1
0
Monday 6 May 2024 10:58

رفح غزہ کے کس علاقے میں واقع ہے اور اس پر حملہ کیوں انسانی تباہی کا باعث بنے گا؟

رفح غزہ کے کس علاقے میں واقع ہے اور اس پر حملہ کیوں انسانی تباہی کا باعث بنے گا؟
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ رفح میں صہیونی فوج کی کارروائی کے تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے۔

صہیونی فوج کے ترجمان نے حال ہی میں ایک حکم نامہ جاری کیا ہے، جس میں تمام مکینوں اور بے گھر افراد سے فوری طور پر جنوبی غزہ کے رفح شہر کے بعض محلوں کو خالی کرنے کا کہا گیا ہے۔ صیہونی حکومت کی فوج کے ترجمان Avikhai Adrei نے کہا: اسرائیلی فوج نے سلام، الجنینا، تبت، زیرہ اور البیوک کے محلوں میں رہنے والے لوگوں سے کہا ہے کہ وہ فوری طور پر المواسی میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر علاقے سے نکل جائیں۔

رفح کہاں ہے؟
 رفح، غزہ کی پٹی اور مصر کی سرحد کے ساتھ ایک شہر ہے، جس کا نصف مشرقی حصہ غزہ اور نصف مغربی حصہ مصر میں تقسیم ہے۔ رفح کا رقبہ تقریباً 64 مربع کلومیٹر ہے۔ اس شہر کی آبادی کی شرح، 23 ہزار افراد فی مربع کلومیٹر سے زیادہ ہے، یعنی فی کلومیٹر آبادی نیویارک اور ممبئی جیسے بڑے شہروں کو پیچھے چھوڑ چکی ہے۔

اگر رفح کی زمین کو برابر تقسیم کیا جائے تو ہر شخص کے پاس اپنے لیے صرف ایک مربع میٹر جگہ ہوگی۔ رفح، رفح بارڈر کراسنگ کا مقام بھی ہے، جو مصر اور غزہ کے درمیان واحد کراسنگ ہے۔ اکتوبر کے بعد سے، رفح دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے مقامات میں سے ایک بن گیا ہے اور غزہ کی پوری آبادی کا تقریباً نصف اب مصر کی سرحد کے ساتھ اس چھوٹے سے علاقے میں مرکوز ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق دوسری عالمی جنگ کے دوران رفح برطانوی فوج کا ایک عسکری اڈا بن گیا اور روزگار کی تلاش میں مسلمان تارکین وطن اور فلسطین کے دیگر علاقوں کے لوگ یہاں پہنچے۔

جب اس علاقے کو تقسیم کرکے فلسطین اور اسرائیل بنائے گئے تو برطانوی فوج نے رفح کو ایک جیل کے طور پر استعمال کیا اور یہاں اس وقت دہشتگرد سمجھی جانے والی یہودی تنظیمیں ہاگانہ اور ارگن کے رہنماؤں کو قید میں رکھا جاتا تھا۔ تاہم جب اسرائیل کی ریاست کا قیام آیا تو یہ شہر اپنی موجودہ شکل یعنی بحیثیت پناہ گزین کیمپ کی صورت اختیار کرنا شروع ہوگیا۔ جو علاقے نئی ریاست میں آئے، جیسے کہ بیرشیبا اور سحرا نیگیو وہاں تقریباً 41 ہزار فلسطینی مسلمان رہتے تھے، انھیں یہاں پناہ لینا پڑی۔ سنہ 1949ء میں رفح پناہ گزین کیمپ کھولا گیا اور فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کا ادارہ انرا کی ویب سائٹ کے مطابق یہ اس وقت کا "غزہ کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ آبادی والا" پناہ گزین کیمپ تھا۔

سن 1948ء میں اسرائیل کے قیام کے بعد سے یہ قصبہ اور غزہ کی باقی پٹی کا کنٹرول مصر کے پاس تھا، لیکن یہ صورتحال جون 1967ء میں عرب اسرائیل جنگ کے بعد تبدیل ہوگئی، جب اسرائیلی افواج نے غزہ کے تمام علاقے اور پڑوس میں موجود جزیرہ نما سینا پر قبضہ کر لیا تھا۔ 1973ء کی یوم کیپور جنگ کے دوران مصر طاقت کے زور پر اپنے علاقے واپس نہیں لے سکا، لیکن ایک دہائی کے عرصے کے بعد جس مقصد کو وہ میدان جنگ میں حاصل نہ کر پائے، انھوں نے مذاکرات کے ساتھ حاصل کر لیا، وہ سینا کو حاصل کرنے میں کامیاب رہے اور اس پر عمل درآمد 1982ء میں ہوا۔ تاہم 1977ء میں ہونے والے کیمپ ڈیوڈ امن معاہدے کا اثر رفح پر پڑا، کیونکہ اسرائیل اور مصر کے درمیان سرحد کی لکیر اس پر کھینچی گئی۔

اس ساری صورتحال نے اس فلسطینی شہر کو دوسری عالمی جنگ کے بعد برلن جیسا بنا دیا، کیونکہ مکانوں کے درمیان، باغیچوں کے درمیان اور گلیوں میں باڑ لگا دی گئی اور شہر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ صحافی جینٹ ہولی نے 1982ء میں آسٹریلیا میں شائع ہونے والے ایک اخبار "دی سڈنی مارننگ ہیرالڈ" میں اس تقسیم پر لکھی گئی اپنی رپورٹ میں کہا "جن کے گھروں کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا، انھیں یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ وہ کہاں رہنا چاہتے ہیں (اسرائیل میں یا مصر میں) اور اس جانب دروازہ لگانا ہوگا۔" اس نئی تقسیم نے سینکڑوں خاندانوں کو بانٹ دیا اور وقت کے ساتھ ساتھ باڑ زیادہ مضبوط ہوتی گئی اور اس کے گرد غیر آباد علاقہ بن گیا، جسے فلاڈیلفی کوریڈور کہا جاتا ہے اور یہ وسیع ہوتا گیا۔ اسرائیل اور مصری حکومتوں کے درمیان ایک معاہدے کے مطابق فلاڈیلفی کوریڈور ایک غیر عسکری علاقہ ہے، جسے "دہشت گردی، مصر سے غزہ تک ہتھیاروں کی سمگلنگ اور مجرمانہ سرگرمیوں کی دراندازی" پر قابو پانے کے لیے بنایا گیا ہے۔

رفح میں صیہونی حکومت کے آپریشن کے بارے میں انتباہ
اقوام متحدہ کے دفتر برائے رابطہ برائے امداد، OCHA نے پہلے کہا تھا کہ رفح میں اسرائیلی فوجی آپریشن قتل عام کا باعث بن سکتا ہے اور پورے غزہ میں انسانی سرگرمیوں کو مفلوج کرسکتا ہے۔ اقوام متحدہ کے امدادی رابطہ دفتر کے ترجمان جینس لیرک نے کہا کہ کسی بھی زمینی کارروائی کا مطلب غزہ کی پٹی کے جنوبی شہر اور اس کے آس پاس پناہ لینے والے 1.2 ملین فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے مزید مصائب اور موت ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) نے بھی ان خدشات کو دہرایا اور رفح میں آپریشن کے نتائج سے خبردار کیا۔ نیز اقوام متحدہ کے ادارہ برائے صحت کے مطابق صیہونی حکومت کی جانب سے غزہ کی پٹی پر تقریباً 7 ماہ کی شدید بمباری کے بعد غزہ کے 36 اسپتالوں میں سے صرف 12 اسپتال اور غزہ کے 88 بنیادی مراکز صحت میں سے 22 جزوی طور پر فعال ہیں۔ ان میں رفح کا نجار ہسپتال بھی شامل ہے، جو سینکڑوں لوگوں کو ڈائیلاسز کا علاج فراہم کرتا ہے۔

غزہ میں ڈبلیو ایچ او کے ٹیم منیجر احمد دہر کے مطابق صحت کا نظام بمشکل بچ رہا ہے۔ اگر آپریشن شروع ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آبادی اور مریض ان ہسپتالوں تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے۔ ان مریضوں کا کیا ہوگا؟ آخرکار ایک بڑی تباہی ہوگی۔ ریلیف ویب نے لکھا کہ رفح پر حملے کے تباہ کن انسانی نتائج برآمد ہوں گے۔ آپریشن سے مزید ہزاروں شہری مارے جائیں گے، لاکھوں لوگ دوبارہ بے گھر ہو جائیں گے اور بڑے پیمانے پر قحط ناگزیر ہو جائے گا۔ ممکنہ آپریشن غزہ میں انسانی ہمدردی کی سرگرمیوں کو بھی بری طرح متاثر کرے گا، جس کا مرکز بنیادی طور پر رفح میں واقع ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب انسانی امداد کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔

اقوام متحدہ اور یورپی یونین سمیت ان حکومتوں نے بھی اسرائیلی وزیراعظم کو اس حملے کی وجہ سے ہونے والے انسانی نقصان کے بارے میں خبردار کیا ہے، جو روایتی طور پر اسرائیل کی اتحادی ہیں، جیسے کہ امریکہ اور برطانیہ۔ رفح میں وہ فلسطینی پناہ گزین ہے، جن کے شہروں پر اسرائیل کا قبضہ ہے، وہ کہتے ہیں کہ اگر بڑی فوجی کارروائی ہوئی تو ان کے پاس جانے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، کیونکہ مصر کے ساتھ سرحد بند ہے۔
خبر کا کوڈ : 1133194
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Hussain
Pakistan
khobsourat awr malomati ha. z_anda bad.
ہماری پیشکش