1
Sunday 10 May 2020 20:37

مائیک پمپئو کے عنقریب مقبوضہ فلسطین دورے کے اہداف

مائیک پمپئو کے عنقریب مقبوضہ فلسطین دورے کے اہداف
تحریر: عبدالباری عطوان (چیف ایڈیٹر اخبار رای الیوم)

کرونا وائرس کے پھیلاو کے باعث امریکی وزیر خارجہ کے بیرون ملک دوروں میں دو ماہ کے تعطل کے بعد انہوں نے اپنے پہلے دورے کیلئے مقبوضہ فلسطین کا انتخاب کیا ہے۔ اس دورے سے متعلق ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ دورہ جنوبی لبنان میں غاصب صہیونی رژیم کی حزب اللہ لبنان کے ہاتھوں عظیم شکست کی بیسویں سالگرہ کے موقع پر انجام پا رہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپئو کے اس دورے کا بنیادی مقصد متفقہ کابینہ تشکیل دینے پر اتفاق رائے کی خاطر بنجمن نیتن یاہو اور بنی گانتیز کو مبارکباد پیش کرنا ہے۔ اسی طرح ان کا ایک اور مقصد امریکہ کی جانب سے اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کو یہ یقین دہانی کروانا بھی ہے کہ وہ اس رژیم کی جانب سے مغربی کنارے کو اپنے ساتھ ملحق کرنے پر مبنی منصوبے کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ یاد رہے امریکہ نے مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے کچھ ماہ پہلے سینچری ڈیل نامی منصوبے کا اعلان کیا تھا جس میں اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کو اردن کے علاقے مغربی کنارے کو اپنے ساتھ ملحق کرنے کا حق دیا گیا تھا۔ دوسری طرف امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپئو کے عنقریب دورہ مقبوضہ فلسطین کے بعض ایسے اہداف بھی ہیں جن کا باقاعدہ طور پر اعلان نہیں کیا گیا۔
 
امریکی اور صہیونی حکام کافی عرصے سے ایک اسٹریٹجک منصوبے پر مشترکہ طور پر کام کرنے میں مصروف ہیں۔ اس منصوبے کا بنیادی مقصد اسلامی مزاحمتی گروہوں خاص طور پر لبنان میں حزب اللہ کو کمزور کرنے پر استوار ہے۔ واشنگٹن اور تل ابیب امریکہ کے نئے صدارتی الیکشن منعقد ہونے سے پہلے اپنے منصوبے پر عمل پیرا ہونا چاہتے ہیں۔ لہذا مائیک پمپئو کے مقبوضہ فلسطین دورے کا ایک مقصد اس اسٹریٹجک منصوبے کا جائزہ لینا ہے۔ لیکن اس وقت جو اہم نکتہ پایا جاتا ہے وہ اسرائیل کے اعلی سطحی حکام کے کچھ تحفظات اور پریشانیاں ہیں۔ ان پریشانیوں کے باعث وہ امریکہ کے تمام ایران مخالف اور اسلامی مزاحمت کے خلاف انجام پانے والے اقدامات میں شامل ہونے پر مجبور ہیں۔ اس بارے میں تل ابیب کی پریشانیوں اور تحفظات کی حقیقی وجوہات مندرجہ ذیل امور میں تلاش کی جا سکتی ہیں:
1)۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی روز بروز بڑھتی ہوئی طاقت۔ حال ہی میں ایران نے کامیابی سے اپنا پہلا فوجی سیٹلائٹ "نور" زمین سے 440 کلومیٹر کی بلندی پر مدار میں قرار دے دیا ہے جو ایران کی بڑھتی ہوئی طاقت کی واضح دلیل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران کا یہ فوجی سیٹلائٹ امریکہ اور غاصب صہیونی رژیم کی تمام فوجی نقل و حرکت پر نظر رکھ سکتا ہے۔
 
2)۔ ایران کی سربراہی میں اسلامی مزاحمتی تنظیم حزب اللہ لبنان کی جانب سے تین شمالی محاذوں پر اسرائیل کا گھیراو کرنے میں کامیابی۔ غاصب صہیونی حکام اچھی طرح جانتے ہیں کہ حزب اللہ لبنان کی موجودہ طاقت ماضی کی نسبت چند گنا بڑھ چکی ہے اور یہ مزاحمتی تنظیم میزائلوں کے انتہائی وسیع ذخائر کی مالک بن چکی ہے۔
3)۔ خطے میں اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کی اتحادی حکومتیں جیسے آل سعود رژیم روز بروز کمزور ہوتی جا رہی ہیں۔ خاص طور پر کرونا وائرس کے پھیلاو کی وجہ سے اس زوال میں تیزی آئی ہے۔ اسرائیلی حکام بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ سعودی عرب سمیت عرب ممالک کرونا وائرس کے پھیلاو کی وجہ سے شدید اقتصادی مشکلات کا شکار ہو چکے ہیں۔ اسی وجہ سے وہ اپنے سب سے بڑا اور طاقتور ترین ہتھیار یعنی "دولت" کھوتے جا رہے ہیں۔
4)۔ انصاراللہ یمن نامی نئی طاقت کا ظہور۔ اسرائیل کے غاصب صہیونی حکام بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس وقت یمن کے مزاحمتی گروہ خاص طور پر انصاراللہ خاص فوجی طاقت کے حامل ہو چکے ہیں۔ ان کے پاس جدید اور ترقی یافتہ ڈرونز اور میزائل موجود ہیں۔
 
بہرحال امریکی وزیر خارجہ مائیک پمپئو ایسے وقت مقبوضہ فلسطین کا دورہ کرنے جا رہے ہیں جب اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم مغربی کنارے کو اپنے زیر تسلط علاقوں کے ساتھ ملحق کرنے پر حد سے زیادہ اصرار کرنے میں مصروف ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صہیونی حکام کی جانب سے ایسے ممکنہ اقدام کی صورت میں مقبوضہ فلسطین میں آزادی کی تحریک یا "انتفاضہ" دوبارہ جنم لینے کا خطرہ موجود ہے۔ اس منصوبے کے مخالفین بھی خاصی طاقت کے حامل ہیں۔ ان مخالفین میں سے ایک اسلامی جمہوریہ ایران ہے جس نے اپنی فضائی طاقت کے ذریعے خلیج فارس میں امریکی ڈرون طیارہ بھی مار گرایا تھا۔ اس منصوبے کا ایک اور مخالف گروہ انصاراللہ یمن ہے۔ انصاراللہ یمن اب تک سعودی عرب کی تیل کی مصنوعات پر کاری میزائل حملے کر چکا ہے۔ اسی طرح اس صہیونی منصوبے کی ایک اور مخالف قوت حزب اللہ لبنان ہے۔ لہذا اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران ان اسلامی مزاحمتی گروہوں اور تنظیموں کی مدد سے اسرائیل کا یہ منصوبہ خاک میں ملانے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ قوتیں ہر گز اسرائیل کو اپنے ظالمانہ منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کی اجازت نہیں دیں گی اور اگر غاصب صہیونی رژیم نے زیادہ اصرار کیا تو اس کا نتیجہ اس کی مکمل نابودی کی صورت میں بھی ظاہر ہو سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 861851
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش