0
Monday 22 Nov 2021 23:53
کبھی کسی ادارے کا دباو قبول نہیں کیا، ہمیں روکنے کی کسی میں جرات نہیں، چیف جسٹس پاکستان

لاہور، عاصمہ جہانگیر کانفرنس 2021ء کا احوال

ہماری عدلیہ انصاف نہیں دے رہی، جرنیلوں نے ملک یرغمال بنا رکھا ہے، علی احمد کرد
لاہور، عاصمہ جہانگیر کانفرنس 2021ء کا احوال
لاہور سے ابو فجر کی رپورٹ

لاہور میں معروف قانون دان عاصمہ جہانگیر کی برسی کے موقع ہر سال منعقد کی جانیوالی "عاصمہ جہانگیر کانفرنس" اس بار متنازع تقریروں کے باعث کچھ زیادہ ہی مقبول ہوگئی۔ کانفرنس میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد، سابق وزیراعظم میاں نواز شریف سمیت وکلاء، صحافیوں اور سیاستدانوں نے خطابات کئے۔ معروف قانون دان علی احمد کرد نے اپنے خطاب میں موجودہ عدالتی نظام اور پاک فوج کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ علی احمد کرد نے فوج کیلئے جرنیل کا لفظ استعمال کرتے ہوئے فوج کے کردار پر تنقید کی۔ علی احمد کرد نے بلوچستان میں لاپتہ ہونیوالے افراد کا معاملہ بھی اٹھایا۔ کانفرنس سے خطاب میں اپنے مخصوص جوشیلے انداز میں علی احمد کرد نے کہا کہ کیا کبھی سوچا کہ ہماری حالت ایسی کیوں ہے؟ یہ ملک بائیس کروڑ عوام کا ملک ہے اور ایک جرنیل بائیس کروڑ عوام پر حاوی ہے، یا اس جنرل کو نیچے آنا پڑے گا یا عوام کو اوپر جانا پڑے گا، اب برابری ہوگی، جنرل اور عام پاکستانی شہری میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ یہ ہماری جوڈیشری ہے، انصاف کی فراہمی میں ہماری جوڈیشری کو ایک سو چھبیسویں نمبر پر پہنچا دیا گیا ہے۔ یعنی آخری چوتھا نمبر ہمارا ہے۔ کیا ہماری عدالتیں انصاف فراہم کر رہی ہیں؟ ذرا عدالتوں میں دھکے کھاتے عوام کو دیکھ لیں، پتہ چل جائے گا کہ کہاں انصاف مل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج اس ملک میں انٹلکچوئل کلاس ختم ہوچکی ہے، اس ملک میں کوئی جنرل مڈل کلاس میں نہیں رہا، اوپر جو لوگ بیٹھے ہیں، وہ چھوٹے چھوٹے قد کے لوگ ہیں۔ علی احمد کرد نے کہا کہ جنرل کو نیچے آنا پڑے گا، اب وقت آگیا ہے کہ انکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کریں، ان لوگوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کا کہہ رہا ہوں، جو ستر سال سے عوام کو اپنے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔ میں نے دن رات لگائے ہیں، سڑکوں پر نکلا رہا ہوں، میں کہتا ہوں، اٹھو اپنی جان میں جان پیدا کرو، یہ ملک آپ کی مٹھی سے ریت کے ذرات کی طرح سرک رہا ہے۔ ابھی آپ کے پاس وقت ہے، ان حالات کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ آپ کو کشتیاں جلانا پڑیں گی اور جان کی بازی لگانا پڑے گی، جان کی بازی لگائیں گے تو ملک بچے گا، بلوچستان میں لوگوں کو اُٹھایا جا رہا ہے، وہ کہاں ہیں کوئی پتہ نہیں، یہ مذاق بند کریں، اب آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا وقت ہے، لوگوں کو خواب دیکھنے دیں، لوگ خواب دیکھیں گے تو یہ ملک خوبصورت بنے گا۔

علی احمد کرد کی تقریر کا جواب چیف جسٹس پاکستان نے وہیں دیدیا۔ تاہم اس موقع پر چیف جسٹس دباو میں دکھائی دیئے۔ چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد کا کہنا تھا کہ کرد صاحب نے جو باتیں کی ہیں، ان کا ذکر کرنا ضروری ہے، لوگوں کو غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیئے، عدلیہ کا سربراہ ہونے کے ناطے میرا فرض ہے کہ میں جواب دوں، علی احمد کرد نے میری عدالت کے بارے میں کوئی بات کہی ہے تو میں اس سے اتفاق نہیں کروں گا، میں سپریم کورٹ کے بارے میں کہوں تو میرے سارے ججز نہایت تندہی کیساتھ محنت کیساتھ کام کر رہے ہیں اور عوام کو انصاف اور ان کے بنیادی حقوق، قانون و آئین کی عملداری کیلئے مستقل کام کر رہے ہیں۔ انہوں ںے کہا کہ ہائیکورٹ کے ججز چاہے ہائیکورٹ کے ہوں، وہ تندہی کیساتھ کام کر رہے ہیں، لوئر جوڈیشری بھی محنت اور لگن کیساتھ لوگوں کو انصاف فراہم کر رہی ہے، ججز عوام کے کیس سنتے ہیں اور انصاف فراہم کر رہے ہیں۔ کسی کو فیصلے پر اعتراض ہوتا ہے تو اعلیٰ عدلیہ میں جا کر انصاف لے لیتے ہیں، یہ کہنا کہ عدالت آزاد نہیں، ہم کسی کے دباو میں کام کر رہے ہیں، تو میں نے کبھی کسی کا دباو لیا ہے، میں نے کبھی کسی ادارے کا دباو نہیں لیا، مجھے کوئی ڈکٹیٹ کرتا ہے، میں نے آج تک کبھی کسی کے دباو پر فیصلہ نہیں کیا، میں نے جو فیصلے کئے، اپنی سمجھ اور قانون  کے عین مطابق فیصلے کئے ہیں، مجھے کبھی کسی نے ڈکٹٰشن نہیں دی اور یہی کردار سارے ججز کا ہے۔

انہوں ںے کہا کہ علی احمد کرد صاحب آپ عدالتوں میں آئیں، دیکھیں کہ کیا ہو رہا ہے، لوگوں کو انصاف مل رہا ہے، ہماری عدلیہ آزادی کیساتھ کام کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا جنرل بیان دے کر عدلیہ کو بدنام نہ کریں، کوئی کمی ہے تو اسے درست کروایا جا سکتا ہے، الزام تراشی اچھی روش نہیں، فیصلے عوام کی رائے کے مطابق ہوتے ہیں، کچھ لوگ کہتے ہیں، یہ درست فیصلے ہیں، کوئی کہتا ہے کہ غلط فیصلے ہیں، یہی خوبصورتی ہے اس نظام کی، ہم نے کبھی کسی کا دباو نہیں لیا، ہماری عدلیہ آزاد ہے، جس کا مقدمہ سامنے آتا ہے، میرٹ پر فیصلہ ہوتا ہے۔ انہوں ںے کہا کہ بتائیں کون سا فیصلہ کسی کی ڈکٹیشن پر ہوا ہے، لوگوں میں غلط فہمیاں نہ ڈالیں، اداروں سے لوگوں کا اعتماد نہ اٹھوائیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ہمارے لئے قائم و دائم ہے اور قائم و دائم رہے گا، اس میں قانون کی حکمرانی ہے، انسانوں کی حکمرانی نہیں ہے، جس طرح ہم کام کر رہے ہیں، یہ جمہوریت کا پرچار ہے اور جمہوریت کی بقاء کیلئے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی رکاوٹ بنا تو ہم یہ عہدہ چھوڑ دیں گے، پہلے بھی عہدے چھوڑے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کسی میں جرات نہیں کہ مجھے کہے کہ اس کی خواہش کے مطابق فیصل لکھوں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماء قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا کہ عاصمہ جہانگیر نے جو پودا لگایا، آج آپ لوگ اس کو آگے لے کر چل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کا کوئی قانون، کوئی آئین نہیں جو عوام کیخلاف ہو۔ کوئی قانون بنانا ہو، پارلیمنٹ اسے فوری طور پر بنا سکتی ہے، کوئی ادارہ ایسا نہیں، جو ہمارے ہاں نہیں، مگر مسئلہ یہ ہے کہ ادارے کام نہیں کر رہے۔ ہم قانون پر عملدرآمد کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ہماری سٹیٹ، سٹیٹ نہیں رہی، ریاست کا بنیادی ڈھانچہ صرف قانون بنانا ہے، قانون بننے سے معاشرے ٹھیک نہیں ہوتے بلکہ قانون پر عمل سے معاشرے بنتے ہیں اور لبرل سوسائٹی جنم لیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں بہت سے ادارے بنائے جاتے ہیں، تاکہ کام جلدی ہو، کچھ عرصہ وہ کام کرتے ہیں، پھر وہ ہمارے جیسے ہو جاتے ہیں۔ کیا ججز کو خوف ہے کہ وہ انصاف نہیں کریں گے تو عوام ان کیخلاف سڑکوں پر کھڑے ہو جائیں گے، کیا سیاستدانوں کو یہ خوف ہے، بیوروکریسی یا فوج کو یہ خوف ہے؟ یقیناً کسی کو بھی خوف نہیں، دنیا میں معاشروں میں جمہوریت آئی ہے اور ان معاشروں نے ترقی کی۔ کمزور گورننس ڈکٹیٹرشپ کی بنیاد بن جایا کرتی ہے۔ احتساب برائے نام ہے، عاصمہ جہانگیر نے عوامی بیداری کی بات کی۔ ہمارا معاشرہ تو ایسا ہے، جو اللہ سے بھی نہیں ڈرتا، اگر اللہ سے ڈریں تو لوگ گناہ نہ کریں، لوگ رائے عامہ سے ڈرتے ہیں۔

منظور پشتین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہاں پر وہی دکھ، درد جو ہم چاہتے ہیں، لاہور کے لوگ اور اس ملک کے سارے لوگ سنیں، میں وہی بات کرنا چاہتا ہے، جو ستر ہزار لوگ شہید ہوئے ہیں، یہ کیسے شہید ہوئے، دو ہزار اٹھارہ میں نقیب اللہ محسود کو بے دردی سے شہید کر دیا گیا، احتجاجی تحریک اٹھی مگر انصاف نہیں ہوا۔ راو انور آزاد ہے، اس کیخلاف آواز اٹھانے والا علی وزیر جیل میں ہے، علی وزیر کو گرفتار کرنے کیلئے عدالت موجود ہے، مگر علی وزیر کے خاندان کے سترہ شہداء کو انصاف دینے کیلئے کوئی ادارہ موجود نہیں۔ انہوں نے کہا کہ جعلی مقابلوں میں ہزاروں افراد کو مار دیا گیا ہے، پاکستان بننے کے ایک سال بعد ہی پشتوں کیخلاف مہم چلائی گئی، میڈیا کو اجازت نہیں کہ وہ فوج کیخلاف حقائق بتا دے، چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی یہ لوگ معاف نہیں کرتے، فوج پر دہشت گرد فائرنگ کریں تو یہ عام عوام پر فائرنگ کر دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عام شہریوں کو مار کر میڈیا پر خبریں چلوائی گئیں کہ دہشتگردوں کو مار دیا گیا۔

سینیئر صحافی مطیع اللہ جان کا کہنا تھا کہ صحافیوں نے بھی آزادی صحافت کیلئے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ آج بیس نومبر ہے، آج ایک ادارے کا سربراہ تبدیل ہو رہا ہے، میڈیا پر پابندیاں ہیں، ہمارے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے سربراہ ڈائس پر مُکے برسا کر کہہ رہے تھے کہ ہم آزاد ہیں، جہاں قانون ہوتا ہے، وہاں ڈائس پر مُکے مار کر ثابت کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کافی غصے میں تھے، میڈیا میں بھی ایسے لوگ ہیں، جو ڈائس پر مُکے مار کر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ میڈیا آزاد ہے، آج مجھے احساس ہوگیا کہ جتنا میڈیا آزاد ہے، اتنی ہی عدلیہ بھی آزاد ہے۔ انہوں ںے کہا کہ ہمارے اس سیشن کو میڈیا پر کوریج نہیں ملے گی، چیف جسٹس کا خطاب تو میڈیا نے دکھایا ہے، مگر علی احمد کرد کا خطاب نہیں دکھایا گیا۔ مطیع اللہ جان نے کہا کہ افتخار چودھری میڈیا کی وجہ سے ہی بحال ہوئے اور پھر میڈیا کیساتھ جو ہوا، وہ تاریخ کا حصہ ہے۔

سینیئر صحافی حامد میر نے کہا کہ میں اللہ کا شکر گزار ہوں کہ مجھے گولیاں لگیں، مگر اللہ نے بچا لیا۔ حامد میر نے کہا کہ مجھے ٹی وی سکرین سے ہٹا دیا گیا تو اس کا نقصان مجھے نہیں ہوا، بلکہ پاکستان بدنام ہوا ہے، ابصار عالم، اسد طور کے معاملے پر بھی پاکستان بدنام ہوا۔ انہوں نے کہا کہ قرآن کہتا ہے کہ سچ بولیں، تو آج کل ہم منتخب سچ بولتے ہیں۔ یہ رپورٹ کرنا ضروری ہے کہ ابصار عالم کو کس نے گولی ماری، مطیع اللہ جان کو کس نے آف سکرین کیا، اسد علی طور پر حملہ کس نے کیا؟ میڈیا مالکان اصل سچ ہی عوام کو بتا دیں، کہ انہیں کون کال کرکے خبریں رکواتا ہے؟ حامد میر نے کہا کہ منتخب سچ بول کر صحافت کا علمبردار بننے کی منافقت ختم ہونی چاہیئے۔ سچ تو یہ ہے کہ جو آپ کو کال کرتا ہے، اس کا نام بتائیں، یہ کون فون کرتا ہے؟ یہ وہ لوگ کرتے ہیں، جن کو مطیع اللہ جان اچھا نہیں لگتا، کبھی حامد میر اچھا نہیں لگتا۔

یہ ایسے محب وطن ہیں، جو کلبھوشن کا دفاع کرتے ہیں۔ حامد میر نے کہا کہ ہمارے چیف جسٹس نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان میں جوڈیشری آزاد ہے، کسی ملک میں آپ نے پتہ لگانا ہے کہ عدلیہ کتنی آزاد ہے تو وہاں دیکھ لیں کہ میڈیا کتنا آزاد ہے؟ میڈیا آزاد ہے تو عدلیہ بھی آزاد ہے۔ حامد میر کا کہنا تھا کہ جو لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ میڈیا آزاد ہے، وہ دیکھیں لیں کہ ہم پانچ لوگ یہاں بیٹھے ہیں اور ہم سب بین ہیں۔ تو اندازہ لگا لیں کہ میڈیا کتنا آزاد ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ جو ملک کیساتھ کر رہے ہیں، یہ مٹھی سے ریت سرک رہی ہے۔ آپ کو جلد پتہ چل جائے گا کہ پاکستان کا دشمن نہ ابصار عالم تھا، نہ مطیع اللہ جان تھا، نہ عنبر شمسی تھی، نہ اسد طور تھا بلکہ پاکستان کے اصل دشمن آپ تھے۔

سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے لندن سے ویڈیو لنک خطاب میں کہا کہ عاصمہ جہانگیر تمام عمر عدل و انصاف اور حق و سچ کی جنگ لڑتی رہیں، یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ وہ بلاخوف سچ کہنے والی بہادر خاتون تھیں۔ انہوں نے کہا کہ آمریت کے اندھیرے ہوں، آئین پر شب خون، عدلیہ کی آزادی چھیننے کا کوئی وار ہو، جمہوری حکومتیں یا عدلیہ اپنے آئینی کردار سے تجاوز کرتیں تو عاصمہ جہانگیر پوری قوت سے مقابلہ کرتی تھیں، موجودہ جبر اور گھٹن کے ماحول میں عاصمہ جہانگیر کی بہت کمی محسوس ہو رہی ہے۔ انہوں وکلاء برادری کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی، عدلیہ کی آزادی کی جدوجہد ہو یا آزادی اظہار رائے خطرے میں ہو، وکلاء برادری ہراول دستہ بن کر میدان میں موجود رہی ہے اور آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں، وہ بدقسمتی سے تاریخ کا فیصلہ کن موڑ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قوم میں گہری ہوتی مایوسی اور بے بسی اس وقت سب سے خطرناک پہلو ہے، تاریخ گواہ ہے کہ جب قومیں مایوسی کی دلدل میں دھنستی ہیں تو پھر اس قوم کی بقاء کے سوالات جنم لینا شروع ہو جاتے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے قائد نے کہا کہ آج 74 سالوں کے بعد قوم پھر سے سوالات اٹھا رہی ہے اور آج پاکستان کے 22 کروڑ عوام کو یہ جوابات درکار ہیں، اگر عوام کو ان کے بنیادی سوالات کا جواب نہیں ملے گا تو مسائل حل نہیں ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا اگر سوالات کرنیوالوں کی زبان کھینچ لی جائے گی تو اس سے ملک کے مسئلے حل نہیں ہوں گے، آج بھی تاریں وغیرہ کاٹ کر زبان کھینچنے کی کوشش کی گئی ہے اور کیا سوال کرنیوالوں کو اٹھا لینے اور غائب کرنے سے سوالات ختم ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ دور آزادی اظہار رائے اور انسانی حقوق کے حوالے سے سیاہ ترین دور ثابت ہوا ہے، سیاسی مخالفین، سیاسی کالم نگار یا سچ بولنے والی کوئی بھی آواز ہو تو اس کو اپنے سوال کی پاداش میں غائب یا قید کر دیا جاتا ہے، گولیاں ماری جاتی ہیں، پروگرام یا کالم کی اشاعت بند ہو جاتی ہے یا پھر نوکری سے نکلوا دیا جاتا ہے۔ نواز شریف نے کہا کہ ایسے سیاہ قوانین تیار کیے گئے، جن کا مقصد سچ بولنے والی زبان بند کرنا ہے اور یہ ہم نے اپنی آنکھوں سے حال ہی میں دیکھا ہے، یہاں آئین ٹوٹتے ہیں، قانون یہاں ٹوٹتے ہیں، عدالتیں یہاں ٹوٹتی ہیں اور من پسند ججوں سے اپنی مرضی کے فیصلے یہاں لیے جاتے ہیں، آمروں کو قانونی حیثیت یہاں ملتی ہے اور ریاست کے اوپر ریاست یہاں چلائی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہاں سیاسی انجینئرنگ کی فیکٹریاں لگائی جاتی ہیں، ووٹ کو یہاں عزت نہیں ملتی، آر ٹی ایس یہاں بند ہوتا ہے، ووٹ چوری ہوتا ہے، منتخب حکومتوں کے خلاف دھرنے کیے بھی جاتے ہیں اور کروائے جاتے ہیں، حکومتیں بنائی اور گرائی جاتی ہیں اور پارلیمنٹ کی خود مختاری کا حال یہ ہے کہ چند منٹوں میں درجنوں قوانین بلڈوز کیے جاتے ہیں، جیسے دو دن پہلے ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اسباب ہمارے زوال کا باعث بنے ہیں اور پھر کہا جاتا ہے کہ دنیا ہم پر پابندیاں کیوں لگاتی ہے، کٹہرے میں کیوں کھڑا کرتی ہے، دنیا میں ہمارے کردار پر سوال کیوں اٹھائے جاتے ہیں، سیاستدان یا میڈیا نہیں، بلکہ آج جج بھی سچ بولے تو نوکری سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں، کیا یہ ہم سب کے لیے فکر کا مقام نہیں کہ آج جج بھی سچ کے متلاشی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ججوں پر دباؤ اور بلیک میلنگ سے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف فیصلے لیے جاتے ہیں، اخباروں میں شہ سرخیاں شائع ہو رہی ہیں کہ کیسے اعلیٰ عدلیہ کے جج ٹیلیفون کال کے ذریعے سزائیں دلوانے اور پھر ضمانت نہ دینے کے حکم صادر کرتے ہیں، اگر انصاف کی کرسی پر بیٹھنے والے منصف ہی ناانصافی کریں گے تو پھر معاشرہ اور ملک کیونکر تباہ و برباد نہیں ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 964858
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش