0
Saturday 31 Oct 2020 00:35

مذہبی و لسانی دہشتگردی کا گٹھ جوڑ

مذہبی و لسانی دہشتگردی کا گٹھ جوڑ
رپورٹ: سید عدیل زیدی

پاکستان عرصہ دراز سے دہشتگردی کے ناسور سے نبرد آزما ہے، اس دہشتگردی میں اب تک ہزاروں کی تعداد میں لگ بھگ ہر طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والا پاکستانی شہری نشانہ بن چکا ہے، کبھی مذہبی جنونیوں نے اسلام کا نام لیکر مسلمانوں کا خون بہایا تو کبھی لسانی شدت پسندوں نے وطن عزیز کا امن و امان خراب کرنے کی کوشش کی۔ اس کے علاوہ عمومی طور پر بھی دہشتگردی کے متعدد سانحات رونماء ہوئے۔ ملک میں دہشتگردی کے حوالے سے فعال رکھنے والے گروہوں میں زیادہ تر تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، لشکر جھنگوی، جماعت الاحرار، یا طالبان کے ذیلی گروپ پنجابی طالبان وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بعض واقعات کے حوالے سے داعش کا نام بھی سامنے آیا۔ سب سے زیادہ دہشتگردی واقعات کی ذمہ داریاں ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں نے قبول کیں۔ اس کے علاوہ بلوچستان میں بی ایل اے کی جانب سے سکیورٹی فورسز اور غیر بلوچ شہریوں کو نشانہ بنانے کے واقعات منظر عام پر آئے۔

سانحہ اے پی ایس کے بعد آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد نے دہشتگردوں کا بڑی تعداد میں قلع قمع کیا، گو کہ ملک میں امن و امان کی صورتحال آج سے دس سال قبل کی تو نہیں، رواں سال بھی تسلسل کیساتھ دہشتگردی کے واقعات ہوتے رہے ہیں۔ رواں ماہ مکران کوسٹل ہائی وے پر سکیورٹی فورسز پر حملہ اور چند روز قبل پشاور میں ایک مسلک دیوبند کے مدرسہ پر ہونے والے حملے نے حکومت کے امن و امان کے قیام کے دعووں پر کئی سوالات اٹھائے ہیں۔ باوثوق ذرائع نے ’’اسلام ٹائمز‘‘ کو بتایا ہے کہ ملکی سلامتی کے اداروں نے اس امر کا سراغ لگایا ہے کہ ماضی میں اپنے اپنے نام اور مشن کے مطابق پاکستان میں دہشتگردی کرنے والے کئی گروہوں نے آپس میں اتحاد کر لیا ہے اور اب جہادی عناصر اور بلوچستان میں لسانی سطح پر دہشتگردی کرنے والے گروہ بھی ایک ہوگئے ہیں اور انہوں نے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کا مشترکہ فیصلہ کیا ہے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان، جماعت الاحرار، لشکر جھنگوی، بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور بلوچ ریپبلکن گروپ (بی آر جی) کے نمائندوں کا ایک مشترکہ اجلاس محرم الحرام سے چند روز قبل ہوا تھا، جس میں مشترکہ طور پر دہشتگردی کے واقعات کرنے کا منصوبہ طے پایا تھا۔ جس کا پہلا ہدف محرم الحرام میں عزاداری کے جلوس و مجالس کو نشانہ بنانا تھا، تاہم سخت سکیورٹی انتظامات کے باعث دہشتگرد اپنے عزائم کی تکمیل میں ناکام رہے۔ ذرائع نے بتایا کہ ان دہشتگرد گروہوں کو افغانستان سے کمک مل رہی ہے اور اس میں ہندوستان اور افغانی خفیہ ادارہ ملوث ہے، انہوں نے ہی مختلف دہشتگرد گروپس کو ایک ساتھ بیٹھنے کا موقع فراہم کیا۔ اس حوالے سے سرحد پار سے بھاری رقم بھی پاکستان منتقل کی گئی، جو دہشتگردی کے واقعات کرانے میں استعمال ہوسکتی ہے۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ بھارت اور افغانستان کیساتھ ساتھ امریکہ، اسرائیل اور ایک عرب ملک بھی پاکستان کو مستقبل قریب میں غیر مستحکم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے خاص طور پر بعض مسلم ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کئے جانے، ڈیل آف سینچری کی تکمیل کی کوششوں، جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت، افغانستان سے امریکہ کے خروج، داعش کی شکست، مشرق وسطیٰ کے حالات اور چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کے تناظر میں پاکستان خطہ میں ایک اہم حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ لہذا ایسے میں پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا استعماری طاقتوں کے مفادات کیلئے ضروری ہے۔ ان حالات میں پاکستان کی سیاسی و عسکری اسٹیبلشمنٹ کا ایک پیج پر ہونا اور ملک و خطہ کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کرنا ضروری ہے۔ اسلام آباد کو دوست پڑوسی ممالک کیساتھ بھی اعتماد کی فضاء قائم کرنے کی ضرورت ہے، پاکستان کو امریکی بلاک کسی صورت ‘‘سوٹ‘‘ نہیں کرتا۔ سی پیک جیسے اہم منصوبہ کی تکمیل امریکہ کی ہاں میں ہاں ملانے سے ممکن نہیں۔
خبر کا کوڈ : 895020
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش