1
0
Monday 6 Dec 2021 10:08

آسمان علم کا درخشاں ستارہ (علامہ حسین بخش جاڑا)

آسمان علم کا درخشاں ستارہ (علامہ حسین بخش جاڑا)
تحریر: علامہ محمد رمضان توقیر
مرکزی نائب صدر ایس یو سی پاکستان

پاکستان کے پسماندہ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقہ جاڑا میں 1920ء کے سال آنکھ کھولنے والے حسین بخش کے بارے میں کس کو معلوم تھا کہ وہ میدانِ علم و فن میں ایسا مقام پائے گا کہ زمانہ اس پر رشک کرے گا اور اللہ کے پاک و لاریب کلام کی تفسیر اس کے حصے میں آئے گی۔ وہ اپنی شیریں خطابت سے ہزاروں دلوں پر راج کرے گا اور مر جانے کے باوجود زندہ رہے گا؟ جی ہاں حسین بخش جاڑا کچھ ایسے ہی نصیب کے حامل انسان تھے۔ کاٹھ گڑھ سادات میں سید غلام جعفر شاہ نقوی مرحوم سے پہلی شاگردی سے لے کر دیارِ امیرالمومنین (ع) نجف اشرف میں فقہائے وقت اور مراجع عظیم الشان سے کسبِ فیض کرنے تک ایک طویل سلسلہ ہے، جس میں وہ حسین بخش سے علامہ حسین بخش بننے کا سفر طے کرتے رہے۔ آیت اللہ سید محمود مرعشی، آیت اللہ سید محمد تقی عرب، آیت اللہ العظمیٰ سید ابوالقاسم الخوئی اور آیت اللہ سید عبداللہ شیرازی جیسے عظیم اساتذہ کے سامنے زانوئے علم و ادب تہہ کرنے کا نتیجہ ہے کہ حسین بخش جاڑا نہ صرف علامہ بنے بلکہ عظیم مفسر اور لاجواب مقرر کی صورت میں سامنے آئے۔

اگرچہ نجف اشرف سے علمی تشنگی بجھانے کے بعد اٹھارہ سالہ تک مختلف مدارس میں تدریس کا فریضہ انجام دیتے رہے اور بعض مدارس کی بنیاد بھی ڈالتے رہے، لیکن تحریری اور تقریری میدان کو بھی خالی نہیں چھوڑا۔ زمانہ تدریس میں انہوں نے دارالعلوم محمدیہ سرگودھا، جامعہ امامیہ لاہور، مدرسہ محمدیہ جلالپور ننگیانہ (جدید) سرگودھا اور جامعہ باب النجف جاڑا میں تشنگانِ علوم ِ آلِ محمد (ع) کو سیراب کیا۔ جاڑا میں مدرسے کی تعمیر خود اپنے ہاتھوں سے کی، اپنے شاگردان کو تعمیراتی خدمات میں مزدوروں کی طرح کام پر لگایا، دیواریں اور چھتیں بھی خود ڈالتے تھے اور ساتھ ساتھ طلباء کو درس بھی دیتے تھے۔ علمی میدان میں ان کا بہت بڑا مقام ہے، ان کے ہم عصر علماء ان کے اعلیٰ مقام کے معترف رہے ہیں۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ تقریر کے میدان میں علامہ مرحوم بہت تاخیر سے وارد ہوئے، حتٰی کہ نجفِ اشرف سے حصولِ علم کے بعد واپس آچکے تھے، مگر ابھی تک تقریری میدان میں وارد نہیں ہوئے، کیونکہ وہ خود کو تقریر میں کمزور سمجھتے تھے، مگر ان کے والدِ گرامی (جنہیں ہم پیار سے دادا دادا کہہ کر پکارتے تھے اور وہ بھی طلباء سے بہت پیار کرتے تھے) کی خواہش تھی کہ میرا بیٹا ایک بڑا مقرر بنے۔ اس کے لیے انہوں نے گھر سے شروعات کیں۔

کچھ سختی بھی کی اور طعنے بھی دیئے کہ حوزہ علمیہ نجف اشرف سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود تم منبر پر نہیں آتے۔؟ اس طرح انہوں نے اپنے بیٹے حسین بخش جاڑا کو گھر میں کرسی میز رکھ کر تقریر کرنے کا آغاز کرایا۔ تقریر کی کمزوری پر ان کے والدِ گرامی نے ان کی بہت سخت سرزنش بھی کی، جو ناقابل ِبیان ہے، لیکن والدین کی سختی میں بھی انسان کی بھلائی اور اعلیٰ مستقبل کی نوید ہوتی ہے۔ اس لئے علامہ مرحوم کے والد کی سختی اور سرزنش نے کام دکھایا۔ جاڑا صاحب خطابت میں ایسے انداز میں سامنے آئے کہ اس فن میں عروج حاصل کیا اور ملتِ جعفریہ کو ایک اعلیٰ پایہ کا مصنف اور مقرر دستیاب ہوا۔ سرائیکی زبان میں خطابت کے بادشاہ قرار پائے، بالخصوص سرائیکی زبان میں مصائب ِآل محمد ؐ کے بیان میں انہیں خاص ملکہ حاصل تھا۔ میں ان کی اس صلاحیت کا عینی شاہد ہوں۔ ایک سال انہوں نے امام بارگاہ شاہ گردیز ملتان میں عشرہ محرم سے خطاب کیا، میں بطور طالب علم اور شاگرد پورے عشرے میں ان کے ساتھ رہا۔

مجھے آج بھی یاد ہے کہ روز ِ عاشور جب انہوں نے شہادت ِامام حسین ؑ پڑھی تو لوگوں پر نہ صرف رقت طاری تھی بلکہ بیسیوں لوگوں نے دیواروں سے ٹکریں ماریں۔ یہ کرائے کے پیٹوں کا زمانہ نہیں تھا بلکہ خلوص ِنیت اور درد ِ دل سے پڑھی جانے والی مجالس کا اثر تھا۔ علامہ مرحوم کا یہ خاصہ بھی تھا کہ وہ مجالس کے دوران معقولات کا استعمال بہت زیادہ کرتے تھے، جس کے سبب سامعین کی دلچسپی برقرار رہتی تھی اور لوگوں تک بات بھی بڑے خوبصورت انداز میں پہنچتی تھی۔ دورانِ مصائب بھی دنیا کے حالات کی مثالیں دیتے تو لوگوں کے دلوں پر چوٹ پڑتی تھی اور انہیں کربلا کے مظلومین کے درد کا احساس ہوتا تھا۔ ذاتی طور پر بہت اچھی خصلت کے انسان تھے۔ کوئی علمی تکبر یا طبقاتی غرور نہیں تھا بلکہ محبت کرنے والے آدمی تھے۔ شفیق استاد تھے۔ طالب علموں کے ساتھ بہت قریبی اور محبت آمیز تعلق رکھتے تھے۔ اگرچہ میں براہ ِراست ان کا شاگرد نہیں رہا، مگر اس کے باوجود وہ میرے ساتھ ہمیشہ محبت اور عزت سے پیش آتے رہے۔ عزیزوں اور بیٹوں کی طرح احترام دیتے رہے۔

ہمارے والدِ گرامی کے ساتھ علامہ مرحوم کی محبت اور ہمارے گاؤں میں مسلسل آمدو رفت بھی اس احترام اور عزت کا خاص سبب تھا۔ مجھے ذاتی طور پر دینی علوم کی طرف متوجہ کرتے رہتے تھے۔ ان کے فرزند حکیم محمد باقر جاڑا ہمارے صمیمی دوست تھے۔ اس گہرے تعلق کے سبب ان کی خواہش تھی کہ میں دریا خان میں قائم شدہ ان کے مدرسے میں بطور مدرس خدمات انجام دوں، لیکن ہمارے داخلی حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ میں دریا خان میں ان کی پیشکش قبول کروں۔ ستر سال کی مختصر زندگی میں مرحوم نے مکتبِ تشیع کے لیے بے پناہ خدمات انجام دیں۔ مقامی علاقے ڈیرہ اسماعیل خان کے عوام کے لیے انہوں نے تبلیغی و علمی میدان اور سماجی و فلاحی میدان میں بہت لازوال خدمات انجام دیں، جن کے آثار آج تک موجود اور باقی ہیں۔

حسنِ اتفاق ہے کہ آج جن لمحات میں ہم علامہ مرحوم کو خراج ِعقیدت پیش کرنے کے لیے الفاظ جوڑ رہے ہیں، آج کا دن یعنی پانچ دسمبر ان کی وفات کا دن ہے۔ آج سے اکتیس سال قبل انہوں نے داعی اجل کی صدا پر لبیک کہا تھا لیکن وہ اپنی تحریروں، تقریروں اور بالخصوص تفسیروں کے ذریعے زندہ و تابندہ ہیں اور ہم سب ان کی افادات سے مستفید ہو رہے ہیں۔ وہ یقیناً مرحوم بھی ہیں اور مغفور بھی۔ ہماری فقط اتنی دعا ہے کہ اللہ تعالےٰ ان کے درجات کو عالی و متعالی فرمائے اور ہمیں ان کے علمی و قلمی مشن کو زندہ رکھنے کی توفیق بخشے۔
خدا رحمت کند آں عاشقان ِپاک طینت را
خبر کا کوڈ : 967088
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
ما شاء اللہ
آقا صاحب صوبہ خیبر پختونخواہ سمیت پاکستان بھر کے جن بزرگ جید علماء سے متعلق آپکی ملاقاتیں رہیں اور انکے جو واقعات آپکے علم میں ہیں یا راوی معتبر و مستند ہیں تو وہ بھی آپ ضرور تحریر فرمائیں، سادہ زیست جامع الشرائط صالح علماء سے متعلق۔ پاکستان میں تحریک جعفریہ کا کردار زیر قیادت علامہ ساجد نقوی صاحب، اس پر بھی لکھا جانا چاہیئے۔
ہماری پیشکش