2
Monday 2 Mar 2020 12:15

عہد ساز اشرف عبّاس۔۔۔۔۔ ایک تاثّر

عہد ساز اشرف عبّاس۔۔۔۔۔ ایک تاثّر
تحریر: جوہر عباس
jauhar.abbas86@gmail.com

یہ سن 1999ء کے عشرۂ محرّم کی بات ہے، جب میں آٹھویں جماعت کا طالبِ علم تھا۔ علّامہ طالب جوہری اُس برس قدیم رضویہ سوسائٹی میں رات کو عشرۂ محرم سے خطاب فرما رہے تھے۔ قبلہ کو قریب سے سننے کے اشتیاق میں(جس کا موقع کم کم ہی نصیب ہوتا تھا) مَیں ایک مجلس میں وقت سے پہلے پہنچ گیا۔ سوز خوانی کے بعد علامہ صاحب کے زیبِ منبر ہونے سے قبل سیاہ شیروانی اور چوڑے پائنچوں کے پاجامے میں ملبوس ایک وضع دار بزرگ کو منبر پر سلام پیش کرنے کی دعوت دی گئی۔ ان بزرگ نے ڈاکٹر پیام اعظمی (انڈیا) کا معرکہ آرا مخمّس "چودہ صدیاں بیت گئیں شبیرؑ کا چرچا باقی ہے" کچھ اس انداز سے اپنے سادہ و پُرکار لحن میں پیش کیا کہ بارگاہِ رضویہ کا ہال سامعین کے فلک شگاف داد و تحسین کے نعروں سے گونج اٹھا۔ اس کلام کے دو ٹیپ کے مصرعے اب بھی میری سماعت میں تازہ ہیں۔
جس نے تجھے مارا تھا طمانچہ دیکھ وہ پنجہ باقی ہے
اے کعبے کے ٹھیکے دارو! کعبے والا باقی ہے

یوں مجھے اشرف عباس صاحب کی پہلی زیارت نصیب ہوئی اور ان کی آواز جا گزینِ سماعت ہوگئی۔ یہ آٹھ محرّم کی تاریخ تھی۔ اگلے روز نو محرّم (شبِ عاشور) کو اشرف عباس صاحب نے مولانا حسن امداد مرحوم کا غم آگیں مخمّس "کربلا ہوچکی تیّار تقدَّم وَلَدی" پیش کیا۔ آج فضا کل سے یکسر مختلف تھی۔ مجلس کے شرکاء بے اختیار گریہ کر رہے تھے اور چاروں طرف آہ و بکا کا شور تھا۔۔۔۔ مولانا حسن امداد کا یہ کلام اشرف عباس مرحوم کی سلام خوانی کا طُرّۂ امتیاز بن گیا۔ اشرف عباس مرحوم نے کراچی کے مرکزی عشرۂ مجالس نشتر پارک کے منبر پر 50 برس سے زیادہ مسلسل سلام گزاری کی عبادت انجام دی۔ اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب "قصّہ نصف صدی کا" میں رقم طراز ہیں کہ علّامہ رشید ترابی نے انہیں اپنی تقریر سے قبل منبر پر سلام پیش کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی تھی اور یوں وہ مسلسل منبر پر خطابت سے قبل سلام گزاری کرتے رہے۔  گذشتہ برس 1440ھ کے عشرۂ محرم میں انہوں نے آخری مرتبہ نشتر پارک میں سلام گزاری کی سعادت حاصل کی۔

اشرف عباس مرحوم کی شخصیت میں ایک خاص رکھ رکھاؤ اور وضع داری تھی۔ ان کے قریب رہنے والوں کا بیان ہے کہ وہ بہت کم گو تھے۔ بلا ضرورت کلام نہیں کرتے تھے۔ عزاداری سے ان کے لگاو کا یہ عالم تھا کہ وقتِ مقرّرہ سے قبل مجلس میں پہنچ جاتے تھے اور منتظمین کی نااہلی کی وجہ سے اکثر انہیں خاصا انتظار کرنا پڑتا تھا۔ خوددار ایسے کہ نہ کبھی منتظمین سے کنوینس طلب کی اور نہ کبھی لفافہ قبول کیا۔۔۔ کہ ایسا کرنا ان کی تربیت میں شامل نہیں تھا۔ اشرف عباس نے ذکرِ محمّدؐ و آلِ محمّدؐ سے بے پناہ عزّت کمائی۔ وہی عزّت ان کا سب سے قیمتی سرمایہ تھا۔ انتقال سے پانچ چھے برس قبل ان کا ایک سنگین نوعیت کا حادثہ ہوا تھا، جس میں انہیں شدید چوٹیں آئی تھیں، تاہم اس حادثے کے بعد بھی وہ تا دمِ آخر اپنی عزائی خدمات بخوبی انجام دیتے رہے۔ ان کی شخصیت میں جو متانت تھی، اس کا عکس ان کے انتخابِ کلام میں بھی نظر آتا تھا۔ ہمیشہ ایک سے بڑھ کر ایک اعلیٰ پائے کے کلام نذرِ سامعین کیے۔ سلام پڑھتے ہوئے کبھی ہاتھوں کو جنبش نہیں دیتے تھے۔ بڑے اطمینان، ٹھہراو اور صحتِ تلفّظ کے ساتھ ایک ایک مصرع ادا کرتے تھے۔ اُن کی سلام گزاری ان اوصاف سے مزیّن تھی۔

مرحوم کے انتقال کے بعد ان کے ایک سچے عقیدت مند حیدر عباس سے ایک حیرت انگیز بات معلوم ہوئی۔ وہ یہ کہ ایک سال شبِ عاشور کو مولاؑ کے اس مخلص ذاکر پر دو قیامتیں ایک ساتھ ٹوٹ پڑیں۔ پہلے والدہ کا انتقال ہوا اور اس کے کچھ دیر بعد صاحبزادی بھی دنیائے فانی سے کوچ کر گئیں۔ یہ سانحہ کسی بھی انسان کے حواس متزلزل کر دینے کے لیے کافی ہے، لیکن کمالِ ضبط دیکھیے کہ سیدِ مظلوم کا یہ منظورِ نظر سلام گزار صبحِ عاشور وقتِ مقرّرہ پر نشتر پارک پہنچا اور حسبِ معمول سلام پیش کیا۔ اللہ اکبر!!! عہد ساز سلام گزار اشرف عباس مرحوم کی جانب سے پیش کردہ چند معرکہ آرا سلام جو یوٹیوب پر تلاش کرکے سنے جاسکتے ہیں۔ شاعر کے نام کے ساتھ درج کر رہا ہوں۔
1ـ کربلا ہوچکی تیّار تقَدَّم وَلَدی (مولانا حسن امداد)
2۔ اِس چاند کی دس کو سانجھ تلک شبیرؑ سے دنیا خالی تھی (حضرت نجمؔ آفندی)
3ـ اس عَلَم سے ہم سبھوں کی شان ہے
4ـ ہے یہی وقت اِن کا دامن تھام لے
5ـ چراغِ طور جلایا ہے روشنی یوں ہے

6ـ کسی کے وقت کا تابع ہوں، جب تک مَیں ہوں محفل میں(علّامہ رشیدؔ ترابی)
7ـ صلہ مدّاح کو یہ مدحتِ حیدرؑ سے ملتا ہے
8ـ حسینؑ ابنِ علیؑ کا غم دلِ مضطر میں رہتا ہے(مولانا محمّد مصطفیٰ جوہرؔ)
9ـ ہم کو کرسی نہ جاہ و حشم چاہیئے، ہم کو دولت نہ دولت سرا چاہیئے
10ـ جو بھی راہِ علم و عمل میں پیروِ فکرِ بوذر ہوگا(علّامہ طالبؔ جوہری)
11ـ چودہ صدیاں بیت گئیں، شبیرؑ کا چرچا باقی ہے(ڈاکٹر پیامؔ اعظمی)
12ـ ہر مشکل میں دافعِ مشکل پرچمِ حیدرؑ آج بھی ہے
13۔ مجھ سے کہا جبریلِ ولا نے مدحِ علیؑ تحریر کرو
14ـ اے زندگی کے مطلعِ تاباں تجھے سلام(حضرت شاہدؔ نقوی)
15ـ یہ تیغ یہ کتاب یہ سجدہ علیؑ سے ہے (نصیرؔ ترابی)
16ـ ہم نے ذکرِ حیدرؑ میں وقف زندگی کی ہے (کوثرؔ نقوی)

اس کے علاوہ ہر برس نشتر پارک میں آپ حضرت جوش ملیح آبادی کا مسدّس "ہم راز یہ فسانۂ آہ و فغاں نہ پوچھ" پیش فرماتے تھے اور 21 رمضان المبارک کو ڈاکٹر پیام اعظمی کا ایک مسدس جس کا آخری بند آج بھی سماعتوں میں تازہ ہے:
محراب میں علیؑ ہیں تو مِنبر پہ ہیں علیؑ
ہجرت کی شب رسولؐ کے بستر پہ ہیں علیؑ
کعبہ گواہ دوشِ پیمبرؐ پہ ہیں علیؑ
جنّت علیؑ کی مِلک ہے کوثر پہ ہیں علیؑ
ہر جا علیؑ ملیں گے نہ دامن بچائیے
بچنا علیؑ سے ہے تو جہنّم میں جائیے
جونئر سلام خوانوں کو اشرف عباس مرحوم کے معیارِ انتخاب سے کلام کا انتخاب سیکھنا چاہیئے!!!

کل رات شاعرِ اہل بیتؑ ظفر عابدی صاحب نے بتایا کہ مولانا رضی جعفر نقوی مجتہد نے عہد ساز سلام گزار محترم اشرف عباس مرحوم کو ان کی زندگی میں "عندلیبِ گلستانِ فصاحت" کا خطاب عنایت فرمایا تھا۔ ہمارے لائقِ صد احترام دیرینہ دوست اور کرم فرما سید رفیق عباس جعفری نے اِس خطاب سے استفادہ کرتے ہوئے اشرف عباس مرحوم کی حیرت انگیز تاریخِ وفاتِ عیسوی برآمد کرکے مرحوم کو بہترین خراجِ  عقیدت پیش کیا ہے۔
"عندلیبِ گلستانِ فصاحت اشرف عبّاس"
ــــــــــــــــــــــــ ۲۰۲۰ءـــــــــــــــــــــــــــــ
حق سبحانہ‘ و تعالیٰ اشرف عباس صاحب کو جوارِ محمد و آلِ محمد علیہم السلام نصیب فرمائے اور ان کے عزائی آثار کو مخلص ترین امانت دار نصیب کرے۔ آمین
خبر کا کوڈ : 847904
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش