0
Sunday 4 Apr 2021 18:39

یہ جہالت نہیں تو کیا ہے؟

یہ جہالت نہیں تو کیا ہے؟
تحریر: محمد حسن جمالی

پاکستانی معاشرے میں فرقہ واریت پر مبنی باتوں کی تشہیر عرصے سے ہوتی آرہی ہے۔ اس مہم کو بڑھاوا دینے میں خواص کا کردار عوام سے زیادہ رہا ہے۔ مختلف تنظیموں اور مدارس سے منسلک نیم خواندہ، فکری تربیت سے تہی مولویوں کی بے بنیاد باتوں، غلط فتووں اور عقلی و منطقی موازین سے عاری جذباتی تقریروں نے بے چارے عوام کو اندہی تقلید کی گھٹاٹوب وادی میں دھکیل دیا۔ انہوں نے مذہبی خاص طور پر عقیدتی مسائل کی گھتیوں کو سلجھانے کے لئے عوام الناس کو اپنی عقل سے غور و خوص کرنے پر تاکید کرنے کے بجائے جعلی اور من گھڑت روایات کو من و عن قبول کرنے پر مجبور کر دیا۔ وہ اگرچہ نظریاتی طور پر اپنے ماسلف علماء کی پیروی کرتے ہوئے اس بات کے قائل ہونے پر مجبور ہوئے کہ عقیدے سے مربوط مسائل کی صحت کا معیار کتاب، سنت، اجماع اور عقل ہے، لیکن عملی طور پر وہ مذکورہ ادلہ اربعہ کے بجائے استحسان پر ہی تکیہ کرکے عوام کو اعتقادی مسائل سمجھانے کی کوشش میں مصروف ہوگئے۔

یہی وجہ ہے کہ وہ اعتقادات سمیت اخلاقی اور سماجی مسائل میں اپنی من پسند تاویلات اور تجزیہ و تحلیل کے ذریعے عوام الناس کے ذہنوں کو اسلامی تعلیمات کے نام سے ایسی باتوں سے بھر دینے میں کوشاں ہوئے اور ہیں، جو اصلاح کے بجائے فکری و عقیدتی طور پر ان کو فاسد کرنے کا باعث بنی اور بن رہی ہیں۔ چنانچہ آج انہی مولویوں کی عقل و منطق کے خلاف تاویلات کی وجہ سے معاشرے میں اسلام کی بہت ساری قدروں کی اہمیت کم ہوچکی ہے، لوگوں کے دلوں میں ان کی عظمت اور احترام نہ ہونے کے برابر ہے۔ جہاد کی مثال لے لیجئے، یہ ایسا اہم فریضہ ہے، جس کے بارے میں اسلام نے شدت سے تاکید کی ہے۔ دین اسلام اور حریم مسلمین کے دفاع میں جان سمیت تمام انسانی توانائیوں کی قربانی پیش کرنے کا نام جہاد ہے۔ قرآن کریم کی آیات کے مطابق جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی جان اور مال کو فدا کرتے ہیں، ان کا مقام اللہ تعالیٰ کے ہاں دوسرے مسلمانوں کی نسبت اونچا ہے اور اللہ تعالی نے ان کو جنت اور شہادت کے مخصوص مقام کی بشارت دی ہے۔

سورہ بقرہ، انفال، آل عمران، توبہ اور سورہ احزاب وغیرہ جہاد کے واضح احکامات موجود ہیں۔ احادیث کے مطابق راہ خدا میں جہاد کرنا برترین کاموں میں سے ہے اور ایک شہید مجاہد کا اخروی صلہ یہ ہے کہ وہ جہاد اور شہادت کی آرزو اور تمنا دوبارہ کرتا ہے۔ امام علی (ع) فرماتے ہیں: جہاد بہشت کا ایک دروازہ ہے کہ جس کو خداوند نے اپنے خاص اولیاء کے لئے کھول رکھا ہے۔ جہاد تقویٰ کا لباس اور خداوند کی محکم زرہ ہے۔ اتنی اہمیت کے حامل عظیم اسلامی جہاد کے درخشندہ چہرے کو آج اسلامی تعلیمات کی روح سے نابلد مولویوں نے اپنی من پسند تفسیر و تاویل کے ذریعے داغدار کر دیا ہے، انہوں نے جہاد کے نام سے شام اور یمن میں مظلوم مسلمانوں پر شب خون مارنے کے لئے سادہ لوح افراد کو ورغلایا اور اکسایا، مجاہدین اسلام کے نام سے داعشی منحوس گروپ کو تشکیل دیا، جس نے حلب اور یمن میں تاریخ کی بےمثال درندگی کا مظاہرہ کر دیا۔

بچہ بچہ جانتا تھا کہ جہاد تو کفار کے مقابلے میں سرانجام دینے والا عمل ہے، مسلمانوں کے خلاف تو اسلام میں جہاد کا کوئی تصور نہیں۔ اس کھلی حقیقت نے داعش کے سرکردگان کو بہت پریشان کر دیا، چنانچہ اس مشکل کو حل کرنے کے لئے پھر بعض مولوی متحرک ہوئے، انہوں نے بلاتامل مسلمانوں کے ایک خاص فرقے پر کفر کے فتوے لگا دیئے اور کہا اس فرقے سے تعلق رکھنے والوں کے خلاف لڑنا عین جہاد ہے! یہ غلط فتویٰ دہشتگردوں کی رگوں میں خون بن کر دوڑا اور پوری دنیا میں انہوں نے مظلوم بے گناہ مسلمانوں کا جینا حرام کر دیا۔ خود پاکستان کی سرزمین پر لاتعداد مسلمان مرد، زن، چھوٹے بڑے دہشتگردوں کے ہاتھوں شہید ہوچکے اور انہی مولویوں کے اشارے سے ہی محب وطن بہت سارے بے گناہ جوان لاپتہ ہوچکے ہیں۔ ان دنوں پاکستان میں جگہ جگہ سردار تنویر بلوچ کی بازیابی سمیت عرصے سے لاپتہ جوانوں کے لواحقین، وارثین اور عوام و خواص دھرنا دے کر حکومت پاکستان سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ ہمارے بیٹوں اور جوانوں کو واپس لایا جائے، اگر ان کا کوئی جرم ہے تو انہیں عدالت میں پیش کرکے ثابت کر دیا جائے۔

 کون نہیں جانتا کہ ہمارے حکمران محب وطن افراد کے لئے دہشتگرد ثابت ہو رہے ہیں۔ وہ پاکستان کی سرزمین سے ہر باشعور، پڑھے لکھے، حق و اہل حق کی سربلندی اور باطل پرست افراد کے ناپاک عزائم کو خلاک میں ملانے کی کوشش کرنے والوں کو ریاستی طاقت کے بل بوتے پر پکڑ پکڑ کر لاپتہ کروا رہے ہیں۔ حق لکھنے اور بولنے والوں کو قتل کروا کر یا قتل کی دھمکی دے کر خاموش کروا رہے ہیں۔ پاکستان میں حکمرانوں کی ظالمانہ حکمرانی کے سبب حق بولنا اور لکھنا جرم بن گیا ہے۔ انصاف، حقوق کی مساوات اور حکمرانوں کے غلط اقدامات پر آواز اٹھانا موت کو گلے لگانے کے مترادف بن گیا ہے۔ پاکستان کی سرزمین حسینت کے لئے تنگ سے تنگ تر ہوتی جا رہی ہے۔ غرض یہ کہ  اگر پاکستان میں حکمرانوں کے شیعہ مسلمانوں کے ساتھ مجموعی رویئے اور برتاو کا جائزہ لیا جائے تو انہوں نے شیعہ قوم کو ستم کے دائرے کے اندر قیدی بنا کر رکھا ہوا ہے۔

ستم بالائے ستم یہ ہے کہ پاکستان کی سرزمین پر تعلیم یافتہ اہل مطالعہ افراد بھی  بصیرت کی کمی کے باعث تنکے کو پہاڑ بنانے پر تلے ہوئے ہوتے ہیں، جو کسی بھی صورت میں نیک شگون نہیں۔ چند روز قبل ایک کلپ سوشل میڈیا پر شیئر رہا ہے، جس میں ایک مولوی برسر ممبر بعض صوفیاء کرام پر لعنت بھیج رہا ہے۔ جب یہ کلپ گومتا ہوا ہمارے احباب کے ایک واٹس ایپ گروپ میں پہنچا تو بعض اہل قلم دانشمندوں نے اس سے رابطہ کرکے اس کے اس عمل کی مذمت کی۔ ایک دن پہلے ایک اہل مطالعہ مولوی صاحب نے اسی کلپ کو پرسنل پر مجھے بھیجا تو میں نے کہا ہم اس صاحب کے رویئے اور باتوں سے متفق نہیں، یہ اس کا اپنا ذاتی عمل ہے وغیرہ۔۔۔ اس کے بعد موصوف نے اسی کلپ کو بیس بنا کر لکھی گئی ایک ایسی تحریر مجھے بھیجی، جسے پڑھ کر افسوس کی انتہا نہ رہی۔

اس تحریر میں کوئی نئی بات تو نہیں تھی مگر وہ جہل مرکب کا آئنہ دار ضرور تھی۔ اس میں جھوٹ کی بھر مار تھی اور واضح تھا کہ اسے فقط شیعہ دشمنی میں ہی  لکھا گیا تھا۔ میری حیرت میں اضافہ اس وقت ہوا، جب میں نے تحریر بھیجنے والے صاحب سے پوچھا کہ کیا یہ آپ کی تحریر ہے؟ انہوں نے جواب میں لکھا: جی یہ ہمارے دوستوں کی تجویز ہے، جو اہل سنت والجماعت کے بزرگان کے نام ہے۔ ہم دوسروں کی طرح ڈرامے نہیں کرتے، اس لئے شیعوں کو بھی بھیج رہے ہیں! میں تو کہتا ہوں جناب جہالت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ آپ لوگ ایک شخص کی ناروا حرکت کو دیکھ کر پوری ملت کو نشانہ بنانے پر تل جائیں۔

اس تحریر کے مضمون سے یہ واضح تھا کہ لکھنے والا ناصبی اور سلفی مولوی ٹولہ ہے، جو  ہمیشہ مسلمانوں کے درمیان فرقہ واریت کی آتش جنگ بھڑکانے کے لئے موقع کی تلاش میں رہتا ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ شیعہ مکتب فکر کسی اجماع کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا ہوا کوئی خود ساختہ مکتب نہیں۔ اس مکتب کی بنیاد عقل، منطق، برہان اور استدلال پر استوار ہے۔ بس اکیسویں صدی میں بھی ایسا پراپیگنڈہ پھیلانے والے مولویوں کی عقل اور علم پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔ اگر مغلظات پر مبنی اس تحریر کو اہل فکر دانشمندوں کے سامنے رکھا جائے تو بلا تردید وہ سب یہ بول پڑیں گے کہ یہ جہالت نہیں تو کیا ہے۔؟
خبر کا کوڈ : 925202
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش