتی ہے، ان میں ٹماٹر، پیاز، ادرک، لہسن، کوکنگ آئل/گھی، مصالحہ جات شامل ہیں۔ محتاط اندازے کے مطابق ایک وقت کی ہانڈی میں ان اجزاء کا تناسب اور نرخ چارٹ میں دیئے گئے ہیں۔ ایک وقت کی ہانڈی پر تقریباً 370 روپے کے اخراجات ہوتے ہیں اور روزانہ دو وقت کی ہانڈی کے حساب سے ایک ماہ کا اوسط خرچہ 22 ہزار بنتا ہے جبکہ موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے سے قبل چار سے پانچ افراد پر مشتمل اوسط گھرانے کی ایک وقت کی ہانڈی کا خرچہ 275 روپے تھا اور مہینے کا اوسط خرچہ 16500 بنتا تھا۔

واضح رہے کہ گذشتہ حکومت کے آخری سال میں مزدوروں کی کم از کم اجرت 15 ہزار روپے تھی، جس کو موجودہ حکومت نے بڑھا کر 17500 کر دی ہے۔ اس دوران ان بنیادی اجزاء کی قیمتوں میں فرق دیکھیں تو 40 روپے کلو ملنے والا ٹماٹر پچھلے کچھ ماہ غریب کی دسترس سے باہر ہوگیا تھا۔ اسی طرح ایک کلو پیاز 50 سے 70 روپے کا ہوگیا، لہسن 200 سے 280، ادرک 180 سے 320، کالی مرچ پاوڈر پیکٹ 70 سے 110، لال مرچ پاوڈر 60 سے 80 اور کوکنگ آئل فی لیٹر 140 سے 210 روپے کا ہوگیا۔ سبز مرچ اور آلو کے نرخ بھی اس دوران دوگنا ہوگئے۔ موجودہ حالات میں ایک مزدور کے دو وقت کی روٹی کا خرچہ حکومت کی طرف سے تعین کردہ کم از کم اجرت سے کہیں زیادہ ہے، جبکہ ہانڈی کے علاوہ بھی ایک عام آدمی کی ضروریات زندگی کی فہرست کافی طویل ہے۔

مہنگائی نے بچے پالنا مشکل کر دیئے
بچوں کی پرورش والدین کی اولین ترجیح ہوتی ہے اور زندگی کی ساری بھاگ دوڑ اسی دائرے کے گرد ہوتی ہے۔ موجودہ صورتحال میں ایک نومولود کی دیکھ بھال کے دوران آنے والے اخراجات بھی عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوچکے ہیں۔ ایک نومولود بچے کی پرورش میں جن اشیاء کی بنیادی ضرورت ہوتی ہے، ان میں ڈائیپر، فیڈر، کپڑے، نوزائیدہ بچوں کے لئے تیار کی گئی خوراک اور بیبی کیئر لوشنز سرفہرست ہے۔ اس کے علاوہ بچوں کے طبی معائنے کی بھی وقتاً فوقتاً ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ ملک میں مہنگائی کے حالات کو مدنظر رکھا جائے تو والدین کے لئے بچوں کی احسن طریقے سے پرورش کرنا انتہائی مشکل ہوگیا ہے۔ بچوں کی دیکھ بھال سے متعلق اداروں کے حساب کتاب کے مطابق ایک نومولود بچے کو دن میں 8 سے 10 ڈائیپرز کی ضرورت ہوتی ہے، یوں ایک ماہ میں کم از کم 240 ڈائیپرز استعمال ہوتے ہیں۔ گذشتہ سال کے ڈائپرز کی قیمت 25 روپے فی کس تھی اور ایک دن کا خرچہ 200 جبکہ ماہانہ 6 ہزار روپے تھا، جو اب 30 روپے فی پیمپر کے حساب سے ایک دن کا خرچہ 240 جبکہ مہینے کا خرچہ 7200 روپے بنتا ہے۔

ابتدائی چند ماہ کے بعد بچے کی خوراک کے اخراجات بھی والدین کی جیب ہلکی کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ عوام میں مقبول بچوں کی خوراک برانڈ کا 350 گرام کا پیکٹ 380 روپے میں ملتا ہے، جو گذشتہ سال 330 روپے تھا اور یہ مقدار چار سے پانچ دن استعمال ہوتی ہے۔ اس حساب سے انفنٹ خوراک پر روزانہ تقریباً 80 جبکہ ماہانہ 2400 روپے کا خرچہ آتا ہے، جو پہلے 70 روپے روزانہ اور 2100 روپے ماہانہ تھا۔ ان کے علاوہ فیڈر، کپڑوں، ادویات اور دیگر ضروریات پر بھی خطیر رقم خرچ ہوتی ہے۔ زندگی کی چند بہاریں دیکھنے کے بعد بچوں کا تعلیمی سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 25A کے تحت تعلیم حاصل کرنا ہر بچے کا بنیادی حق ہے، البتہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور تعلیم کے سیکٹر میں سہولیات کا فقدان کی وجہ سے بچوں کا یہ حق والدین کی دسترس سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔

روپے کی قدر میں کمی
ملک میں مہنگائی کی شرح میں بدستور اضافے کی ایک بنیادی وجہ روپے کی قدر میں کمی اور ڈالر کا مہنگا ہونا ہے۔ پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کا براہِ راست اثر ان اشیاء کی قیمتوں پر ہوتا ہے، جو بیرونِ ملک سے درآمد کی جاتی ہیں، جیسے کہ کمپیوٹرز، گاڑیاں اور موبائل فونز وغیرہ اور ان تمام اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا اثر ملک کی تمام اشیاء پر پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان پر بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف اور عالمی بنک کے قرضوں کا حجم بھی بڑھ جاتا ہے۔ مثلاً اگر ایک ڈالر 100 روپے کے برابر ہو اور ایک ارب ڈالر کا قرضہ ہو تو اس حساب سے 100 ارب روپے کا قرضہ ہوگا لیکن اگر ڈالر 110 کا ہوجائے تو قرضہ بھی اسی حساب سے بڑھ جائے گا۔ ملکی کرنسی مارکیٹوں میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ کی بے قدری کا سلسلہ نئی حکومت کے اقتدار سنبھالتے ہی شروع ہوا تھا۔ ہر ماہ کی پہلی تاریخ کے ریٹ کے حساب سے پاکستانی روپیہ کا امریکی ڈالر کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو ستمبر 2018ء میں ایک ڈالر 123.13 روپے کا تھا، جو کہ بڑھتے بڑھتے یکم جنوری 2019ء کو 139.82 جبکہ یکم جولائی کو 162.33 روپے کا ہوگیا۔ اس کے بعد قدرے کمی آئی اور یکم جنوری 2020ء کو 154.3 فی ڈالر فروخت ہوا۔

پاکستان کی عوام پر بیمار معیشت کا بوجھ
کسی بھی ملک کی معیشت کے مستحکم یا غیر مستحکم ہونے کا جائزہ مہنگائی اور بیروزگاری کے اشاریئے کے ذریعے لیا جاتا ہے۔ وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں نئی حکومت کے آنے کے بعد مہنگائی کی شرح میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے، جبکہ بیروزگاری بھی تسلسل سے بڑھ رہی ہے۔ اگست 2018ء میں ملک میں مہنگائی کی شرح 5.8 فیصد تھی جبکہ رواں ماہ یہ شرح 12.6 فیصد کو پہنچی ہے۔ بین الاقوامی مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) نے اندازہ لگایا تھا کہ پاکستان کی افراط زر 13 فیصد تک جاسکتی ہے۔ ادارہ شماریات پاکستان کے کنزیومر پرائز انڈیکس (سی پی آئی) کے مطابق جولائی 2019ء میں افراط زر کی شرح 10.34 فیصد رہی، جس کے بعد مستقل دو ہندسوں میں ہی ہے جبکہ اس سے قبل افراط زر کی شرح دو ہندسوں میں نومبر 2013ء میں 10.9 فیصد رہی تھی۔ گذشتہ چند ماہ میں پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی گیس کی قیمتوں میں اضافے سے مجموعی طور پر افراط زر کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کی جانب سے کئے گئے مخصوص ٹیکس اقدامات کے اثرات بھی افراط زر کی شرح میں اضافے کا باعث بنے، جبکہ روپے کی قدر میں کمی سے درآمدی صارفین اور صنعتوں کے استعمال کے لئے خام مال کی قیمتوں میں اضافہ بھی سامنے آیا۔

واضح رہے کہ حکومت نے مالی سال 20-2019ء کے لئے افراط زر کا ہدف 11 سے 13 فیصد رکھا ہے، جو گذشتہ سال 7.3 فیصد رہا تھا۔ رواں مالی سال کے پہلے مہینے میں ہی قیمتوں میں اضافہ سامنے آیا۔ ملک میں ہونے والی مہنگائی سے متعلق اگر ادارہ شماریات کے سالانہ اعداد و شمار دیکھے جائیں تو دسمبر 2018ء کی نسبت غذائی اجناس کی قیمتوں میں 19.74 فیصد اضافہ ہوا جبکہ ماہانہ اعداد و شمار کے مطابق اس میں 1.66 فیصد کمی آئی۔ اسی طرح گھریلو ساز و سامان کی قیمتوں میں سالانہ 10.44 فیصد، ٹرانسپورٹ 14.65 فیصد، پہننے کی اشیاء 9.70 فیصد، گھریلو ضروریات (پانی، بجلی، گیس،کرایہ وغیرہ) میں 8.53 فیصد، صحت 11.30 فیصد جبکہ تعلیمی اخراجات میں 6.03 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق پچھلے سال کی نسبت جن کھانے کی اشیاء کی قیمت سب سے زیادہ بڑھی ہے، ان میں ٹماٹر 321 فیصد، پیاز 169 فیصد، مونگ کی دال 53 فیصد، آلو 78 فیصد، تازہ سبزیاں 84 فیصد، دال ماش 38 فیصد، چینی 28 فیصد، مسور کی دال 14 فیصد، آٹا 17 فیصد، گھی 16.3 فیصد، کھانے کا تیل 17 فیصد، مصالحے 13.4 فیصد، دودھ پاؤڈر 11 فیصد، گوشت 13.5 فیصد جبکہ چائے اور لوبیا کی قیمتوں میں 10 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

یہ اعداد سرکاری نرخوں کے حساب سے ہیں، البتہ حالیہ آٹے اور چینی کے بحران کے بعد ان کی قیمتوں میں جو اضافہ ہوا ہے، اس صورتحال سے تمام شہری واقف ہیں۔ ماہر معاشیات ڈاکٹر فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ خطے میں اشیائے خورد و نو ش کی قیمتوں میں اتنا زیادہ اضافہ صرف پاکستان میں ہو رہا ہے، پاکستان میں اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں 16 فیصد سے جبکہ افغانستان میں صرف 4 فیصد سے بڑھ رہی ہیں۔ اسی حوالے حکومت کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کو معاشی ماہرین کے تبصروں کی روشنی میں جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ پاکستان کا اس سال کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ پچھلے سال کی نسبت 19.9 ارب ڈالر سے کم ہوکر 12.75 ارب ڈالر پر آگیا ہے، جس کی اصل وجہ برآمدات میں اضافہ نہیں بلکہ ملکی معیشت کی خطرناک حد تک سست رفتاری اور درآمدات میں کمی ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 36 فیصد کی کمی آئی ایم ایف اور دوسرے قرض دینے والے اداروں کیلئے تو اچھی خبر ہے، لیکن پاکستان کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی ہے۔ اس معاشی بدحالی کی وجہ سے کم از کم 10 لاکھ پاکستانی بے روزگار ہوگئے ہیں۔

اسٹیٹ بنک کے نئے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق غیر ملکی سرمایہ کاروں نے جولائی سے نومبر 2019ء تک 1.09 ارب ڈالر کے ٹریژری بلز خریدے، تاہم یہ ہاٹ منی ہے اور ہماری معیشت کا ماضی اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ جتنی جلدی یہ پیسہ آتا ہے، اتنی ہی تیزی سے واپس بھاگتا ہے۔ اس لئے پرکشش منافع دینے کے عوض غیر ملکی سرمایہ کاروں کا ٹریژری بلز کی خریداری معاشی کارکردگی کی اصل عکاسی نہیں ہے۔ معیشت کی موجودہ صورتحال متواسط طبقے کو غربت کی لکیر کی طرف دھکیل رہی ہے۔ اگر حالات ایسے ہی ابتر رہے اور عام آدمی کی قوت خرید بہتر نہ ہوئی تو امیر اور غریب کے فاصلے تیزی سے بڑھیں گے اور متوسط طبقہ ختم ہوتا جائے گا، جس کی وجہ سے معاشرے کا توازن بری طرح متاثر ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 844008
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش