0
Tuesday 4 Aug 2020 12:59

​​​​​​​اسٹریٹیجک تعاون اور پارلیمانی تعاون

​​​​​​​اسٹریٹیجک تعاون اور پارلیمانی تعاون
اداریہ
امریکہ گذشتہ چار عشروں سے ایران کو علاقائی اور عالمی سطح پر تنہاء کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ امریکہ اور اسکے حواریوں کی یہ کوششیں کہاں تک کامیاب رہیں، اس کا جائزہ لینے کے لیے ایران کی مشرق کی دو بڑی طاقتوں روس اور چین سے روز افزوں تعلقات کو پیش کیا جاسکتا ہے۔ ایران اور چین کے درمیان 25 سالہ اسٹریٹیجک تعاون کی گونج ابھی تک عالمی میڈیا بالخصوص امریکی ایوانوں کے مکینوں کے قلب و ذہن کو سخت تشویش کیساتھ انکی نیندیں حرام کیے ہوئے ہے۔ لیکن اسی دوران ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف کی روسی پارلیمنٹ ڈوما کے خارجہ تعلقات کمیٹی کے چیئرمین لیونڈاسلوتیسکی سے ملاقات نے امریکی ایوانوں میں ہلچل مچا دی ہے۔

اس ملاقات میں دونوں ملکوں کے درمیان اسٹریٹیجک تعاون کے منصوبے کی تیاری اور ایران روس پارلیمانی تعاون کی ضرورت پر تاکید کی گئی ہے۔ تہران میں ہونے والی اس اہم ملاقات میں دو طرفہ تعلقات میں فروغ، باہمی تعاون میں اضافے پر تاکید کی گئی ہے۔ یاد رہے مارچ دو ہزار ایک میں ایران اور روس کے درمیان باہمی روابط اور دوطرفہ تعاون پر ایک سمجھوتہ ہوا تھا۔ تہران میں ہونیوالی ملاقات میں ایران کے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ دو طرفہ اسٹریٹیجک تعلقات کی سطح پر ایران و روس کے طویل مدت تعاون کی دستاویزات کی جدید کاری کی ضرورت ہے۔ 

بہرحال ایسے حالات میں جب امریکہ، ایران اور علاقے کے ملکوں کے درمیان یکجہتی اور تعلقات میں توسیع کے راستے میں آئے روز رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے۔ باہمی مفادات اور مشترکہ خطرات کے پیش نظر ایران اور روس کے درمیان اسٹریٹیجک اور پارلیمانی تعاون میں تقویت و استحکام خاص اہمیت کا حامل ہے۔ روس، چین، پاکستان اور ایران سمیت ایشیاء کے بعض دیگر ممالک اگر ایک مشترکہ ایشیائی اتحاد بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو امریکہ کو خطے سے نکالنے میں واضح پیشرفت ہوسکتی ہے۔ 
خبر کا کوڈ : 878250
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش