3
Monday 11 May 2020 11:40

شہید استاد سید سبط جعفر زیدی ایک عہد ساز شخصیت

شہید استاد سید سبط جعفر زیدی ایک عہد ساز شخصیت
تحریر: سیدہ تابندہ زیدی 
دختر شہید استاد سبط جعفر


شہید استاد سید سبط جعفر زیدی 7 مارچ 1957ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ گریجویشن کے بعد دو مضامین (subjects) میں ماسٹر، پھر ایل ایل بی (L.L.B) اور سی ایس ایس (C.S.S) بھی کیا۔ ایڈووکیٹ ہونے کے باوجود اپنے والد کے مشورے پر وکالت کے بجائے معلم کا پیشہ اختیار کیا۔ طویل عرصہ پروفیسر رہے اور اس کے بعد اسی گورنمنٹ ڈگری سائنس کالج کے پرنسپل کے عہدے پر فائز ہوئے۔ 20 گریڈ کے سرکاری افسر، مگر انتہائی سادہ طبیعت۔ ساری زندگی اپنی موٹر سائیکل پر سفر کیا اور سادہ زندگی گزاری۔ 18 مارچ 2013ء کو پیر کے دن دوپہر کالج سے واپسی پر دہشتگردوں نے فائرنگ کا نشانہ بنایا اور 56 سال کی عمر میں شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے۔

*ظہور امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کیلئے ہماری آمادگی*
شہید سبط جعفر ان منتظرین امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ شریف میں سے تھے، جو ہر وقت امام (عج) کی نصرت کے لئے آمادہ رہتے تھے۔ ہم بھائی اور بہنوں کی تربیت میں اس پہلو کو نمایاں حیثیت دی۔ ان کا کہنا تھا کہ بحیثیت منتظر امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف ہم شیعوں نے ظہور امام کے لئے کوئی آمادگی اور تیاری نہیں کی، صرف زبانی دعوے ہیں۔ اسی لئے انہوں نے ایک کلام *جب امام آئیں گے* لکھا اور خود اپنی آواز میں اس کو ریکارڈ کرایا۔ جس میں ظہور سے متعلق اپنی عقیدت و جذبات کے ساتھ اپنا درد دل بیان کیا ہے۔ شہید سبط جعفر کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرنا بہت مشکل کام ہے، مگر میں کوشش کروں گی کہ 3 نکات میں اس گفتگو کو سمیٹ سکوں۔
▪️بحیثیت شاعر
▪️بحیثیت سوز خوان
▪️بحیثیت ایک عام آدمی۔

*بحیثیت شاعر*
شہید سید سبط جعفر زیدی کا نام آتے ہی ذہن میں ایک ایسے شاعر کا تصوّر آتا ہے، جس نے اپنی شاعری سے نہ صرف مدحِ اہل بیت (ع) اور مصائبِ بیان کیے بلکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حق بھی ادا کیا۔
*اعمال و عقاٸد اپنی جگہ، حلیہ بھی تو ہو مومن جیسا*
*مونچھیں کر کم اور داڑھی رکھ، اے میرے برادر ایمانی*
*نگراں ہیں امام زماں تجھ پر، تقلید بھی کر ماتم بھی کر*
*دشمن پہ نگاہیں گہری رکھ، اے میرے برادر ایمانی*
*بن سکتا نہیں قمبر، فضہ، پر سوچ تو ہے شیعہ کس کا؟*
*کچھ لاج علی و بتول کی رکھ، اے میرے برادرِ ایمانی*

ان کے کئی کلام ان کی وجہ شہرت بنے، کیونکہ ان کے کلاموں میں اصول دین بھی دکھائی دیتے ہیں اور فروعِ دین بھی۔ انکا اصل کمال یہ تھا کہ اصولِ دین اور فروعِ دین نہ صرف ان کی اصل زندگی میں بلکہ موت تک میں دکھائی دیئے، کیونکہ ان کی آرزو کے مطابق ان کی موت شہادت کی موت تھی۔ شہادت ایک ایسا منصب ہے، جو ہر کسی کو نہیں ملتا۔ اگر ہم کسی بھی شہید کی اصل زندگی کا مطالعہ کریں تو ہم دیکھیں گے کہ شہید اپنے مذہبی عقائد اور پیشہ وارانہ صلاحیتوں سے ہٹ کر اپنی عملی زندگی میں بھی ایک بہترین انسان ہوتا ہے۔

🩸شہید سید سبط جعفر اپنے بارے میں ہمیشہ یہ کہتے تھے کہ "مجھے شاعر ہونے کی کوئی خوش فہمی نہیں، میں تو بس ایک واجبی اور سطحی سا شاعر ہوں۔ اصل میں تو سوز خوان ہوں۔" پاکستان کے تمام بڑے نواحہ خواں، منقبت خواں ابو کے پاس اصلاح کے لیے آتے تھے اور آح بھی ان کو اپنا استاد مانتے ہیں۔ ابو نے کبھی زندگی میں اس پر فخر نہیں کیا۔ انکساری کا عالم یہ تھا کہ نہ تو کبھی کسی پروٹوکول کی پرواہ کی اور نہ اشتہار میں نام چھپنے کی خواہش۔ نہ ہی لفافے اور کرائے کے طلبگار ہوئے اور نہ ہی کبھی "پِک اینڈ ڈراپ" مانگا اور نہ ہی پیٹرول کا خرچہ، اپنی موٹر سائیکل پر محفل یا مجلس میں پہنچ جایا کرتے تھے۔ عام طور پر بزرگ، بڑے اور صاحب طرز شعراء کو محفل کے آخر میں پڑھایا جاتا ہے، لیکن وہ اس کی بھی پرواہ نہیں کرتے تھے۔ جس نے جب پڑھوایا آپ نے پڑھ دیا۔ وقت کی پابند تھے۔ ہمیشہ پہلے سے محفل میں پہنچ جاتے، سوائے اس کے کہ کہیں اور بھی محفل ہو۔ سینیئر (senior) بزرگ شعراء کا دل سے احترام کرتے اور اپنے جونیئر(junior) شعراء اور نئے آنے والوں کو بھی ویلکم کرتے اور انکی حوصلہ افزائی کرتے۔ کہا کرتے تھے "با ادب بانصیب بے ادب بدنصیب۔"

کسی کو ناشتے اور چائے پانی کی زحمت دینے سے بھی گریز کرتے اور اگر بانیان کے اصرار پر نذر و نیاز کا اہتمام ہوتا تو یہ تاکید ہوتی کہ "نیاز یا تو محفل مجلس شروع ہونے سے پہلے رکھیں یا پھر مجلس محفل ختم ہونے کے بعد، کیونکہ یہ بات بہت نامناسب ہے کہ بی بی اور عزادار تو فرش عزا پر بیٹھے ہوں اور ہم دورانِ مجلس الگ سے بیٹھ کر پروٹوکول protocol میں کھانا کھائیں۔" اسی طرح ایک مرتبہ بانیان محفل نے لفافہ پیش کیا، شہید نے لینے سے معذرت کرلی، بانیان محفل ناراض ہونے لگے  تو کہا کہ "یقیناً ہدیہ نذرانہ پیش کرنا آئمہ (ع) کی سنت ہے اور لینا پڑھنے والے کا حق بھی، بلکہ شاعر اور ترنم/لحن سے پڑھنے والے کی تو زیادہ فضیلت ہے اور ائمہ نے  بھی اپنی بارگاہ سے شاعر کو نوازا ہے۔ فرزدق اور سیدِ سجاد علیہ السلام کا واقعہ آپ کے ذہنوں میں ہوگا ہی، مگر میں اپنے بارے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں فرزدق کی اولاد نہیں۔۔۔ سید سجاد کی اولاد ہوں (بحیثیت زیدی سادات) اصولاً تو میری جگہ عزاداروں کے جوتوں کے پاس بنتی ہے، میرا کام تو عزاداری اور عزاداروں کی خدمت کرنا ہے۔" پھر بھی اگر مخیر حضرات لفافے پر اصرار کرتے تو اس کو مستحقین میں تقسیم کر دیا کرتے، اپنے یا اپنے گھر والوں پر اس کا استعمال نہیں کرتے تھے۔

*بحیثیت سوز خوان*
شہید استاد ہمیشہ اپنے آپ کو سوزخوان کی حیثیت سے پہچنوانا چاہتے تھے۔ یہ ان کا شوق اور passion بھی تھا اور اس فن پر ان کو مکمل عبور حاصل تھا۔ وہ خود کہتے تھے کہ شاعر تو اور بہت سے ہیں، لیکن سوز خوانی کے لیے اس وقت کوئی سکھانے والا استاد موجود نہیں، حبکہ سوز خوانی کو اسلامی تاریخ میں ایک باقاعدہ فن کا درجہ حاصل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سوز خوانی کو اگر اس کے مخصوص انداز کے ساتھ صحیح طور پر پیش کیا جائے تو وہ اپنے خاص سروں اور سوز و گداز کی وجہ سے ایک ”غیر مجلسی” آدمی کو بھی فرش عزاء تک لے آتی ہے۔ البتہ سوز خوانی یا مرثیہ خوانی بیس منٹ سے زیادہ طویل نہیں ہونی چاہیئے، ممبر پر اتنا ہی پڑھا جائے کہ سننے والوں کی کچھ تشنگی باقی رہ جائے۔ انہوں اس فن کو نئی نسل میں منتقل کرنے کے لیے "ادارہ ترویج سوز خوانی” قائم کیا۔ جس میں نوجوانوں کو بغیر کسی فیس کے باقاعدہ سوز خوانی کی تعلیم دی، ساتھ ہی سوز خوانی پر اپنی زندگی کی محنتوں کا نچوڑ، اپنی مشہور تالیف "بستہ" بھی مرتب کیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ اپنے بعد بھی اس سلسلے کو جاری رکھنے کے لیے اپنی زندگی میں ہی اس کا انتظام کر دیا۔

الحمدللہ آج بھی یہ سلسلہ استاد کے ساتھیوں کی سربراہی میں جاری ہے۔ اپنے قریبی ساتھیوں اور شاگردوں کے لیے استاد اکثر کہتے تھے کہ میری خوش نصیبی ہے کہ سوز خوانی میں میرے ساتھی خلوص میں ناصران امام حسین علیہ السلام کے پیروکار ہیں۔ ادارہ ترویج سوز خوانی میں نہ صرف سوز خوانی کی تربیت کی بلکہ بقول استاد "سوز خوانوں" کی تربیت بھی کرنے کی کوشش کی، تاکہ یہ عزادار فرشِ عزاء کے علاوہ بھی معاشرے کے لئے ایک فائدے مند شہری ثابت ہوسکیں۔ ادارے میں شمولیت کے لئے نماز، روزے اور داڑھی کا پابند ہونا بھی لازمی قرار دیا اور دنیاوی تعلیم یا ہنر سیکھنے کی بھی تاکید کی، کیونکہ تعلیم و ہنر کے ذریعے کوئی باقاعدہ ذریعہ معاش ہوگا تو ذکر آئمہ معصومین علیہ السلام کو ذریعہ معاش نہیں بنائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کے ساتھ، گھریلو ذمہ داریوں کو بھی ادا کریں اور ساتھ ہی اپنی صحت اور آرام کا بھی خیال کریں۔ مختصرا یہ کہ: "حقوقُ اللہ، حقوقُ العباد اور حقوقُ النفس میں توازن رکھتے ہوئے عزاداری کریں۔"

یہاں ضمناً ایک بات عرض کرتی چلوں کہ استاد خواتین کو تکنیکی قسم کی سوز خوانی سکھانے کے قائل نہیں تھے، اس کی ایک وجہ تو پردے کے مسائل ہیں، کیونکہ خطابت یا نثری ذاکری کی بات تو اور ہے، لیکن لحن سے پڑھنے میں اکیلی عورت کی آواز نامحرم تک نہیں جانی چاہیئے۔ دوسری وجہ یہ کہ خواتین اگر سیکھ بھی لیں تو ان پر گھریلو ذمہ داریاں زیادہ ہوتی ہیں اور اکثر شادی کے بعد شوہر یا سُسرال کی طرف سے انہیں اس کی اجازت اور فرصت نہیں مل پاتی۔ لہذا خواتین پہلے بچوں کی تربیت، شوہر، والدین یا دیگر گھر والوں کے حقوق کی ادائیگی ممکن بنائیں، اس کے بعد اگر فرصت اور اجازت ہو تو صرف محلے اور خاندان کی حد تک اپنا شوق ضرور پورا کریں، مگر شہر سے باہر یا دور دراز علاقوں میں جانے سے گریز کریں۔ البتہ خواتین ذاکرین کا یہ حق ہے کہ بانیان ان کے "پک اینڈ ڈراپ" کا انتظام خود کریں۔

یہاں ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ استاد کو راگوں اور سُروں کے علم پر بھی مکمل عبور حاصل تھا اور پروردگار نے ان کو ایک الگ ہی گَلا اور آواز عطا کی تھی، مگر ان کی بندشوں یعنی کمپوزیشنز میں کہیں بھی گانے یا غنا و موسیقی کا گمان تک نہ ہوتا تھا اور وہ اس کی شدید مخالفت کرتے تھے کہ ذکرِ اہل بیت (ع) کو گانوں کی طرز پر بنایا جائے۔ شہید سبط جعفر کی سوز خوانی کو امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی (Harvard university) میں بھی سراہا گیا اور وہاں کے ووکل آرٹس vocal arts کے شعبے سے انہیں یہ دعوت دی گئی کہ وہ ہارورڈ یونیورسٹی آکر سوز خوانی کے بارے میں لیکچر دیں، مگر چند وجوہات کی بنا پر یہ ممکن نہ ہوسکا۔ شہید کو بہت مرتبہ دوسرے ممالک میں نیشنلٹی اور امیگریشن کی پیشکش بھی ہوئی، مگر وہ کہتے تھے کہ تعلیم حاصل کرنے، سیر و سیاحت یا مجلس و محافل پڑھنے جانے کی حد تک تو اور بات ہے، مگر مستقل سکونت اختیار کرنے کے لیے اپنا ملک پاکستان ہی سب سے بہتر ہے۔

ذکرِ مولا کے طفیل کئی ممالک کا دورہ کیا، مگر جیینے مرنے کے لئے اپنا ملک ہی سب سے بہترین پایا۔ وہ کہتے تھے کہ "اک غیر ملک جا کر دوسرے درجے کا شہری بن کر رہنے سے بہتر ہے کہ عزت سے اپنے ملک میں اولین درجہ کے شہری بن کر رہیں۔" اور پھر وطن سے محبت تو ائمہ (ع) کی بھی سنت ہے۔ ملک میں حالات کی خرابی کے باعث لوگوں نے باہر جانے کی پیشکش کی تو کہا کہ میں اپنا ملک کیوں چھوڑوں؟ "رزق مجھے یہاں بھی ملے گا اور موت مجھے وہاں بھی آجائے گی۔" اسی طرح اکثر کہا کرتے تھے کہ "مرنا تو سب کو ہے تو پھر کینسر یا روڈ ایکسیڈنٹ میں مرنے سے بہتر ہے کہ چلتے ہاتھ پاؤں شہادت کی موت نصیب ہو۔" کالج کے ایک قریبی دوست نے باہر آنے جانے میں احتیاط کرنے کو کہا تو از راہِ مذاق کہنے لگے کہ "تم لوگ تو مجھ سے جلتے ہو، چاہتے ہی نہیں ہو کہ مجھے شہادت ملے۔" استاد خود بھی شہادت کے متمنی رہے اور لوگوں میں بھی شہادت کا شعور بیدار کرنے کی کوشش کی۔ یہاں تک کہ شہادت سے کئی ماہ قبل اپنے دو کلام منظوم وصیت نامے کی شکل میں لکھ کر گئے۔ ایک کلام احباب کے نام اور دوسرا قاتلوں کے نام۔ ان دونوں کلاموں کے آخر میں انہوں نے اپنا نام شہادت سے قبل ہی *"شہید سبط جعفر بقلم خود" لکھا*

*نِجی زندگی اور بحیثیت عام انسان*
شہید سبط جعفر اپنی عام زندگی میں بھی ایک خوش مزاج، نرم دل اور ہمدرد انسان تھے۔ کوئی بھی پریشان آتا تو اس کی مدد کرتے، چاہے مالی طور پر ہو، ہاتھ پاؤں سے ہو یا دلجوئی، حوصلہ افزائی اور کاؤنسلنگ (counselling) سے۔ ویسے تو استاد انجمن وظیفہ سادات، جے ڈی سی JDC اور شہید فاؤنڈیشن سے بھی وابستہ رہے، مگر اپنے طور پہ بھی جہاں تک ممکن ہوا، لوگوں کی مدد کرتے رہے، مگر کسی social work کے لیے جگہ جگہ چندے کی اپیلیں کرنا پسند نہیں کرتے، بلکہ اپنے وسائل میں رہتے ہوئے خاموشی سے امداد کرتے۔ محفل مجلس کے بعد اگر مخیر حضرات زبردستی لفافہ دینے کی ضِد کریں تو پھر ان سے ہی کہتے کہ فلاں جگہ فلاح ایڈریس پر فلاں صاحب کو یہ لفافہ پہنچا دیں۔ اس سے ان کے گھر کا کرایہ، بچوں کی فیس، گھر کا راشن یا پھر علاج کے پیسے ہو جائیں گے۔ ہر انسان کو اہمیت دیتے اور توجہ سے ملتے۔ محفل مجلس کے آخر میں جتنے بھی مَدّاح ملنے کے متمنی کھڑے ہوتے، ہر ایک سے ہاتھ ملاتے، توجہ سے ان کی بات سنتے اور پسندیدگی کا شکریہ ادا کرکے جاتے، حالانکہ اس کام میں کافی دیر لگ جایا کرتی۔

یہی وجہ تھی کے وسیع حلقہ احباب ہونے اور ہر ایک کی دسترس میں ہونے کی وجہ سے ان کا موبائل فون مسلسل بجتا رہتا تھا۔ گھر میں ہوتے تو فون بند کرکے ہم گھر والوں کو وقت دینے کی کوشش کرتے، لیکن جب فون کھولتے تو تمام پیغامات کا خود جواب دیتے، چاہے صرف اوکے ok لکھ کر بھیجیں۔ اول وقت نماز ادا کرتے، مجلس محافل کے علاوہ بھی کسی کو وقت دیا ہو تو وقت سے 15 منٹ پہلے پہنچنے کی کوشش کرتے۔ *گھریلو زندگی* میں اور گھر کے باہر پروگراموں میں نظم و ضبط اور حُسنِ انتظام کو پسند کرتے اور کہتے کہ "ہر چیز order اور disciplined میں ہونی چاہیئے۔" گھر کی maintenance ہو، کوئی چیز مُرمّت کرانی ہو، تو اس کا خیال رکھتے، یہاں تک کہ اپنی الماریاں اور دَرازوں کو بھی organized رکھتے۔ گھر کا سودا سلف اور راشن خود لاتے، اسکول کالج تک ہم بچوں کے کورس کتابیں خود لاتے رہے۔ اسکول کالج کی فیس، گھر کے بِلز اور گھر یا کالج میں کام کرنے والے ماتحتوں کی تنخواہ بھی وقت پر دیتے، بلکہ اگر شہر یا ملک سے باہر جانا ہو تو وقت سے پہلے ہی دے کر جانے کی کوشش کرتے۔

عید کے موقع پر ہم بہنوں و بھائی، شاگردوں، خاندان کے بچوں اور کالج کے چپراسی تک کو لفافے میں عیدی رکھ کر عزت سے پیش کرتے، چاہے تھوڑی تھوڑی ہو۔ استاد کو چھوٹے بچوں سے خصوصی شَغَف تھا۔ چلتے پھرتے کسی کے بھی بچوں سے کھیلنا شروع کر دیتے اور ملاقات کے لئے آنے والے اپنے پرستار بچوں کے نام تک یاد رکھتے۔ میں اپنے بچوں کے ساتھ ابو کے گھر رہنے آیا کرتی تھی تو اپنے نواسوں کو وقت دینے اور کھیلنے کے لیے کالج سے جلدی آجاتے۔ بقول انکے "جلدی بھاگ آتے۔" امی، ہم تینوں بچوں اور دونوں نواسوں کی سالگرہ ضرور یاد رکھتے اور کوئی نہ کوئی تحفہ ضرور دیتے۔ بے پناہ مصروفیات کے باعث زیادہ گھومنے پھرنے کا موقع نہیں ملتا تھا، لیکن پھر بھی وقت نکال کر ایک بار ہمیں شہر کی تمام مشہور جگہوں پر ضرور لے کر گئے۔ ایک بار کرکٹ میچ دکھانے اسٹیڈیم بھی لے کر گئے۔ فلمیں دیکھنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، لیکن رسول اللہ کی زندگی پر مبنی فلم دا میسج THE message اور قائداعظم پر بنی فلم جناح  JINNAH the movie دکھانے سینما بھی لے گئے، تاکہ بچوں کو دنیا کا پتہ ہو۔ اسی طرح ایک بار شمالی علاقہ جات، مَری وغیرہ  بھی لے کر گئے۔

ان سب کے علاوہ ابو کی خواہش تھی کہ ان کے بچے عمرہ اور چہاردہ معصومین علیہ السلام کی زیارات ضرور کر لیں۔ یعنی مکہ، مدینہ، ایران، عراق اور شام جا سکیں، لیکن اُس وقت مالی حالات اس کی اجازت نہ دیتے تھے۔ ایسے وقت میں امی نے ہمیشہ کی طرح ابو کا بھرپور ساتھ دیا اور اپنا زیور بیچ کر ہمیں ابو کے ساتھ ایران، عراق اور شام کی زیارت پر لے گئیں۔ حالات بہتر ہوتے ہی ابو نے وہ سب لوٹا دیا اور پھر امی اور بچوں کو عمرہ بھی کروایا۔ خود امّی کے ساتھ حج بھی کیا۔ ابو نے ہم دونوں بیٹیوں کی شادی کے حق مہر میں بھی عمرہ زیارت لکھوائی۔ استاد کہتے تھے کہ وَلِیوں میں تین خصوصیات ہوتی ہیں، کم سونا، کم کھانا اور کم بولنا۔ پہلی دو تو مجھ میں ہیں، لیکن تیسری بہت مشکل ہے، کیونکہ وہ میری مجبوری ہے (کالج میں لیکچرر اور سوز خوانی کی کلاس میں زیادہ بولنا پڑتا ہے) یہ حقیقت ہے کہ وہ صرف پانچ چھ گھنٹے ہی سوتے تھے۔ آٹھ گھنٹے تو سونا وہ اپنے لیے عیاشی سمجھتے۔

اسی طرح سادہ کھانا کھاتے، کھانے میں کوئی نخرے نہیں تھے اور دعوتوں و تقریبات میں کئی کئی ڈشز dishes رکھنے کے خلاف تھے اور کہتے تھے کہ "پیٹ بھر کر تو انسان ایک ہی چیز کھاتا ہے۔" اکثر امی کے ساتھ خاندان اور اس کے علاوہ حلقہء احباب میں بھی کسی نہ کسی کی عیادت، تعزیت، تہنیت، یا پھر امداد کے لیے کسی کے گھر جانا ہوتا تو کوشش کرتے کہ دوپہر یا رات کے کھانے کے وقت نہ جائیں کہ میزبان تکّلُف کرے اور اس کو زحمت ہو۔ خاص تاریخوں مثلاً رجب، شعبان یا بقرہ عید کے دنوں میں اکثر میلاد بھی ہوتے ہیں اور رات میں شادی ولیمہ جیسی تقریبات بھی، تو محفل میں بھی ضرور شریک ہوتے اور تقریب میں بھی تھوڑی دیر کو حاضری ضرور لگاتے۔ شہید غیر قانونی کام نہیں کرتے، گھر والوں اور شاگردوں کو بھی ملکی قوانین اور معاشرتی اصولوں اور اخلاقیات کا خیال رکھنے کو کہتے۔ اپنے بیٹے اور شاگردوؑں کو یہاں تک تاکید کرتے کہ لڑکے گلی محلوں میں گروپ بنا کر فالتو نہ کھڑے ہوا کریں، ایک تو یہ وقت کا زیاں ہے اور دوسری طرف گلی میں آنے جانے والے لوگوں، بالخصوص خواتین کے لئے ناگواری کا باعث بنتا ہے۔

آخر میں اگر میں امی کا تذکرہ نہ کروں تو ناانصافی ہوگی۔ کہتے ہیں کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ امی نے 31 سالہ شادی شدہ زندگی میں ہر قدم پر ابو کا ساتھ دیا۔ زندگی میں چار مرتبہ ابو شدید بیمار ہوکر بستر سے لگ گئے اور کالج، مجالس و محفل میں جانے کے لائق نہ رہے۔ اسوقت امی ان کی سب سے بڑی مونس و غمخوار بن کر رہیں۔ اچھا وقت ہو یا برا کبھی بھی کسی پُرتعیُّش زندگی  luxurious lifestyle کی طلبگار نہ ہوئیں۔ برا وقت تھا تو ٹین کی چھت والے گھر میں بھی گزارا کیا۔ خدا کا شُکر کہ برا وقت کَٹ گیا تو بھی کبھی غیر ضروری خواہشات  کی تمنا نہیں کی۔ ایک سادہ زندگی گزارنے میں ابو کی مدد کی۔ 20 گریڈ کا سرکاری افسر ہونے کے باوجود گھر میں نہ تو گاڑی تھی، نہ جنریٹر نہ اے سی A.C ۔ غرض یہ کہ امی جوانی سے شہادت تک ابو کی شریک سفر رہِیں۔

یہاں تک کہ جب شہادت کی خبر آئی تو امی نے بقائمی ہوش و حواس پورے حوصلہ کے ساتھ شہادت کی خبر سُنی اور خود چل کر ابو کے جنازے تک گئیں اور اور ابو کے جنازے پر ابو کو شہادت کی مبارکباد دی کہ استاد کی دلی آرزو پوری ہوگئی۔ ساتھ ہی دو رکعت نماز شکرانہ ادا کی کہ ابو کو شہادت ملی اور پروردگار نے ان کو (امی کو) شہید کی بیوہ  اور خانوادے کو خانوادہء شہید کے عظیم درجے پر فائز کیا۔
غسلِ میّت نہ کہنا میرے غُسل کو
اُجلے ملبوس کو مت کفن نام دو
میں چلا ہوں علی سے ملاقات کو
جس کی تھی آرزو وہ گھڑی آگئی

التماس دعاء برائے بلندگی درجات شہداء ملت
خبر کا کوڈ : 862228
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش