0
Sunday 7 Feb 2021 23:26

یورپ امریکہ ملی بھگت

یورپ امریکہ ملی بھگت
اداریہ
یورپی ٹرائیکا نے عالمی ایٹمی معاہدہ سے امریکہ کے نکلنے کے باوجود کوئی سنجیدہ اقدام انجام نہیں دیا۔ تاہم اسکے باوجود وہ اس عالمی معاہدہ کو بچانے کے لیے مختلف طرح کے دعوے کرتے رہتے ہیں۔ فرانسیسی صدر اور یورپی یونین کا دہرا موقف اس کی مثال ہے کہ معاہدے پر عمل درآمد سے ایران کیخلاف پابندیاں ختم ہونی چاہیں، یورپ اس وعدے پر قائم ہے۔ فرانسیسی صدر نے ایٹمی پروگرام اور میزائل ٹیکنالوجی کے بارے میں مذاکرات کا مطالبہ کیا ہے۔ اپنے آپ کو ثالث کے طور پر پیش کرتے ہوئے میکرون نے کہا ہے کہ ان مذاکرات میں سعودی عرب اور غاصب ریاست اسرائیل کو بھی شامل کیا جائے۔ 2015ء میں بھی ایٹمی معاہدے کی منظوری کے وقت بھی سخت موقف اپنایا تھا۔ اسی دہرے معیار کو اپناتے ہوئے اب بھی یورپی ممالک نے مختلف کام تقسیم کر رکھے ہیں۔

اب یورپی یونین کی خارجہ سیاست کی سربراہ جوزف بورل Good Coup بننے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے ایران کیخلاف دباو کی بجائے سفارت کاری کی بات کر رہی ہیں۔ وہ ڈونالڈ ٹرامپ ایران کیخلاف جاری پالیسی ترک کرنیکا مشورہ بھی دے رہی ہیں۔ دوسری جانب فرانس کا کردار Bad Coup کا ہے کہ ایٹمی پروگرام کیساتھ میزائل ٹیکنالوجی پر بات ہو، دوسرا اسرائیل اور سعودی عرب کو بھی مذاکرات میں شامل کیا جائے۔ یہ کھل کھلا اسرائیل کو تسلیم کروانے کی بھونڈی چال ہے۔ ایران سے غاصب صیہونی حکومت کی دشمنی پوشیدہ نہیں۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدہ صورتحال بھی سب کے سامنے ہے۔

فرانس کا مقصد اسرائیل اور سعودی عرب کا نام لیکر ایران پر دباو بڑھانا ہے، لیکن ایران کا اس حوالے سے موقف بڑا شفاف اور واضح ہے۔ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے کہا ہے کہ ایٹمی معاہدے کی کسی شق میں اضافہ یا تبدیلی نہیں ہوگی۔ اسی طرح معاہدہ میں کسی فریق کا اضافہ بھی نہیں ہوگا۔ ایٹمی معاہدہ پانچ جمع دو یا پانچ جمع تین نہیں ہوگا۔ بہرحال یورپی ممالک کا ایک ہی وقت میں اچھی اور بری پولیس دونوں کا انداز اپنانے کا مقصد یورپ کو جو بائیڈن کی پالیسی سے ہم آہنگ کرنیکی کوشش ہے، تاکہ عالمی جوہری معاہدے میں ایران کیخلاف محاذ مزید مضبوط بنایا جا سکے۔
خبر کا کوڈ : 914910
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش