2
Tuesday 24 Mar 2020 15:57

کرونا کا دوسرا رُخ

کرونا کا دوسرا رُخ
تحریر: کاظم جامانی
kazimjamani@gmail.com

کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینہ میں حکومت قائم کرنے کے بعد مختلف بادشاہوں کو خطوط لکھے۔ ان خطوط میں سے ایک خط ایران کے بادشاہ کو بھی لکھا اور اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ ایران کے بادشاہ نے  جواب دینے کے بجائے اپنے غرور میں آکر تھوڑی سی مٹی بھجوا دی، یعنی نعوذ باللہ منہ پر مٹی ماری۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مٹی اپنے ہاتھوں میں لی اور فرمایا: اے اللہ تیرا شکر کہ ایران کی مٹی مسلمانوں کے ہاتھوں میں آگئی۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس واقعہ میں سے ایک مثبت بات نکالی۔ اسلام نے ہمیشہ اجتماعی اور انفرادی معاملات کو مثبت دیکھنے کا حکم دیا ہے۔ بڑے سے  بڑا چیلنج ہو، انسان اگر اس کو مثبت دیکھتا ہے تو اسے اس مسئلے کو سہنے کا حوصلہ ملتا ہے۔ اگر انسان کے حوصلے بلند ہوں تو پھر انسان کسی بھی مسئلے پر اچھی تدبیر کرسکتا ہے اور اس سے باآسانی نمٹ سکتا ہے۔

کرونا وائرس نے جہاں انسانوں پر انتہائی برے اثرات مرتب کئے ہیں، وہیں اس جان لیوا وائرس نے ہمیں کچھ مثبت مواقع بھی دیئے ہیں۔ آپ نے میڈیا اور سوشل میڈیا پر اسکے بہت سے برے اثرات کو پڑھا، سنا اور کئی لوگ صرف پڑھ اور سن کر ہی اپنے آپ کو بیمار سمجھنے لگے، کیونکہ جو کچھ بھی ہم پڑھتے اور سنتے ہیں، اس کے اثرات ہمارے ذہن اور بدن پر ضرور پڑتے ہیں۔ ایسا ممکن نہیں کہ ہم کچھ پڑھیں یا سنیں اور اس کا اثر ہم پر نہ ہو۔ بالکل اسی طرح کہ جو کچھ ہم کھاتے ہیں، اس کا اثر ہمارے ذہن، بدن اور شخصیت پر پڑتا ہے۔ حدیث پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں کیوں کہا گیا ہے کہ قرآن کو ہر روز پڑھو، علماء کے ساتھ ہم نشینی کرو، پاک غذا کھاوَ، کیونکہ ان سب کا گہرا اثر ہے۔ اسی لئے ضروری ہے کہ میڈیا کے استعمال بالخصوص سوشل میڈیا کے استعمال میں بہت احتیاط سے کام لیں۔ اس کرونا نے پوری دنیا کو ایک نئے دور میں لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ بہت سے ایسے کام ہو رہے ہیں، جو تاریخ بشریت میں  کبھی بھی نہیں ہوئے۔ انسان  کے سامنے کئی موضوع جو کبھی اتنی اہمیت کے  حامل نہیں تھے، آج بہت مہم ہوگئے ہیں۔ لوگوں کی توجہ جن موضوعات پر بہت کم تھی، آج پورا میڈیا ان موضوعات سے بھرا ہوا ہے۔ انہیں موضوعات میں سے کچھ مثبت  تربیتی نکات یہ ہیں۔

موجودہ صورتحال کے چند مثبت اثرات اور تربیتی نکات:
1۔ انسان ضعیف ہے:
پا کر غنی خود کو، سرکشی کی میں نے
خودی کو بھلا کر، خدا  بن گیا میں

آج پوری دنیا پر یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ انسان کتنا ضعیف ہے۔ ایک چھوٹا سا واِئرس جو انسانی آنکھ  سے دیکھا تک نہیں جا سکتا، اس نے پوری دنیا کی معیشت کو چند دنوں میں ہلا کر رکھ دیا۔ وہ انسان جسے اپنے پیسے، صحت اور اقتدار پر اتنا گھمنڈ تھا، آج ایک ذرہ برابر بلکہ اس سے بھی چھوٹی سی چیز سے ڈر کر گھر میں قید ہو کر رہ گیا۔ یہ وہی انسان ہے، جو خدائی کا دعویٰ کر رہا تھا۔ اس چھوٹے سے وائرس نے اسے اس کی اوقات دکھا دی اور بتا دیا کہ جب تو اپنے آپ کو غنی پاتا ہے تو بہت سرکشی کرتا ہے، مگر دیکھ یہ ہے تیری حقیقت کہ ایک ناچیز نے تیری پوری زندگی کو درھم برھم کر دیا اور تو کچھ بھی نہ کرسکا۔ اس وائرس سے سیکھنے والے اسباق میں سے ایک سبق یہ ہے کہ انسان ہمیشہ اپنی حقیقت سے آگاہ رہے۔ خدا کی قدرت کے سامنے اپنی ضعیفی کا اعتراف کرے اور اس حقیقت کا نہ صرف لفظوں میں، بلکہ اپنے پورے ایمان اور یقین کے ساتھ اعتراف کرے کہ یقیناً میں ضعیف ہوں اور اللہ جب بھی چاہے، کسی بھی ناچیز سے مجھے ذلیل کرسکتا ہے۔ وَخُلِقَ ٱلۡإِنسَـٰنُ ضَعِيفً۬ا(نساء۲۸) "اور انسان ضعیف پیدا کیا گیا ہے۔"

2۔ موت کی یاد:
آج کی اس تیز رفتار دنیا میں، انسان گم ہوگیا ہے۔ اس وائرس نے اسے ایک موقع دیا کہ ابھی بھی وقت ہے، اپنی موت کو یاد کر لے۔ آج ہر شخص اس وائرس کو اپنے گرد محسوس کر رہا ہے، گویا ایک موت کا پروانہ ہے، جو ہر وقت ہمارے ارد گرد منڈلا رہا ہے۔ اس وائرس نے ہمیں موت سے بہت قریب کر دیا ہے۔ اس نے ہمیں اپنی موت یاد دلا دی۔ موت کو یاد کرنے کے صرف معنوی فوائد نہیں بلکہ کئی مادی فوائد بھی ہیں۔ مثلاً اگر انسان اپنی موت کو یاد رکھے تو کسی کا مال نہیں کھائے گا، لوگوں کی مدد کریگا، بہت سارا مال جمع نہیں کریگا، کسی پر ظلم نہیں کرے گا، معاشرے میں عدل و انصاف قائم ہوگا۔ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں موت کو یاد کرنے کے کئی فائدے ذکر ہوئے ہیں۔ "موت کا کثرت سے یاد کرنا انسان کی دل کی سختی کو کم کرتا ہے اور دنیا سے بے رغبتی پیدا کرتا ہے، آخرت کی تیاری پر آمادہ کرتا ہے"، ’’موت کو کثرت سے یاد کرو، جو شخص موت کا کثرت سے ذکر کرتا ہے، اس کا دل زندہ ہو جاتا ہے اور موت اس پر آسان ہو جاتی ہے۔"
یہاں ایک بات واضح رہے کہ موت کو یاد کرنے اور موت سےڈرنے میں بہت فرق ہے۔ اگر انسان اپنا تعلق اللہ کے ساتھ جوڑ سکے، اللہ کے نظام اور اس دنیا کی حقیقت کو سمجھ سکے، اپنی ذمہ داری اور لوگوں کے حقوق کو ادا کرے تو موت اس کے لئے ایک آرزو ہوتی ہے۔ پھر انسان موت سے ڈرتا نہیں بلکہ مانوس ہوتا ہے اور اگر اس نے تیاری نہیں کی تو پھر۔۔۔

ایک شخص کی حضرت عزرائیل علیہ السلام سے دوستی ہو جاتی ہے۔ وہ حضرت  عزرائیل علیہ السلام سے گزارش کرتا ہے کہ آپ مجھے، میری موت کی خبر اچانک  نہیں دیجیئے گا، برای مہربانی موت سے پہلے مجھے پیشگی اطلاع ضرور دیجیے گا۔ حضرت عزرائیل علیہ السلام اس بات کو قبول کر لیتے ہیں۔ کچھ عرصے بعد عزرائیل علیہ السلام اس کے پاس اچانک آتے ہیں اور اسے کہتے ہیں چلو، تمہارا وقت پورا ہوگیا۔ وہ شخص حیران ہو جاتا ہے اور عرض کرتا ہے کہ آپ کے ساتھ طے ہوا تھا کہ آپ پیشگی اطلاع دینگے۔ حضرت عزرائیل علیہ السلام نے فرمایا کہ تمہیں کئی بار پیشگی اطلاع دے چکا ہوں۔ اس بندے نے کہاں، کب دی؟ حضرت عزرائیل علیہ السلام نے کہا، کتنے ہی تمہارے قریبی اس دنیا سے چلے گئے، ان کی موت میں ہر بار تمہارے لئے پیشگی خبر تھی، مگر تم نہیں سمجھے۔ دراصل یہ کرونا وائرس بھی اللہ کی طرف سے ایک پیشگی اطلاع ہے۔

3۔ فطری طرز زندگی:
پچھلے سو سالوں میں انسانی طرز زندگی (لائف اسٹائل) میں بہت تیزی سے تبدیلی آئی ہے، جسکا براہ راست اثر انسانی صحت پر ہوا ہے۔ بالخصوص ہماری غذا اور  سونے کے اوقات نے ہماری صحت کو بہت متاثر کیا ہے۔ کولڈ ڈرنکس، جنک فوڈز،  صنعتی پراڈکٹس، اسنیکس، غیر ضروری خریداری، یہ وہ تمام چیزیں ہیں، جن کے بغیر بھی زندگی گزاری جا سکتی ہے۔ اگر دو کلمات میں کہیں تو سادہ زندگی، جس کی ضرورت انسانیت کو ہمیشہ سے ہے۔ آج ماہرین ان تمام چیزوں سے اجتناب کے مشورے دے رہے ہیں، کیونکہ ان تمام چیزوں سے قوت مدافعت متاثر ہوتی ہے۔ رات دیر سے سونے اور دیر سے  اٹھنے سے بھی قوت مدافعت کمزور ہو جاتی ہے۔ آج سے پہلے لوگوں کی توجہ اپنی قوت مدافعت کی طرف اس طرح نہیں تھی۔، مگر آج ڈاکٹرز یہ کہتے ہوئے نظر آرہے ہیں کہ اپنی قوت مدافعت کو بڑھائیں، کیونکہ قوت مدافعت انسانی جسم میں اسی طرح کام کرتی ہے، جیسے ایک ملک کی فوج۔ قوت مدافعت کو مضبوط بنانا اس لئے اتنا اہم ہے۔

کیونکہ یہ وائرس تقریباً پوری دنیا میں پھیل گیا ہے اور اس سے بچنے کا پہلا مرحلہ یہ ہے کہ انسان اپنی قوت مدافعت کو مضبوط رکھیں۔ اس وائرس نے ہماری توجہ قوت مدافعت کے طرف مبذول کروائی ہے۔ انسان کا اپنی قوت مدافعت کو مضبوط رکھنا، ایک وقتی نہیں بلکہ مستقل معاملہ ہے۔ ان شاء اللہ جلد ہی کرونا وائرس ختم ہو جائے گا، مگر ہمیں ایک مضبوط قوت مدافعت کی ضرورت ہمیشہ رہے گی، کیونکہ آنے والے وقت میں اس قسم کے حملوں میں اضافہ ہی ہوگا نہ کہ کمی۔ اسلام بھی انسان کو صحت مند دیکھنا چاہتا ہے، اسی لئے اچھی صحت کے حوالے سے زیادہ تر احکام طرز زندگی سے متعلق ہیں۔ جس  میں جلدی سونا اور صحت مند غذا بہت مہم ہے۔ ماہرین کا بھی یہی کہنا ہے کہ اگر انسان اپنے سونے کے اوقات کو فطری بنا لے، یعنی جلدی سو جائے اور جلدی بیدار ہو، اپنی غذا کا خیال رکھے تو طویل اور صحتمند زندگی گزار سکتا ہے۔

4۔ انسان کی تربیت، اسکول یا گھر:
یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق اس کرونا سے 102 ملکوں میں اسکول بند کئے جا چکے ہیں اور مزید بند کئے جا رہے ہیں۔ یعنی دنیا میں اس وقت کئی کروڑ بچے مجبور ہیں کہ وہ گھر ہی میں تعلیم حاصل کریں۔ یہ والدین کے لئے ایک سخت چیلنج بھی ہے اور ایک بہتریں موقع بھی۔ صنعتی انقلاب سے پہلے بھی اسکول اس طرح نہیں تھے اور بچے ابتدائی تعلیم گھروں میں ہی حاصل کرتے تھے۔ اس کرونا نے ہمیں ہی موقع دیا ہے، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ہمیں مجبور کیا ہے کہ ہم اپنے بچوں کو وقت دیں۔ دراصل بچوں کی تربیت والدین کی ذمہ داری ہے، جبکہ والدین یہ سمجھ  بیٹھے کہ اسکول بھیج کر انہوں نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی، جبکہ یہ ایک غلط تصور ہے۔

اس وائرس نے تربیت کی ذمہ داری اپنی درست جگہ پر پلٹا دی ہے اور ہمیں موقع فراہم کیا ہے کہ ہم اپنے بچوں کے ساتھ کھیلیں، انہیں پڑھائیں، ان سے باتیں کریں اور ان کی باتیں سنیں، یعنی تربیت کا ماحول دیا ہے۔ آج کے دور میں والدین کا اپنے بچوں کو  وقت دینا بالخصوص باپ کا، ایسے ہی ہے  جیسے جلتے کوئلے کو ہتھیلی پر رکھنا۔ باپ اپنے بچوں کو سب کچھ دے سکتا ہے، اپنی حیثیت سے بڑھ کر  اچھا اسکول، بلکہ مہنگے اسکول میں پڑھاتا ہے، غذا، کپڑے، کھلونے، خرچہ، دن رات ایک کر دیتا ہے کہ اپنے گھر والوں کی تمام ضروریات کو پورا کرے، سوائے ایک ضرورت کے، وہ ہے اچھا وقت دینا۔ اگر والد سے پوچھیں تو وہ کہتا ہے کہ پورا دن کام کرنے کے بعد وقت ہی نہیں بچتا، جو کہ آدھا سچ ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ اکثر  والد کی ترجیحاتی فہرست) پرایئرٹی لسٹ (میں بچوں کو وقت دینا شامل ہی نہیں ہوتا، جب کبھی والد کو ان کا باس کوئی اضافی کام دیتا ہے تو وہ کس طرح مکمل ہو جاتا ہے؟

کیونکہ وہ ان کی ترجیحاتی فہرست میں شامل ہوتا ہے، بس والد کو اس کام کو مینیج کرنا ہوتا ہے، بالکل اسی طرح گھر والوں کے لئے بھی وقت مینیج ہوسکتا ہے، اگر والدین اسے ترجیحاتی فہرست میں رکھنے میں کامیاب ہو جائیں۔ اس وقت پوری دنیا میں ایک بڑی تعداد گھر میں بیٹھ کر کام کر رہی ہے. جو لوگ دفتر جا بھی رہے ہیں، انہوں نے بھی اپنے دیگر معاملات اور ملاقاتوں کو محدود کیا ہوا ہے. یہ بہترین موقع ہے اپنے گھر والوں کے ساتھ وقت گزارنے کا، ان کی تربیت کرنے کا، درحقیقت اپنی تربیت کا، خود اور خدا کے بارے میں سوچنے کا۔ اگر آج بھی کوئی یہ کام نہیں کر پائے تو پھر شاید بعد میں اتنا اچھا موقع ملنا مشکل ہو، اور پھر بڑھاپے میں افسوس کے ہاتھ ملنے کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا، کیونکہ جب بچوں کے ساتھ وقت گزارنا تھا اور ان کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانا تھا تو اس وقت ہماری ترجیحات کچھ اور تھیں۔

5۔ اللہ سے رابطہ:
پریشانیاں اس دنیا کا لازمہ ہے، یعنی یہ ناممکن ہے کہ انسان اس دنیا میں ہو اور اس کے ساتھ پریشانیاں نہ ہوں۔ عقل مند انسان ان پریشانیوں کو دوا اور دعا کے ذریعے حل کرتا ہے۔ اس وائرس نے جہاں ہمیں اپنے ضعف کا احساس اور موت کو یاد دلایا ہے، وہیں ہمیں اللہ سے ایک مضبوط رابطہ قائم کرنے کا بھی موقع دیا ہے۔ آج مختلف پلیٹ فارمز پر مختلف دعائیں تجویز کی جا رہی ہیں، انہی دعاوَں میں سے ایک نہاہت مجرب اور پر معرفت دعا صحیفہ کاملہ کی "دعا نمبر 7" ہے، جو کہ اس بیماری کے سبب پوری دنیا میں سوشل میڈیا اور مختلف ذرائع سے منتشر ہوئی اور مسلم دنیا میں ہر فرقہ سے تعلق رکھنے والوں نے اس دعا میں موجود پر لطف توحیدی نکات سے فائدہ حاصل کیا۔ اس دعا کے چند جملے۔۔۔ "(اللہ) تو وہ ہے کہ تیری قدرت کے آگے دشواریاں آسان ہوگئی۔۔۔ ان میں سے کوئی مصیبت ٹل نہیں سکتی، مگر جسے تو ٹال دے اور کوئی مشکل حل نہیں ہوسکتی، مگر جسے تو حل کر دے۔۔۔۔" اللہ تعالیٰ سے دعا ہے  کہ وہ ہمیں معاملات کو مثبت دیکھنے، ہر حال میں اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر مشکل میں ایمان اور جسم کی سلامتی عطا فرمائے۔آمین۔
خبر کا کوڈ : 852323
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش