1
0
Saturday 18 Apr 2020 17:32

کیا ایران گلگت بلتستان میں مداخلت کر رہا ہے؟

کیا ایران گلگت بلتستان میں مداخلت کر رہا ہے؟
تحریر: ذاکر حسین میر

دنیا نے بہت سارے انقلاب دیکھے؛ روس کا انقلاب ہو یا الجزائر کا انقلاب، چین کا کلچرل انقلاب ہو یا انگلستان کا صنعتی انقلاب۔ فرانس کا سیاسی انقلاب ہو یا دنیا کے دیگر خطوں میں چلنے والی انقلابی تحریکیں؛ ان  سب سے دنیا کسی نہ کسی شکل میں ضرور متاثر ہوتی رہی ہے۔ ان میں سے بعض کے آثار سیاسی تھے، بعض کے اقتصادی تھے جبکہ بعض کے آثار سیاسی، اقتصادی، تہذیبی اور ثقافتی تھے۔ 1979ء میں آنے والے اسلامی انقلاب کو مذکورہ انقلابات کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس میں کچھ ایسی خوبیاں دیکھنے کو ملتی ہیں، جو دیگر انقلابی تبدیلیوں میں نظر نہیں آتیں۔ یہ ایک خالص عوامی تحریک تھی، جس نے اڑھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کو چیلنج کیا۔ اس انقلاب کی پشت پر بچوں، بوڑھوں، جوانوں اور خواتین کی مخلص اور قوت ایمانی سے سرشار کوششوں کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں ان سے برسرپیکار تھیں۔ اس انقلاب کی قیادت مخلص، عوام دوست، استکبار ستیز، استعمار شناس ہونے کے ساتھ ساتھ نظریاتی، مذہبی، علم و عمل سے سرشار، مومن، پرہیزگار اور عوامی دوستی میں سو فیصد سچی اور مخلص تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اس قیادت کو نہ صرف ایران بلکہ پوری دنیا میں پذیرائی ملی۔

انقلاب اسلامی سے متاثر ہونے والی شخصیات، تنظیموں اور تحریکوں کی ایک لمبی فہرست ہے، جس میں یورپ اور افریقا سے لے کر عرب اور غیر عرب ممالک کی شخصیات اور تنظیمیں شامل ہیں۔ اس کی ایک واضح مثال شیخ ابراہیم زکزاکی ہیں، جنہوں نے انقلاب اسلامی سے متاثر ہو کر حنفی مسلک کو خدا حافظ کہا، امام خمینی کے مکتب کو اختیار کیا اور نہ صرف اختیار کیا بلکہ نائیجیریا، جہاں مکتب تشیع کا نام نشان تک نہ تھا، کے لاکھوں لوگوں کو اس مکتب کی طرف بلایا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہاں لوگوں کا ایک سیلاب امڈ آیا، جنہوں نے سینہ تان کر اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانا شروع کی، جس کے بعد حکومتی مشینری نے ان کے ساتھ جو کچھ کیا، وہ دنیا کے سامنے ہے۔ اسی طرح دنیا کے دیگر خطوں میں بھی نئی تحریکیوں نے جنم لیا یا پہلے سے موجود تحریکیوں کو حوصلہ ملا، جنہوں نے انقلاب اسلامی ایران کو اپنے لئے رول ماڈل قرا ر دیتے ہوئے جدوجہد کا آغاز کیا۔

مصر کی اخوان المسلمین ہو یا پاکستان میں جماعت اسلامی، عراق کی دعوت اسلامی ہو یا لبنان میں حزب اللہ، امل اسلامی اور سنی تحریک توحید اسلامی، بحرین کی جبہہ اسلامی ہو یا کویت میں جنبش اسلامی، انڈنیشیاء اور ملائیشاء میں اٹھنے والی تحریکیں ہوں یا افریقا کے مختلف ممالک میں استعمار کے خلاف برسرپیکار جماعتیں، سب انقلاب اسلامی ایران کو امید کی ایک کرن سمجھتی تھیں اور انہیں کم از کم یہ بات سمجھ آگئی تھی کہ عوامی طاقت کے ذریعے بڑی طاقتوں کو شکست دی جاسکتی ہے۔ ایک اسلامی ریاست ہونے کے ناطے پاکستان کا بھی اس عظیم انقلاب سے متاثر ہونا ایک یقینی امر تھا؛ خصوصاً گلگلت بلتستان، جہاں مکتب اہل بیت سے وابستہ لوگوں کی اکثریت رہتی ہے، ان کا اس انقلاب سے متاثر ہونا ایک فطری بات تھی۔ یہاں کے لوگ امام خمینی کو اپنا دینی، روحانی اور عقیدتی مرجع سمجھتے ہیں۔ دینی احکامات کو اس عظیم فقیہ سے لیتے رہے ہیں اور اپنی شرعی وجوہات کو ان تک پہنچاتے رہے ہیں، جو مدارس کے اخراجات کی شکل میں دوبارہ اسی خطے پر خرچ ہوتے رہے ہیں۔

تو کیایہ ممکن ہے کہ یہاں کی عوام اپنا دین، احکام اور عقیدہ تو امام خمینی سے لیں، لیکن ان کی اس عظیم انقلابی شخصیت سے متاثر نہ ہوں۔؟ کوئی مداخلت کرے یا نہ کرے، کوئی روکے یا ترغیب دے، یہاں کے لوگوں کا امام کی تحریک، ان کے نظریات اور ان کی تعلیمات سے متاثر ہونا لازمی امر ہے۔ جس چیز کو دنیا کی استعماری طاقتیں یا ان کے آلہ کار ایرانی مداخلت قرار دے رہے ہیں، وہ حقیقت میں انقلاب اسلامی کے وہ آثار ہیں، جن سے یہاں کی شخصیات اور تنظیمیں متاثر ہوئیں۔ دنیا کے دیگر خطوں کی مانند یہاں بھی امام خمینی سے متاثر شخصیات پیدا ہوئیں، نوجوان امام خمینی کے انقلابی نظریات سے متاثر ہوئے اور اپنی تحریر، تقریر، جلسہ اور جلوس کے ذریعے امام کے نظریات کی پرچار اور ان کے انقلابی اور استعمار ستیز نعروں کی حمایت شروع کر دی۔

دوسری طرف امام کی تحریک دنیا بھر میں ہونے والے مظالم کے خلاف ایک آواز بھی تھی۔ انقلاب کے بعد سے لے کر آج تک اگر عالمی استکبار اور استعمار کے خلاف کوئی مضبوط آواز اٹھی ہے تو وہ انقلاب اسلامی ایران کی ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اگر دنیا کے دیگر خطوں سے بھی یہی آواز بلند ہو اور ایران اسلامی کی آواز میں آواز ملا کر دنیا میں ہونے والے مظالم کی مذمت کی جائے تو اسے ایرانی مداخلت کا نام دیا جائے؟ کیا یہ وہی آواز نہیں ہے، جو ظالم سے نفرت اور مظلوم کی حمایت کرنے پر انسان کو اکساتی ہے۔؟ اگر یہ ایرانی مداخلت ہے تو انسانی فطرت اور ضمیر کس چیز کا نام ہے۔؟ دنیا بھر کی طرح گلگلت بلتستان میں بھی سال میں ایک مرتبہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم قدس کے طور پر منایا جاتا ہے اور اس دن دنیا کے تمام غاصبوں، ظالموں اور حرام خوروں کے خلاف آواز بلند ہوتی ہے، جن میں سرفہرست غاصب صہیونی حکومت اور اس کا حامی امریکہ ہیں۔ اس دن مسلمان اپنا دینی اور شرعی وظیفہ سمجھ کر فلسطین کے ان مظلوموں کی حمایت میں نعرہ بازی کرتے ہیں، جو پتھر اٹھا کر اپنی دھرتی کی حفاظت کر رہے ہیں۔

کیا فلسطین ایرانیوں کا مسئلہ ہے۔؟ کیا بیت المقدس صرف ایرانیوں کا قبلہ اول ہے۔؟ سال میں ایک مرتبہ مظلوموں کے حق میں ہونے والے اس عالمگیر احتجاج کو ایرانی مداخلت قرار دینے کے بجائے، ہونا تو یہ چاہیئے کہ مسلمان ہر دن کو بیت المقدس کی آزادی اور فلسطین کے مظلوموں کی حمایت کے لئے قدس کے طور منائیں۔ یہ مرحوم امام کی سیاسی بینش اور بصیرت تھی کہ عالم اسلام کے سب سے بڑے مسئلہ کو اپنی خارجہ پالیسی کا حصہ بنایا اور مسلمانوں کو اس اہم مسئلہ سے غافل نہ رہنے کی تاکید کی اور فرمایا: قدس اور فلسطین میں ڈھائے جانے والے مظالم سے غفلت، امت مسلمہ کی خیانت ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے بیدار اور مخلص مسلمان کم از کم سال میں ایک مرتبہ ہی سہی امام خمینی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے، اپنی بیداری کا ثبوت دیتے ہوئے فلسطین کے مسلمانوں کی حمایت کے لئے گھروں سے نکلتے ہیں، ظالموں کی بھرپور مذمت کرتے ہیں اور اگر کوئی ظلم، زیادتی، حق تلفی، عصمت دری، استحصال، دوسروں کی سرزمین پر ناجائز تسلط اور قوموں سے ان کی آزادی چھیننا وغیرہ وغیرہ کے خلاف اٹھنے والی اس آواز کو ایرانی مداخلت قرار دیتا ہے تو یا وہ انہی ظالم اور استعماری طاقتوں کا آلہ کار ہے یا عقل، شعور، ہمدردی اور انسانیت سے عاری ہے۔
خبر کا کوڈ : 857510
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
بہت ہی عمدہ، زبردست تحلیل، جزاکم اللہ۔
ہماری پیشکش