0
Saturday 25 Jul 2020 11:04

لیبیا، نئے معرکہ کا منتظر

لیبیا، نئے معرکہ کا منتظر
اداریہ
قذافی کے بعد لیبیا میں ایک ایسی سیاسی و فوجی افراتفری کا ماحول ہے کہ کوئی توقع نہیں کرسکتا تھا کہ آج لیبیا میں کئی حریف ممالک حلیف اور کئی حلیف، حریف میں بدل چکے ہیں۔ لیبیا میں اس وقت دو گروہ سرگرم عمل ہیں، جن کے پیچھے علاقائی اور عالمی طاقتیں سرگرم عمل ہیں۔ ایک گروپ جنرل حفتر کا ہے، جس کو روس، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، مصر اور فرانس کی حمایت حاصل ہے جبکہ دوسرا گروپ قومی وفاق پارٹی کے نام سے ہے، جس کی قیادت فائز السراج کر رہا ہے۔ فائز السراج کو قطر، الجزائر، اٹلی، ترکی اور یورپی یونین کی حمایت حاصل ہے۔ قذافی کے بعد ترکی اور روس کو لیبیا میں بنیادی کھلاڑی تصور نہیں کیا جاتا تھا، لیکن موجودہ صورت حال میں ترکی اور روس لیبیا کے بحران میں موثر ملک بن کر ابھرے ہیں۔

سعودی عرب اور اس کے حامی لیبیا میں اخوان المسلمین کے مخالفین ہیں اور انہیں اقتدار میں آنے سے روکنے کیلئے تمام ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں۔ یہ الائنس جنرل حفتر کی حمایت کر رہا ہے، تاکہ لیبیا میں بھی انہیں السیسی جیسا فوجی افسر مل جائے، جو اخوان المسلمین کو اقتدار سے دور کر دے۔ اردوغان کا ترکی ہمیشہ سے اخوان المسلمین کا حامی رہا ہے۔ اب اس نے روس کیساتھ تعلقات میں قربت لا کر لیبیا میں اپنا رول مضبوط کر لیا ہے۔ روس اور ترکی کے درمیان حالیہ مذاکرات کے بعد انقرہ اور ماسکو کے حکام پر مشتمل ایک مشترکہ ایکشن کمیٹی بنانے پر اتفاق ہوگیا ہے، جو لیبیا کے بحران کے حل کے لیے تجاویز مرتب کرے گی۔

لیبیا اس وقت ہتھیاروں کے گھنے جنگل میں تبدیل ہوچکا ہے اور مسلح گروہ مختلف قبائل اور دیگر ناموں سے سرگرم عمل ہیں۔ اسرائیل اور امریکہ بھی اپنے مفادات کے لیے کسی موقع کی تلاش میں ہیں۔ دوسری طرف روس اور ترکی کا الحاق اسرائیل اور امریکہ کے اہداف میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ اسرائیل اور امریکہ، ترکی اور روس کے درمیان اختلافات کو ہوا دے رہے ہیں۔ اگر انہیں کامیابی مل گئی تو لیبیا کا بحران مزید پیچیدہ ہو جائیگا۔ دوسری طرف اگر ترکی اور روس کسی متفقہ موقف پر آجاتے ہیں تو تباہ و برباد ملک لیبیا کے مستقبل کے بارے میں کچھ امیدیں پیدا ہوسکتی ہیں۔
خبر کا کوڈ : 876523
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش