1
Saturday 28 Nov 2020 19:40

گلگت بلتستان انتخابات اور پیپلز پارٹی کا ردعمل

گلگت بلتستان انتخابات اور پیپلز پارٹی کا ردعمل
تحریر: آئی ایچ نقوی

گلگت بلتستان کے الیکشن 2020ء کو کئی دن گزر گئے، پی ٹی آئی حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے اور یہ بات یقینی ہوچکی ہے کہ پی ٹی آئی MWM کیساتھ مل کر ہی حکومت بنائے گی، کیونکہ کہ کچھ آزاد امیدوار پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کر چکے ہیں۔ اس الیکشن میں تین چیزیں ایسی نظر آئیں، جو آج تک گلگت بلتستان انتخابات کی ہسٹری میں کبھی نظر نہیں آئیں، آج ان تینوں چیزوں کا جائزہ لیتے ہیں۔
پہلی چیز: گلگت بلتستان کے عوام کا غیر معمولی جوش و خروش اور سیاسی و مذہبی جماعتوں کی بھرپور الیکشن کمپین۔
دوسری چیز: پیپلز پارٹی کے الیکشن کے بعد پرتشدد احتجاجی مظاہرے۔
تیسری چیز: ہمیشہ پارلیمانی نظام کا حصہ رہنے والی تحریک اسلامی کی شکست۔
آیئے اب سب سے پہلے دیکھتے ہیں کہ گلگت بلتستان کے عوام کی جانب سے الیکشن میں جوش و خروش کی کیا وجہ تھی، جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ گلگت بلتستان ایک پسماندہ علاقہ ہے، یہاں لوگوں کیلئے مناسب روزگار نہیں ہے، زندگی گزارنا ایک مشکل ترین مرحلہ ہے۔ اس کے باوجود کہ یہ لوگ اپنے آپ کو پاکستانی کہلانے پر فخر محسوس کرتے ہیں، لیکن کبھی کسی سیاسی مذہبی جماعت نے ان کے حقوق کی بات نہیں کی تھی۔

جب سی پیک کا منصوبہ بنایا گیا تو بھی یہاں کے عوام کی امنگوں کو سامنے نہیں رکھا گیا۔ اسی طرح (ن) لیگ کی سابقہ حکومت نے اس علاقہ کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے کی کوشش کی، دوسرے علاقے کے لوگوں کو یہاں پر بڑی مقدار میں زمین الاٹ کی، مقامی افراد کی علاقائی حیثیت کو کم کرنے کی کوشش کی اور اپنے من پسند افراد اور علاقوں کو نوازا گیا۔ جس سے محرومیوں میں اضافہ ہوا، گندم پر سبسڈی ختم کر دی گئی اور تھوڑی بہت جو مراعات تھیں، ان کو بھی مہیا نہ کیا گیا بلکہ ان کے مطالبات کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔ لہذا گلگت بلتستان میں الیکشن میں عوامی جوش و خروش اپنے حقوق کو حاصل کرنے کی ایک آئینی جدوجہد کہا جا سکتا ہے۔ اس طرح سیاسی پارٹیاں گلگت بلتستان کے وسائل پر قابض ہونا چاہتی ہیں اور سی پیک منصوبہ میں حصہ دار بننا چاہتی ہیں، تاکہ پاکستان کی معاشی سرگرمیوں پر کنٹرول حاصل ہوسکے، جبکہ اس الیکشن میں پیپلز پارٹی نے بھرپور کمپین چلائی اور خود بلاول بھٹو زرداری نے ہر چیز اپنے ہاتھ میں رکھی، پر ان کو مایوسی ہوئی۔ شاید وہ سمجھتے تھے کہ مذہبی کارڈ کو استعمال کرکے اپنے نانا مرحوم ذوالفقار علی بھٹو اور اپنی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے نام پر ہمدردی حاصل کرلیں گے اور لوگ ان کو ووٹ دے دیں گے۔ اگرچہ اس مرحلہ پر کامیابی حاصل کی ہے، لیکن شاید ان کی توقعات بہت زیادہ تھیں۔

اب سوال یہ ہے کہ اپنی شکست کے بعد سرکاری اور غیر سرکاری املاک اور اثاثہ جات کو نقصان پہنچانے کا مقصد کیا ہوسکتا ہے۔ میرے خیال میں آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی کو جس کنویں میں دھکیل دیا ہے، اس کو وہاں سے نکالنے کی کوشش کی گئی، سندھ حکومت کی ناقص کارکردگی ایک طرف پیپلز پارٹی کے گلے کا پھندا بن چکی ہے، جبکہ پنجاب میں ایک کمزور پارٹی بن چکی ہے، اگر یقین نہ آئے تو ان کے عہدے داروں کا چناؤ آپ کو یقین دلا دے گا۔ لہذا پیپلز پارٹی نے گلگت بلتستان کے الیکشن میں اپنی ساکھ مستحکم کرنے کی کوشش کی، لیکن جب بات نہ بنی تو منفی انداز میں اپنی پاور شو کرنی چاہی، جس کے نتائج کبھی بھی مثبت نہیں نکلیں گے۔ ان کو یہ امید تھی کہ کچھ جلائو گھیرائو کرکے پیپلز پارٹی کے وجود کا اظہار کیا جائے، لیکن اس عمل سے ان کی مخالفت بڑھی ہے اور میڈیا تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جا سکے۔

تحریک اسلامی جو ہمیشہ پارلیمنٹ کا حصہ رہی ہے بلکہ ایک عرصہ حکومت بھی کی ہے، لیکن گلگت بلتستان کے عوام کے حقوق کی محافظ نہ بنی اور (ن) لیگ کی اتحادی ہونے کی وجہ سے کوئی موثر کردار ادا نہ کرسکی، جبکہ ان کا خیال تھا کہ وہ اب بھی ایک مقبول عوامی جماعت ہے، لیکن الیکشن ہارنے کے بعد سنا ہے کہ علامہ ساجد علی نقوی نے ایک اعلیٰ سطحی اختیار کے وفد کو وہاں بھجوایا ہے، ایسا کیوں کیا؟ کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔ لیکن مجلس وحدت مسلمین پاکستان اس پورے الیکشن میں پُرامن جماعت رہتے ہوئے اپنے اہداف کی طرف تیزی سے بڑھی ہے اور اگر واقعاً گلگت بلتستان کو عبوری صوبے کا درجہ دے دیا گیا تو آپ سمجھ لیں کہ مجلس وحدت مسلمین کو سیاست سے کوئی نہیں روک سکے گا، یہ جماعت پورے پاکستان میں سرایت کر جائے گی اور ہر طرف چمکتی دمکتی نظر آئے گی۔ اگرچہ اپنے پرائے سب دشمنی کرتے ہیں، کریں گے، لیکن علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کے اخلاص کو اللہ نے عزت بخشی ہے اور خداوند متعال سے ان کی صحت اور تندرستی کیلئے دعا گو ہوں۔ آخر میں یہ کہوں  کہ گلگت بلتستان جغرافیائی و وسائل کے اعتبار سے بہت اہمیت حاصل کرچکا اور عوامی شعور پیدا ہوچکا ہے، اب ان کے مطالبات پر عملدرآمد ہی کسی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت کی بقاء کی ضمانت بنے گا۔ وعدہ خلافی اب نہیں چلے گی۔
نوٹ: ادارے کا مصنف کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
خبر کا کوڈ : 900498
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش