1
Friday 21 May 2021 00:48

فلسطینیوں پر ظلم و ستم جاری رکھنے کیلئے بائیڈن کی صہیونی رژیم کو سبز جھنڈی

فلسطینیوں پر ظلم و ستم جاری رکھنے کیلئے بائیڈن کی صہیونی رژیم کو سبز جھنڈی
تحریر: ڈاکٹر سید رضا میر طاہر
 
ایسے وقت جب اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم مظلوم فلسطینی عوام پر خاص طور پر غزہ کی پٹی میں کھلی جارحیت اور مجرمانہ اقدامات جاری رکھے ہوئے ہے، امریکی صدر جو بائیڈن نے صہیونی رژیم کو 375 ملین ڈالر اسلحہ اور فوجی سازوسامان فروخت کرنے کے نئے معاہدے کی منظوری دے دی ہے۔ اس فوجی سازوسامان میں ٹھیک نشانے پر مار کرنے والے جدید گائیڈڈ میزائل اور بم بھی شامل ہیں۔ امریکی حکومت کا یہ اقدام دراصل عام فلسطینی شہریوں کی نسل کشی اور قتل عام میں مصروف غاصب صہیونی رژیم کو سبز جھنڈی دکھانے کے مترادف ہے۔ جو بائیڈن کی سربراہی میں امریکی حکومت نے ایسے وقت یہ معاہدہ طے کیا جب خود امریکہ کے اندر اور خود ڈیموکریٹک پارٹی کے بعض کانگریس اراکین اسرائیل کو دہشت گرد قرار دے کر اس کی شدید مذمت کر چکے ہیں۔
 
جو بائیڈن حکومت نے غاصب صہیونی رژیم کو اسلحہ اور فوجی سازوسامان فروخت کرنے کے حالیہ معاہدے کی منظوری دے کر ایک طرح سے اپنی ہی پارٹی کے ان رہنماوں کے خلاف سرخ جھنڈی لہرا دی ہے جو مظلوم فلسطینیوں کے خلاف صہیونی رژیم کی ظالمانہ پالیسی کی مذمت کر رہے ہیں اور اپنی حکومت سے بھی اس رژیم کی غیر مشروط اور بھرپور مدد اور حمایت ترک کر دینے کا مطالبہ رکھتے ہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے یہ معترض رہنما اپنی حکومت سے چاہتے ہیں کہ وہ نیتن یاہو حکومت کی پشت پناہی پر مبنی پالیسی پر نظرثانی کرے۔ اس بارے میں ڈیموکریٹک پارٹی سے وابستہ کانگریس کی مسلمان رکن خاتون ایلہان عمر کا کہنا ہے: "بائیڈن حکومت کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ 375 ملین ڈالر اسلحہ فروخت کرنے کا معاہدہ شرمناک ہے۔"
 
ایلہان عمر نے مزید کہا: "یہ معاہدہ اسرائیل کو مزید شدت پسندی اور تناو پیدا کرنے کیلئے سبز جھنڈی دکھائے جانے کے مترادف ہے جس سے جنگ بندی کی کوششوں پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔" بائیڈن حکومت اسلحہ فروخت کرنے کیلئے کانگریس کو اطلاع دینے کی پابند ہے اگرچہ عام طور پر رسمی اطلاع معاہدہ طے پانے کے بعد ہی دی جاتی ہے۔ حکومت کی جانب سے سرکاری اعلان کے بعد کانگریس اراکین کے پاس 20 دن تک اپنی مخالفت پر مبنی قرارداد منظور کرنے کی مہلت ہوتی ہے اگرچہ یہ قرارداد حکومت کو اس کی پیروی کرنے کی پابند نہیں کر سکتی۔ یوں حتی کانگریس کی مخالفت کے باوجود اسرائیل کو اسلحہ فروخت کرنے کا یہ نیا امریکی معاہدہ ختم نہیں ہو سکے گا۔
 
حقیقت یہ ہے کہ غاصب صہیونی رژیم سے متعلق بائیڈن حکومت کی پالیسی گذشتہ امریکی حکومتوں سے مختلف نہیں ہے اور اسی اصول یعنی "اسرائیل کی غیر مشروط حمایت" پر استوار ہے۔ واشنگٹن ایسے حالات میں جب صہیونی رژیم غزہ کی پٹی پر شدید جارحیت میں مصروف ہے اور صرف ایک ہفتے میں 220 فلسطینی شہریوں کو شہید اور 5500 شہریوں کو زخمی کر چکی ہے، اس رژیم کو مزید اسلحہ فروخت کر رہا ہے تاکہ تل ابیب ان سے نہتے فلسطینی عوام کا قتل عام جاری رکھ سکے۔ اسرائیل کو اسلحہ فروخت کرنے کے اس امریکی معاہدے میں ایسے آلات بھی شامل ہیں جو عام بم کو گائیڈڈ بم میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم بھی بارہا اعلان کر چکی ہے کہ وہ فلسطینیوں کے خلاف گائیڈڈ بم استعمال کر رہی ہے۔
 
اس کی ایک وجہ یہ ہے جو بائیڈن کی سربراہی میں موجودہ امریکی حکومت ماضی کی امریکی حکومتوں کی طرح فلسطینیوں کے مقابلے میں غاصب صہیونی رژیم کو حق بجانب تصور کرتی ہے۔ امریکی حکام مغربی کنارے اور قدس شریف میں صہیونی رژیم کی جانب سے فلسطینی شہریوں کے خلاف طاقت کے کھلے استعمال نیز غزہ کی پٹی پر جارحیت اور بربریت کو اس رژیم کا "دفاعی اقدام" قرار دیتی ہے۔ گذشتہ چند عشروں میں برسراقتدار آنے والے تمام امریکی صدور فلسطینیوں کے ساتھ تنازعہ میں صہیونی رژیم کو حق بجانب سمجھتے ہوئے اسے اربوں ڈالر کی فوجی امداد فراہم کرتے آئے ہیں۔ دوسری طرف تمام تر بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مغربی کنارے میں صہیونی رژیم کی جانب سے یہودی بستیوں کی تعمیر کی بھی حمایت کرتے آئے ہیں۔
 
جو بائیڈن کی اس حکمت عملی کے باعث کانگریس کے ڈیموکریٹک اراکین ان کی مخالفت کا اظہار کرنے لگے ہیں۔ امریکی کانگریس میں چند جوان اراکین کا ایسا گروہ سامنے آیا ہے جنہوں نے ڈیموکریٹک پارٹی کی اس پالیسی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی ہے۔ ان میں ایلہان عمر، رشیدہ طلیب اور الیگزیندڑیا اوکاسیو کارٹر شامل ہیں۔ یہ اراکین امریکی حکومت کی روایتی پالیسی کو شدید تنقید کا نشانہ بنا کر اس پر نظرثانی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ البتہ امریکہ کے فیصلہ ساز اداروں میں صہیونیوں کی شدید لابنگ کے باعث مستقبل قریب میں اسرائیل سے متعلق امریکہ کی خارجہ پالیسی کوئی بڑی تبدیلی ظاہر ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔ البتہ تحقیقاتی ادارے گیلپ کی سروے رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی معاشرے میں اسرائیل کے خلاف رائے عامہ ہموار ہوتی جا رہی ہے۔
خبر کا کوڈ : 933640
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش