1
Thursday 9 Apr 2020 21:47

کرونا لبرل ازم کا دشمن یا وائٹ ہاوس کا دشمن؟

کرونا لبرل ازم کا دشمن یا وائٹ ہاوس کا دشمن؟
تحریر: سید نعمت اللہ عبدالرحیم زادہ

30 دسمبر 2019ء کے دن چین کے شہر ووہان کے میڈیکل منیجمنٹ ادارے اور میونسپلٹی میڈیکل سنٹر نے ایک رپورٹ شائع کی جس میں کہا گیا تھا کہ 27 افراد نامعلوم وجوہات کی بنا پر پھیپھڑوں کی انفکشن کا شکار ہو گئے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ان افراد میں سے اکثر ایسے ہیں جو ووہان کی سمندری غذاوں کی مارکیٹ میں دکاندار تھے۔ اسی طرح یہ بھی کہا گیا کہ سات افراد کی حالت نازک ہے۔ یہ اس عظیم بحران کا آغاز تھا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس وقت دنیا بھر میں کرونا وائرس کا شکار ہونے والے افراد کی تعداد پندرہ لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے جبکہ 75 ہزار افراد موت کا شکار ہو چکے ہیں۔ اگرچہ یہ اعداد و ارقام پریشان کن ہیں لیکن اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ اب تک اس وائرس کے علاج کیلئے کوئی موثر دوا دریافت نہیں ہوئی اور ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی ویکسین تیار کرنے میں بھی کم از کم 12 سے 18 ماہ کا عرصہ درکار ہو گا۔

اس بارے میں ایک دلچسپ نکتہ جو کچھ حد تک طنز آمیز بلکہ تلخ بھی ہے یہ ہے کہ دنیا میں کرونا وائرس سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک ایسے ہیں جن کا شمار ترقی یافتہ یا مغرب کے بقول پہلی دنیا کے ممالک میں ہوتا ہے۔ امریکہ، اٹلی، برطانیہ اور اسپین بالترتیب کرونا وائرس کا شکار ہونے والے اور اس سے مرنے والے افراد کی تعداد کے اعتبار سے پہلے نمبر پر ہیں۔ اس ناگوار اور تلخ حقیقت نے یورپ اور امریکہ میں موجود صحت، اقتصاد اور حتی سیاست کے شعبوں میں موجود انفرااسٹرکچر کے بارے میں گہری تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ اس وقت دنیا والوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو چکا ہے کہ مغرب اس قدر ترقی کے باوجود کرونا وائرس سے مقابلے میں کیوں اس قدر لاچاری اور بے بسی کا شکار ہو گیا ہے؟ اسی طرح یہ سوال بھی پیش آ رہا ہے کہ مستقبل میں صورتحال کیا ہو گی؟ امریکہ کے معروف ماہر سیاسیات اور اسٹریٹجسٹ نوآم چامسکی نے اس بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ مغربی دنیا میں کرونا وائرس سے پیش آنے والی حالیہ صورتحال کی بڑی وجہ بعض مغربی ممالک پر حکمفرما سیاسی نظام کی نالائقی اور عمدی کوتاہیاں ہیں۔

نوآم چامسکی امریکہ پر حکمفرما سیاسی نظام کے بڑے ناقد سمجھے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس جیسے چیلنج کے مقابلے میں امریکی حکومت نے بدترین حکمت عملی اپنائی ہے۔ اس بدترین حکمت عملی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ آغاز میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کرونا وائرس کو عام انفلوینزا سے موازنہ کرتے ہوئے اس کا مذاق اڑایا۔ اس کے بعد جب اس وبائی مرض کی لہر ملک میں پھیلنا شروع ہو گئی تو انہوں نے وزارت صحت کی جانب سے لاک ڈاون اور دیگر احتیاطی تدابیر کی مخالفت کی۔ نوآم چامسکی نے مغربی ممالک خاص طور پر امریکہ کی بڑی بڑی دوا ساز کمپنیوں کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ یہ کمپنیاں صرف سود کمانے کے چکر میں ہیں اور انہوں نے ہر گز عوام کے فائدے کیلئے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ ان دنوں بھی جب اکثر مغربی ممالک کرونا وائرس جیسی خطرناک بیماری سے روبرو ہیں ان کمپنیوں کی جانب سے کوئی موثر اقدام سامنے نہیں آیا۔ عالمی سطح پر شہرت یافتہ ایک اور امریکی اسٹریٹجسٹ اور سیاسی ماہر ہنری کیسنجر نے بھی اس بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ کرونا وائرس کے بعد والی دنیا ہر گز اس وائرس سے پہلے والی دنیا جیسی نہ ہو گی۔

ہنری کیسنجر کہتے ہیں کہ عالمی سطح پر کرونا وائرس کے خاتمے کے بعد یہ تاثر پایا جائے گا کہ "اس عظیم چیلنج کے مقابلے میں عالمی اداروں کو شکست ہوئی ہے"۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہنری کسینجر کی توجہ سب سے زیادہ امریکہ پر مرکوز ہے کیونکہ کرونا وائرس کے دوران ایک طرف امریکہ کے سیاسی رہنماوں خاص طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کی کمزور پالیسیاں اور اقدامات عیاں ہوئے ہیں جبکہ دوسری طرف میڈیکل اور صحت کے شعبے میں امریکہ کا کمزور انفرااسٹرکچر بھی سامنے آیا ہے۔ ہنری کیسنجر نے اپنے مقالے میں امریکی حکومت اور حکومتی اداروں پر عوامی اعتماد بحال کرنے کے راستے بیان کئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہنری کیسنجر لبرل ڈیموکریسی کے ممکنہ زوال سے پریشان ہیں۔ امریکی حکومت کی جانب سے ٹیکسز کی جنگ، یکطرفہ اقدامات اور بین الاقوامی قوانین کو پس پشت ڈالنے پر مبنی اقدامات نے لبرل ازم کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ لہذا ہنری کیسنجر کی جانب سے لبرل ازم کو بچانے کیلئے پیش کئے جانے والے راہ حل فی الحال وائٹ ہاوس میں کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ یوں موجودہ امریکی صدر اور امریکی حکومت کے ہوتے ہوئے ہنری کیسنجر اور ان جیسے دیگر ماہرین کو کسی مثبت اقدام کی توقع نہیں رکھنی چاہئے۔  
خبر کا کوڈ : 855681
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش