0
Thursday 17 Dec 2020 09:09

ایٹمی معاہدہ اور امریکی کردار

ایٹمی معاہدہ اور امریکی کردار
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے 8 مئی 2018ء کو ایران اور پانچ جمع ایک ممالک کے درمیان طے پانے والے معاہدے سے نکلنے کا اعلان کیا۔ سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان روس، چین، فرانس، امریکہ، برطانیہ اور جرمنی کی کوششوں سے یہ معاہدہ کئی سال کی کوششوں کے بعد انجام پایا تھا۔ امریکی صدر نے ایران کو عالمی دہشت گردوں کا حامی قرار دیتے ہوئے اسے خطے کے امن کے لیے خطرہ قرار دیا اور اعلان کیا کہ ایٹمی معاہدہ ایران کو ایٹمی ہتھیاروں کے حصول سے نہیں روک سکتا۔ امریکی صدر نے اپنی تقریر میں یہاں تک کہا کہ ایٹمی معاہدہ ایران کے ہتھیاروں کے جنون کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتا۔ امریکی صدر نے ایران پر ہتھیاروں کے حصول کے جنون کا الزام لگایا، حالانکہ ڈونالڈ ٹرمپ وہ شخص ہے جو ہتھیاروں کی صنعت کو فروغ دینے والا اور ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلائو کو روکنے والے معاہدہ سے نکلنے والا بدنام زمانہ امریکی صدر ہے۔

ایٹمی شعبے کے ماہر بولٹن نے اپنے ایک بیان میں امریکہ کے پاس موجود ایٹم بموں کی تعداد کے بارے میں انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ کے پاس 3800 ایٹمی وار ہیڈز موجود ہیں، جن میں نصف بالیسٹک میزائلوں اور اسٹریٹجک بمبار میزائلوں پر نصب ہیں۔ ماہرین کے مطابق امریکہ کے پاس موجود 1300 وار ہیڈز براعظمی بیلسٹک میزائلوں پر نصب ہیں۔ 300 اسٹریٹجک بمبار لانچروں پر جبکہ 150 ایٹم بم پورپ کے مختلف امریکی فوجی اڈوں موجود ہیں۔ ایک ایسا ملک جس کے پاس ہزاروں وار ہیڈز موجود ہیں، وہ کسی ایسے معاہدے سے کس منہ سے نکل سکتا ہے، جس میں ایٹمی ہتھیاروں پر پابندی کے لیے پانچ ممالک کے دستخط موجود ہوں۔ اس معاہدے سے نکلنے میں امریکہ کو صرف اسرائیل اور سعودی عرب کی حمایت حاصل رہی ہے۔ یورپی یونین کی خارجہ سیاست کی سابق سربراہ فیڈریکا موگرینی نے اس معاہدے کو کئی ممالک کے سفارتکاروں کی بارہ سالہ محنت کا نتیجہ قرار دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ معاہدہ سب کا اور عالمی معاہدہ ہے۔ موگرینی نے ایران سے اپیل کی تھی کہ کسی کو اس بات کی اجازت نہ دی جائے کہ وہ اس عالمی معاہدے کو کسی طرح کا گزند پہنچائے۔

امریکہ ایران پر الزام لگاتا ہے کہ اس نے بالیسٹک میزائل کا تجربہ کرکے اقوام متحدہ کی قرارداد کی خلاف ورزی کی ہے، حالانکہ میزائل ٹیکنالوجی کا ایٹمی معاہدے اور سلامتی کونسل سے دور دور تک کوئی واسطہ اور تعلق نہیں ہے۔ امریکہ نے شروع ہی سے ایران کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کا منصوبہ ترتیب دیا ہوا تھا۔ معروف امریکی تجزیہ نگار جیم والس کا کہنا ہے کہ معاملہ بڑا سادہ ہے، ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں امریکی اداروں نے کئی سالوں سے متنازع رپورٹس نشر کی ہیں۔ لیکن ایران کے ایٹمی پروگرام کے خلاف کوئی ٹھوس اور مستند ثبوت ابھی تک سامنے نہیں لایا گیا، لیکن جب ایٹمی معاہدہ طے پایا گیا تو کئی میڈیا نے امریکہ کے ان جھوٹے دعوئوں کو موضوع گفتگو نہیں بنایا۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں امریکی الزامات بے بنیاد تھے۔ بارہ سال کی مسلسل کذب بیانی اور فرسودہ اور جھوٹے الزامات کے بعد امریکہ کے موجودہ وزیر خارجہ اور سابق سی آئی اے چیف مائیک پمپیو ایک محفل میں یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوگئے کہ ایران کے ایٹمی پروگرام میں ایٹم بم بنانے کی جانب پیشرفت نظر نہیں آئی ہے اور اس بات کا بھی امکان نہیں اور نہ ہی اس کے ثبوت موجود ہیں کہ ایران نے ایٹمی معاہدے پر دستخط کرکے ایٹمی توانائی حاصل کرسکتا ہے۔

اس بیان سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ کو اس بات کا اچھی طرح احساس ہے کہ ایران ایٹم بم نہیں بنا رہا ہے اور اسی طرح ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی کا ایران پر الزام بھی بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی ہے۔ امریکہ کی طرف سے ایٹمی معاہدے سے نکلنے کے بعد جس طرح ایران کو بلیک میل کیا جا رہا ہے، اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ کو اس سے پہلے بھی یقین تھا کہ ایران کا ایٹمی پروگرام پرامن ہے۔ امریکہ کی اصل خواہش ایران پر اپنا تسلط قائم کرنا ہے اور اس میں ایران کے ایٹمی پروگرام کو صرف بہانہ بنایا جا رہا ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے جاتے جاتے اب ایران کے حوالے سے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ ایران کو یہ کرنا چاہیئے، وہ کرنا چاہیئے، حالانکہ اب امریکہ کی زور گوئی اور موناپلی کا دور ختم ہوچکا ہے۔ اپنے دور کے آخری ایام میں امریکی صدر کو اس بات کا احساس ہوچکا ہے کہ عالمی برادری اس کے غیر قانونی اقدام کی حمایت کرنے کے لیے تیار نہیں۔

امریکہ نے اس عالمی معاہدے سے نکل کر عجلت پسندی کی ہے اور اب وہ ایسے دلدل میں دھنستا جا رہا ہے، جس سے اس کے باہر آنے کا امکان کم سے کم ہو رہا ہے۔ ایسے موقع پر دوسرے ممالک کو امریکہ کا ساتھ دینا اس دلدل میں گرنے کے علاوہ کچھ نہیں اور ایسے جوئے میں شریک ہونا ہے، جس کا نتیجہ سامنے نظر آرہا ہے۔ امریکہ ایٹمی معاہدے کے حوالے سے ایسا ظاہر کر رہا ہے، تاکہ وہ اس ایٹمی معاہدے کے خاتمے اور اس کے نتائج کا ذمہ دار قرار نہ پائے، لیکن یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ اس معاہدے سے امریکہ کے خروج کی کوئی قانونی، عقلی، منطقی اور ٹیکنیکل دلیل نہیں تھی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایران نے پرامن ٹیکنالوجی کے حوالے سے کسی غیر قانونی روش کا انتخاب نہیں کیا اور اس کی تائید آئی اے ای اے کی طرف سے بھی کئی بار ہوچکی ہے۔

ناروے سے تعلق رکھنے والے معروف تجزیہ نگار سورلودگارد کا کہنا ہے امریکہ کا یہ اقدام سیاست بازی اور ایران کے خلاف بہانہ سازی کی روشن مثال ہے۔ ایران نے معاہدے پر مکمل عمل درآمد کیا، آئی اے ای اے نے بھی اس کی مکمل تائید کی ہے۔ ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے کی درجنوں رپوٹوں میں آیا ہے کہ ایران کے ایٹمی پروگرام میں کسی طرح کا انحراف نہیں ہے۔ عالم عرب کے معروف تجزیہ نگار عبدالباری عطوان نے کہا تھا کہ ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے نکلنے کے خلیج فارس پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ امریکہ کو اس چپقلش میں کامیابی نہیں ملے گی، کیونکہ عالمی حالات بدل رہے ہیں۔ ایک سپر طاقت کے طور پر اس معاہدے پر دستخط اور بعد میں اس معاہدے سے باہر نکلنا امریکہ کی ساکھ اور وقار کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ اس سے امریکہ کی سیاسی تنہائی میں اضافہ ہوگا۔ امریکہ نے 1996ء میں ڈیماٹور نامی معاہدہ پوری دنیا پر مسلط کیا، اس قانون کے تحت آئل کمپنیوں کو چالیس اور بعد میں 20 ملین ڈالر سے زیادہ ایران میں سرمایہ کاری کی اجازت نہیں ہوگی۔ یہ قانون چند سالوں میں یورپی یونین اور ایرانی ڈپلومیسی میں بہہ گیا اور کسی کو اس کی خبر تک نہیں۔
خبر کا کوڈ : 903991
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش