0
Wednesday 25 Aug 2021 07:31

اے شہیدو! تم کہاں ہو؟

اے شہیدو! تم کہاں ہو؟
تحریر: سویرا بتول

چشم تصور میں وادی عشاق الشہداء سے گزر ہوا۔ یوں گماں ہوا کہ بہشت کے کسی جزیرے پر قدم رکھا ہو۔ جیسے جیسے شب کا سناٹا ہر سوں پھیلتا جا رہا تھا، کہیں سے کسی کی سسکیوں کی صدا بلند ہو رہی تھی، کہیں سے کوئی زیارت عاشورہ سرگوشیاں میں تلاوت کرنے میں مصروف تھا اور کوئی کسی گوشہ میں رب سے مناجات کر رہا تھا۔ گویا ہر شہید شب کے اندھیرے میں سیدہ زہراء سلام علیہا سے توسل کرنے میں مشغول تھا۔ یہ عاشقان خدا کی صفات میں سے ایک صفت ہے کہ جب آدھی دنیا نرم بستر پر میٹھی نیند سو رہی ہوتی ہے، وہی کچھ بندگان خدا شب کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خدا سے راز و نیاز کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ کوئی شہید کسی گوشے میں شب کی تاریکی میں سیدہ زہراء سے اپنی شہادت کی سند پر مہر لگوا رہا تھا، کوئی جناب سیدہ سے اپنے لیے گمنامی کی سند وصول کر رہا تھا اور کوئی سید الشہداء علیہ سلام کی قربت کا خواہاں تھا۔

عجیب بات ہے، جہاں دنیا پرست لوگ مقام شہرت اور نیک نامی کے لیے کیا کیا جتن کرتے نہیں تھکتے، وہیں عاشقان خدا اپنے لیے گمنامی کی مہر ثبت کروا رہے ہیں۔ ابھی محو حیرت تھی کہ کسی آواز نے اپنی طرف متوجہ کیا، یوں لگا جیسے شہید عباس عصیمی کی والدہ اپنے لخت جگر کہ قبر پہ موجود ہیں *یہ وہ شہید ہیں جن کی والدہ جب پوچھا کرتی تھیں کہ ہر وقت اپنا ہاتھ سینے پر کیوں رکھتے ہو تو جواباً کہتے کہ امام حسین علیہ سلام کے خادم کا ہاتھ سینے پر ہی ہونا چاہیئے، یعنی ہر وقت حکم کی اطاعت کے لیے آمادہ باش حالت میں رہنا چاہیئے۔* ابھی اس شہید کا سوچ کر احساس ندامت میں اضافہ ہوا ہی تھا کہ کہیں سے شہید حجت اللہ رحیمی کی مناجات سنائی دیں: *خدایا! عاشق اپنے معشوق سے اتنا عشق کرتا ہے کہ وہ فوت ہو جاتا ہے۔ میں بھی تجھ سے اتنا عشق کروں کہ تیرے راستے میں ٹکڑوں میں بٹنا چاہتا ہوں۔*

ابھی ان پاک طینت جوانوں کی مناجات پر غور کر ہی رہی تھی کہ کہیں سے سسکیوں کی صدا سنائی دی۔۔ ایک عاشق خدا حالت سجدہ میں رب سے راز و نیاز کر رہا تھا *خدایا امام زمان علیہ سلام کے سامنے عزت رکھ لے! بس ایک ایسی رات دے دے جو حضرت حر علیہ سلام کو دی تھی، فقط ایک رات* میں ابھی اپنوں کے دیئے ہوئے زخم، اذیتوں، تہمتوں اور دکھ کا سوچ رہی تھی کہ کہی سے شہید مصطفیٰ چمران کی مناجات کی آواز سنائی دی *خدایا! جنہوں نے میرے ساتھ بدی کی، انہوں نے مجھے جگایا۔ جنہوں نے میری نکتہ چینی کی، انہوں نے مجھے زندگی بسر کرنے کی راہ سکھائی، جنہوں نے مجھے نظر انداز کیا اور مجھ سے بے توجہی کی، انہوں نے مجھے صبر و برداشت سکھایا۔ جنہوں نے مجھ سے نیکی کی، انہوں نے مجھے مہربانی اور وفا سکھا دی۔ پس خدایا ان سب نے مجھے دنیا اور آخرت میں کمال اور بلندی پر پہنچایا، خدایا! ان سب کو خیر و نیکی عطا کر۔*

زندگی کو کبھی اس زاویے سے دیکھا ہی نہ تھا، یعنی کوئی اذیت اور دکھ دے اور بدلے میں دعا دی جائے۔ ایک شہید کے حوالے سے ملتا ہے کہ اگر کوئی شخص ان کی دل آزاری کرتا تو دو رکعت نماز ادا کرتے اور کہتے خدایا تیرے اس بندے کا دھیان نہ تھا تو اسے معاف فرما۔ ابھی سر جھکائے ان عاشقان خدا کی مناجات پر غور کر رہی تھی کہ مسحورکن عطر کی خوشبو نے اپنے گرد گھیر لیا۔ یہ شہید علی حیدری کی قبر تھی۔ اس سے عجیب عطر کی خوشبو آتی تھی، جب کوئی اس شہید سے عطر کا نام پوچھتا تو وہ کبھی بھی صحیح سے جواب نہ دیتے۔ بعد از شہادت اس شہید کے وصیت نامے پہ درج تھا: *خدا کی قسم! میں نے کبھی بھی کسی عطر کا استعمال نہیں کیا۔ میں جب بھی معطر ہونا چاہتا تھا تو اتھاہ دل سے کہتا تھا یاحسین علیہ سلام!*

سوچا کہ موقعہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کسی شہید سے توسل کروں اور اپنی سعادت کی دعا کے لیے بھی کہوں۔ کیسے ممکن ہے کہ قافلہ حسینی پاس سے گزر جائے اور میں تشنہ رہوں۔ ابھی یہ سوچا ہی تھا اور شکوہ لب پہ آنے کو تھا، مگر جیسے شہید نے دل کی بات پڑھ لی ہو۔۔ آہستہ سے تبسم کیا گیا اور سر جھکا کر کہا کہ *تمہیں کیا لگتا ہے، ہم تمہاری شہادت کی دعا نہیں کرتے؟ ہم دعا کرتے ہیں اور تمہارے لیے شہادت لکھ دی جاتی ہے، مگر تم لوگ گناہ کرتے ہو اور شہادت تمہارے نصیب سے مٹا دی جاتی ہے۔* جواباً کہنے کو کچھ نہ تھا، سوائے ندامت کے آنسوؤں اور سر جھکانے کے۔ ابھی مزید ان پرکیف مناظر کا مشاہدہ کرنا چاہتی تھی، مگر جیسے کسی نے دوبارہ اس گناہوں بھری وادی میں دھکیل دیا ہو اور سرہانے پڑا بسیجی رومال ہنوز آنسوؤں سے تر تھا۔
خبر کا کوڈ : 950246
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش